طاقت والوں کاقانون وانصاف سے بدلہ: ’’روک سکو تو روک لو‘‘

طاقت والوں کاقانون وانصاف سے بدلہ: ’’روک سکو تو روک لو‘‘
 طاقت والوں کاقانون وانصاف سے بدلہ: ’’روک سکو تو روک لو‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ن لیگ کو گلہ ہے کہ’’ عدالت عظمیٰ‘‘ نے انکی ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کی کرسی جو جواز بنا کر خالی کروائی ہے اسکا وہ جواز بنتا نہیں تھا اس لئے انہیں حیرانگی سے زیادہ پریشانی ہوئی ہے۔پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ یعنی جن جماعتوں نے پانامہ کیس فائل کیا تھا اور پھر جیتا ان کے مطابق’’ عدالت عظمیٰ‘‘ کا فیصلہ حق کی فتح اور صدیوں یاد رکھا جائے گا، جبکہ براہ راست متاثرہ میاں محمد نواز شریف نے نااہلی کے دوسرے ہی روز طویل خطابی نشست میں اپنے اچھے کردار اور اچھے طریقے سے چلائی گئی وزارت عظمیٰ پر روشنی ڈالی اور اس کے ساتھ ساتھ سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’عدالت عظمیٰ‘‘ نے انکی’’ وزارت عظمیٰ‘‘ کے حوالے سے جو فیصلہ کیا ہے وہ تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد نہیں رکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اپیل کی کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں جو کردار ادا کیا اس پر انہیں سراہا جانا چاہیے تھا ۔ یہ تقریر انہوں نے وزیر اعظم ہاوس خالی کئے جانے کے بعد اپنے بھائی جو وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں انکے سرکاری’ پنجاب ہاوس‘ میں منتقل ہونے کے بعد کی ،اس وقت انکا سٹیٹس صرف اور صرف نااہل وزیر اعظم اور نا اہل سیاسی رہنما کے علاوہ کچھ نہیں لیکن وہ آئینی ن لیگ بلکہ اسکے پارلیمانی اجلاس کی صدار ت کر رہے تھے۔ انہوں نے اس اجلاس میں اپنے چھوٹے بھائی میاں محمد شہباز شریف جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں انکو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا ۔اوہو۔ معذرت خواہ ہوں، ان سے قبل پینتالیس یاپچاس ’’ایام مخصوصہ‘‘ کے لئے وہ یہ ’’وزارت عظمی ٰ‘‘ کی کرسی عارضی طور پر اپنے دیرینہ ساتھی جنہوں نے انکے ساتھ ایک وقت جیل میں گزارا تھا ،شاہد خاقان عباسی کو دیں گے۔


حد ہے ویسے ۔اس وقت ن لیگ کے ذاتی اراکین اسمبلی کی تعداد ایک سو اٹھاسی ہے جسمیں ایک سو سینتالیس جنرل نشستوں سے جیت کر آئے ہیں، ان میں انہیں کوئی وزارت عظمیٰ کے لئے سوٹ نہیں کیا۔۔ یاد آیا ان منتخب اراکین اسمبلی میں سے ایک تو انہی ’’نااہل وزیر اعظم ‘‘، اب پتا نہیں یہی ٹرم بنے گی یا کچھ اور۔۔ کہیں بڑے میاں صاحب کی شان میں گستاخی نہ کررہا ہوں۔۔ یعنی میاں محمد نواز شریف کے سگے بھتیجے اور نامزد وزیر اعظم کے بیٹے حمزہ شہباز شریف بھی ہیں انہی کو شاہی تاج پہنا دیتے ، 280 دن کے لئے ایک ہی وزیر اعظم تو ہوتے اوروفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب کی دوبارہ تاج پوشی کی تقریب بھی نہ کروانا پڑتی۔ ابھی وہاں کا فیصلہ نہیں ہوا کہ سلطنتِ پنجاب کی حکمرانی کس کو سونپی جائے گی۔ وہ بھی قسط وار ہوگی یا مستقل۔ اس کا بھی ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔


یقین کریں مجھے اپنے ملک سے بہت پیا ر ہے لیکن جب اس طرح کی بڑے پیمانے پر قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں دل کر تا ہے بندہ چیختا ہوا کہیں منہ کر جائے اور واپس یہاں کا منہ نہ کرے ،نا جانے کیوں طاقت والے لوگ اس کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں ۔


’’وزارت عظمی ٰ‘‘ کا ایک الیکشن منگل کو ہوگا، ایک الیکشن پھر پنجاب کی ’’وزارت اعلیٰ ‘‘شپ کے لئے ہوگا، اسکے صوبائی وزرا کی وزارتیں ختم ہونگی،پھر دوبارہ انکی حلف برداری ہوگی، پھر ایک الیکشن این اے ایک سو بیس کا ہوگا ،چلو وہ تو ہوناہی تھا، پھر اس پر لڑنے والے میاں شہباز شریف کی ٹھکرائی گئی صوبائی نشست پر ایک اور الیکشن ہوگا، قانون کو اپنے باپ کا غلام سمجھنے والوں کا کھیل یہیں ختم نہیں ہوتا، اگر میاں شہباز شریف جیت گئے تو ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کی نشست سے شاہدخاقان عباسی مستعفی ہونگے، پھر ساری وفاقی وزارتیں بھی تحلیل ہونگی پھر چھوٹے میاں صاحب کو بڑے منصب پر بٹھانے کے لئے الیکشن ہوگا۔ صرف یہ ثابت کرنے کے لئے بڑے میاں صاحب کو گھر بھیجا تھا نہ یہ لو ’’روک سکو تو روک لو‘‘ چھوٹے میاں صاحب اسی نشست پر آگئے جس پر سے بڑے میاں صاحب کو ہٹایا گیا تھااور وہ بھی صرف دو ماہ میں ۔۔۔ اس سارے معاملے میں قصور وار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں جنہوں نے انکو قانون کی دھجیاں اڑانے کے لئے کھلا چھوڑ رکھا ہے اور اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ وہ اپنی ذاتی سیاست اور غصے کے اظہار کے لئے سب کچھ کرجائیں ۔۔ نا جانے کب آئے گا وہ وقت جب قانون کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں سے آہنی ہاتھوں نپٹا جائے گاتاکہ وہ پھر قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے باز آجائیں۔

مزید :

کالم -