فاضل اعلیٰ عدالت کے فیصلے پر رائے میں احتیاط کی ضرورت ہے
تازہ سیاسی منظر نامہ پر سلیم کوثر کے یہ اشعار صادق آ رہے ہیں:
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی ہم بول اُٹھے ورنہ
گواہی دینے والے واقعات تبدیل کر لیتے
وہی کردار ہیں، تازہ کہانی میں
جو پہلے کبھی چہرہ کبھی قبا تبدیل کر لیتے
ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی ہر جگہ اور ہر خوشی و غمی کی مجالس اور نجی میل ملاقاتوں میں زیر بحث موضوع وزیراعظم کی نااہلی سے زیادہ نااہلی کی ’’بنیاد‘‘ ہے۔دونوں فریقوں کے حامیوں اور مخالفوں کی ’’گُل افشانیوں‘‘ سے قطع نظر(اچھی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خبر سنتے ہی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف الیکشن کمیشن کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہونے سے قبل ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کر کے سبکدوش ہو گئے تھے) آزاد منش،سنجیدہ قانونی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں تشویش اور اضطراب کا پہلو یہ ہے کہ فاضل جج صاحبان کو اپنے فیصلے کی ’’بنیاد‘‘ ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف کے لئے ملک میں نافذ العمل قانون ہے۔ انکم ٹیکس آرڈر 2001ء میں متعین کردہ تعریف کے بجائے کسی’’مفت‘‘ میں بیان کردہ ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف کا سہارا لینے کی ضرورت کیوں پڑی؟ ممکن ہے کہ آنے والے دِنوں میں فاضل بنچ یا متاثر فریق کی درخواست کو فل کورٹ کے سامنے نظرثانی کی درخواست کی اجازت ملے تو دورانِ سماعت اس کی وجوہات سامنے آ سکیں، یہ بات نامہ نگار ’’فیصلے کے قانونی و آئینی نکات کے حسن و قبح پر بحث و تمحیص کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،تاہم ’’ورکنگ جرنلسٹ‘‘ کے طور پر پیشہ صحافت سے کئی عشروں کی وابستگی کی بنا پر یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ 1954ء کے مولوی تمیز الدین کیس کے بعد یہ دوسرا بڑا اہم سیاسی کیس ہے جس پر فیصلہ ’’تکنیکی‘‘ بنیاد پر صادر کیا گیا ہے کہ جس نے اس حلقے کو بھی تشویش میں مبتلا اور حیرت زدہ کر دیا ہے کہ جن کی خواہش اور دِلی آرزو تھی پاناما کیس میں کرپشن کے الزامات کی زد میں آنے والے اقتدار پر متمکن لوگوں کے خلاف عدالت کا فیصلہ آئے تو ان کے خلاف نااہلی کے اتنے ٹھوس ناقابلِ تردید ثبوت و شواہد فیصلے کی بنیاد ہوں۔جو آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سمیت ملک میں ’’رائج قانون کی میزان‘‘ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آئے ،مگر بدقسمتی سے نااہلی کی بنیاد بننے والا فیصلہ آزاد منش آئینی و قانونی ماہرین کے نزدیک بھی سوالیہ نشان اور متنازعہ فیصلہ ہے جس کا اظہار یہ ماہرین آئین و قانون تواتر کے ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ٹاک شوز میں کر رہے ہیں جہاں تک معاملہ ہے اس کے منفی یا مثبت سیاسی مضمرات کا بہت کچھ فیصلے سے متاثر فریق سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اس حکمتِ عملی پر ہو گا جو آنے و الے دِنوں میں قانون کی عدالتوں میں اپنے اور اپنی فیملی کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ’’نیب‘‘ کیسوں سے نمٹنے اور عوام کی عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لئے ترتیب دیں گے، فی الوقت تو ان کے سارے مخالف قانونی محاذ پران کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، کیونکہ ان کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے والے تینوں پٹیشنرز جناب عمران خان، جناب سراج الحق اور جناب شیخ رشید احمد میں سے کسی کی پٹیشن میں نااہلی کے لئے لگائے گئے الزامات میں سے کسی ’’نکتہ‘‘ کو سپریم کورٹ نے میاں محمد نواز شریف کو نااہل کرنے کے لئے اپنے فیصلے کی بنیاد نہیں بنایا ہے۔ ان حضرات نے جو الزامات لگائے ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی نے تحقیقات کر کے جو رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی تھی اس پر فاضل عدالت کا تین رکنی عملدرآمد بنچ یہ کہہ چکا ہے کہ اس رپورٹ میں وزیراعظم پر قومی خزانہ اور قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے یا اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا براہ راست الزام ثابت نہیں ہے۔ ’’نیب‘‘ ریفرنس پر احتساب عدالتیں کیا فیصلہ دیتی ہیں؟اس پر کوئی تبصرہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ ماہرین آئین و قانون ’’نیب‘‘ ریفرنس پر سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی کے حکم پر بھی آئینی و قانونی سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ یہ سوالات فاضل بنچ تک بھی پہنچ رہے ہوں گے وہی اس پر نظرثانی کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو ہر سطح پر قائم ہونے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھنے کے خواہش مندوں کے لئے اس متنازعہ فیصلے کا روشن پہلو یہ ہے کہ اس فیصلے میں دو ٹوک اور واضح طور پر صدرِ مملکت کو کہا گیا ہے کہ وہ آئین کے تسلسل کو فی الفور یقینی بنائیں۔ سپریم کورٹ کے اس حکم نے وطنِ عزیز میں ’’عطائی نظام‘‘ کے خواہش مندوں کی امید اور آرزو پر وقتی طور پر ’’اوس‘‘ ضرور ڈال دی ہے، مگر یہ خطرہ مکمل طور پر اس وقت ختم ہو گا، جب ہماری سیاسی قیادت باہم دست و گریبان ہونے کے بجائے آئین کے طے کردہ دائرۂ کار میں رہتے ہوئے رول آف گیم پر اتفاق رائے کر کے آنے والے انتخابات کو دھاندلی کے الزامات سے پاک کرنے کے لئے وقتی ضرورتوں اور گروہی اور مخفی سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر انتخاب کو آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ ،صاف شفاف بنانے کے لئے جلد از جلد انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرا کے نافذ کرائیں،کاش ہماری سیاسی قیادت آج بھی پڑوسی ملک بھارت کی طرح الیکشن کمیشن کو مضبوط کر کے انتخابی نتائج کو متنازعہ نہ بنانے کے ’’میثاق‘‘ پر اتفاق رائے کر لے،بھارت کی سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو متنازعہ نہ بنانے کا ’’میثاق‘‘ 1947ء میں آزادی کے فوراً بعد ہی کر لیا تھا، جس پر بھارت میں ستر سال سے عمل ہو رہا ہے۔بھارت میں انتخابات میں بے قاعدگیوں کے خلاف انتخابی عذر داریاں تو ضرور ہوتی ہیں اور شکایت درست ثابت ہونے پر عدالتوں سے بھارت کی مقبول عام وزیراعظم نااہل بھی ہوتی ہیں مگر انہوں نے اس کے بعد بھی انتخابی نتائج کو متنازعہ نہیں بنایا۔کاش ہم بھی بہت پہلے یہ روش اپنا لیتے تو وطنِ عزیز کو بھی بار بار ’’عطائی نظام‘‘ کا عذاب نہ بھگتنا پڑتا۔ آج بھی وطنِ عزیز میں سیاسی استحکام اور سیاسی عمل کی بقا کو یقینی بنانے کے لئے عافیت اور سلامتی کا یہی راستہ ہے۔
یہ سطور شائع ہوں گی تو حکمران جماعت کے قائد میاں محمد نواز شریف کی جگہ ان کے منصب پر ان کے نامزد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھاری اکثریت سے منتخب ہونے کے بعد اپنے منصب کا حلف اٹھا کر اس آئینی خلا کو پُر کر چکے ہوں گے، جو سپریم کورٹ کے وزیراعظم کو نااہل کرنے کے فیصلے میں اس سقم کی وجہ سے چار دن سے کوئی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی وزیراعظم تھا قانونی ماہرین اس سقم کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ آئین میں جس طرح صدر کی عدم موجودگی میں از خود چیئرمین سینیٹ صدر کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے اسی طرح کوئی آئینی بندوبست وزیراعظم کی عدم موجودگی میں بھی ضروری ہے۔
ماضی میں جب بھی ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے یا ’’بندوق برداروں‘‘ کے دورِ اقتدار میں ریاستی جبر کے تحت نافذ کئے گئے قوانین کی ’’سان‘‘ پر لٹکا کر منتخب وزیراعظم کو رخصت ہونے پر مجبور کیا گیا تھا تو کبھی سیاسی منظر نامہ رخصت کئے جانے والے وزیراعظم کے لئے ایسا حوصلہ افزا نہیں تھا جیسا سپریم کورٹ کے حکم پر سبکدوش ہونے والے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حق میں نظر آ رہا ہے۔اس طرح کا منظر پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ اس منظر نامہ کو مزید تابناک بنانے کے لئے لازم ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے ترجمان اور میڈیا منیجرز سب حد درجہ احتیاط کے ساتھ ان حدود و قیود کا خیال رکھیں جن کو ملحوظ خاطر رکھنے کی وجہ سے وہ میاں نواز شریف کی راہ میں کانٹے بو سکتے ہیں۔ خاص طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر رائے زنی کرتے وقت میڈیا ٹاک شوز میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔فیصلے پر تنقید و تبصرہ ہر ایک کا بنیادی حق ہے اور آئین اور ملک کا قانون سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر ایک کو قاعدے قانون کے دائرے میں رہ کر شائستہ انداز میں تنقید و تبصرہ اور تجزیے کا حق دیتا ہے،مگر ہمیں الفاظ کے چناؤ میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔اگرچہ عدلیہ کی توہین کے اصل مرتکب تو وہ سیاسی قائدین ہو رہے ہیں جو ان ججوں کا نام لے کر اپنے سیاسی جلسوں میں ان کے حق میں نعرے لگوا رہے ہیں اور ببانگِ دہل الزام لگا رہے ہیں کہ ان ججوں کو اربوں روپے کی رقم سے خریدنے کی کوشش کی گئی جو ان ججوں نے اپنی جوتی کی نوک پر رکھ کر ٹھکرا دی ہے۔ اب فاضل عدالت کو یہ کہنے والوں کو بلا کر ضرور پوچھنا چاہئے کہ ان کو یہ خبر کیسے اور کس نے دی اور ان کا ذریعہ معلومات کیا ہے؟اگر کسی نے یہ کوشش کی تھی تو اسے عدالت میں لایا جائے یا الزام لگانے والوں کو ’’صادق و امین‘‘ کی ’’آئینی کسوٹی‘‘ سے گزار کر ’’پاک‘‘ کیا جائے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے اس کا تدارک نہ کیا تو خواہشوں کے اسیر گروہ اس باوقار آئینی ادارے کے وقار کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی اگرچہ وزیراعظم کی نااہلی کے فیصلے کی تائید تو کر رہی ہے، مگر اس فیصلے کی بنیاد بننے والی وجہ ’’اقامہ‘‘ اور اس معاہدے میں درج وہ تنخواہ جو وصول بھی نہیں کی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نہیں، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو بھی خوف اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کوئی جشن منایا اور نہ ہی کوئی ہلہ گلہ کیا اور نہ ہی ناچ کیا اور نہ ہی کارکنوں کو بھنگڑا ڈالنے کی اجازت دی۔وجہ صاف ہے کہ ملک سے باہر خاص طور پر دبئی یا دیگر خلیجی ممالک میں رہائش پذیر سب ہی کو ’’اقامہ‘‘ لینا پڑا ہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ’’اقامہ‘‘ کی وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف سے تردید کی گئی ہے، مگر ان کا ردعمل اس امر کا غماز ہے کہ وہ اور ان کی اعلیٰ قیادت پر ’’اقامہ‘‘ اور ’’اقامہ‘‘ کی شرائط میں درج تنخواہ جو وصول نہ بھی کی گئی ہو تب بھی ’’اثاثہ‘‘ کی تعریف نے خوف کی تلوار لٹکا دی ہے۔البتہ سندھ حکومت کا یہ اعتراض بالکل درست ہے کہ گورنر سندھ محمد زبیر کو سیاسی سرگرمیوں سے احتراز کرنا چاہئے۔ گورنر سندھ کو مسلم لیگ(ن) کے ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ ووٹ مانگنے کے لئے ایم کیو ایم کے دفتر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔
