نو منتخب وزیر اعظم کی تقریروژن کیساتھ گھائل ن لیگ کے جذبات کا اظہار

نو منتخب وزیر اعظم کی تقریروژن کیساتھ گھائل ن لیگ کے جذبات کا اظہار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ سہیل چوہدری

وفاقی دارالحکومت بالآخر4روز سے سے جاری سیاسی و آئینی بحران سے باہر نکل آیا ، 4روز تک ملک میں کوئی منتخب حکومت نہ تھی، جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ملک ایک سیاسی و آئینی بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو شاید اپنی تاریخ کے سب سے کڑے امتحان کا سامنا تھا۔ ایک بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی یک لخت نا اہلی سے پاکستان مسلم لیگ(ن) میں شدید غصہ و اضطراب موجود تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف جشن منا رہی تھی۔ لیکن زخم خوردہ جماعت نے بالآخر گزشتہ روز قومی اسمبلی کے انتہائی اشتعال انگیز ماحول میں اپنا بھر پور غصہ پارٹی قیادت کی جانب سے نامزد کردہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو منتخب کر کے نکالا۔بظاہر یہ لگتا ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی رخصتی کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ایک نئے وزیر اعظم کا انتخاب ایک معمول کا عمل ہے لیکن وفاقی دارالحکومت میں جس طرح کے اشارے مل رہے تھے انکی روشنی میں یہ ایک مشکل مرحلہ قرار دیا جا رہا تھا۔ حکمران جماعت کی مخالف سیاسی قوتوں کا خیال تھا کہ اب پاکستان مسلم لیگ ن کسی صورت متحد نہیں رہ سکتی۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے بارے میں قیاس آرئیاں جاری تھیں کہ وہ قومی اسمبلی سے اراکین ایک دھڑے کیساتھ الگ ہوئے کہ ہوئے چاھتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں ہر وقت سازشوں کا تانا بانا بنا جا رہا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض معتدل حلقوں کا بھی یہی خیال تھا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا انتخاب با آسانی نہیں ہو پائے گا۔ سازشی تھیوریوں کے ماحول میں چلنے پھرنے والے دارالحکومت کے باسی کسی بھی سیاسی عمل پر ہر وقت شاکی ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار اسلام آباد میں ایک مختلف ماحول دیکھنے کو ملا ۔ بظاہر سیاسی بے یقینی کے ماحول میں جب سے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کے پارلیمانی اجلاس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو نامزد کیا اسوقت سے پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ایک اعتماد کی فضا نظر آئی۔ پاکستان مسلم (ن) کے اراکین اسمبلی خاصے پر جوش بلکہ کسی حد تک مشتعل نظر آرہے تھے۔ بیشتر اراکین اسمبلی نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے پورٹریٹ اپنی نشستوں کے آگے رکھے ہوئے تھے اور وقفہ وقفہ سے لہراتے ہوئے بھی نظر آئے ۔ جبکہ حکمران جماعت کے اراکین اپوزیشن کے اراکین کو ہر موقع پر نہ صرف ترکی بہ ترکی جواب دے رہے تھے بلکہ بعض اوقات یہ گمان ہوتا تھا کہ اب دھینگا مشتی شروع ہوئی کہ اب شروع ہوئی، گزشتہ روز کے اجلاس کا منظر اس لحاظ سے غیر روائتی تھا کہ حکمران جماعت کے اراکین اسمبلی مشتعل اپوزیشن کی مانند رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ بالخصوص پاکستان مسلم لیگ(ن) کے بعض اراکین اسمبلی وزارت عظمیٰ کے امیدوار شیخ رشیداحمد کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض اوقات شیخ رشید احمد کے چہرے سے غصہ ٹپکتا تھا تو کبھی بے بسی ،حتیٰ کہ خون بھی مترشح ہوتا تھا۔ مہمانوں اور پریس کی گیلری کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں قومی اسمبلی میں مری اور راولپنڈی کے لوگوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی۔ اراکین اسمبلی اور گیلریوں میں مہمانان مسلسل نعرے بازی کر رہے تھے جبکہ سپیکر ہاؤس ان آرڈر کرنے کیلئے بار بار سارجنٹ کو ہدایات دے رہے تھے لیکن انہیں کامیابی نہیں مل رہی تھی تاہم اس شور شرابے میں 5بجکر 17منٹ پر سپیکر نے وزیر اعظم شاید خاقان عباسی کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں خطاب کی دعوت دی لیکن نومنتخب وزیر اعظم نے کہا کہ سپیکر رولنگ دیں تو وہ خطاب کریں جس پر سپیکر نے 5بجکر 20منت پر رول نمبر35کی ذیلی شق چار کا حوالہ دیتے ہوئے انکی کامیابی کی رولنگ دی جس کے بعد نو منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے پہلے خطاب میں نہ صرف اپنی جماعت کے جذبات کی بھر پور ترجمانی کی بلکہ آئندہ پالیسیوں کے حوالے سے اپنا ایک وژن پیش کیا،نو منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا قومی اسمبلی سے پہلا خطاب انکے بارے میں عمومی توقعات سے زیادہ زوردار اور پر اثر تھا۔ کوئی باقاعدہ لکھی ہوئی تقریر نہ تھی لیکن انہوں نے کچھ نکات لکھ رکھے تھے جنہیں دیکھ دیکھ کر وہ تقریر کر رہے تھے تاہم تقریر کا دلچسپ ترین پہلو یہ تھا کہ تقریر کرنے کے دوران انہوں نے ایوان میں اٹھنے والی ہر تنقیدی آواز کا بھر پور جواب دیا جس پر بار بار ڈیسک بھی بجائے جاتے رہے اور مہمانوں کی گیلریوں میں تالیاں بھی بجتی رہیں قومی اسمبلی میں جمشید دستی اور شیخ رشید کا سامنا خاص مشکل ہوتا ہے لیکن نومنتخب وزیر اعظم نے انہیں بھی برجستہ جوابات دیئے تاہم شاہد خاقان عباسی نے سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ وہ جب سیاست میں آئے تھے تو انکے اثاثے زیادہ اور طرز زندگی بھی زیادہ بہتر تھا لیکن اب اس سے کم ہیں۔ نو منتخب وزیر اعظم کی تقریر کا سب سے خوبصورت پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اپنے گھائل شدہ اراکین اسمبلی کے جذبات کی بھر پور تشفی کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو عوام کے وزیر اعظم کا نام دیا ۔ انہوں نے واضع کیا کہ وہ اس عہدہ پر آرام کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف کام کرنے کیلئے آئے ہیں اور کہا کہ وہ45دنوں میں 45ماہ کا کام کریں گے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پالیسی گائیڈ لائن کے حوالے سے کچھ سخت اقدامات کا عندیہ دیا۔ ان میں سب سے اہم ترین ایسے لوگ جن کا رہن سہن اور طرز زندگی انکی قابل ٹیکس آمدنی سے میل نہیں کھاتا انہیں ٹیکس کے پھندے میں ہر صورت لانے کا عزم ظاہر کیا،پاکستان کی معیشت کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ ٹیکس چوری ہے انہوں نے ملکی مفاد میں ایک غیر مقبول فیصلے کا اعلان کیا اسی طرح ملک سے آٹو میٹک اسلحہ کے خاتمے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ۔ انہیں ان دونوں فیصلوں پر رد عمل کا سامنا کرنا ہو گا لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی۔ ان کی اس تقریر سے لگتا ہے کہ وہ ملکی مفاد میں بعض غیر مقبول فیصلے کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ بعد ازاں انہوں نے ایوان صدر میں ایک مختصر اور پروقار تقریب میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا،انہوں نے یہ بھی کہا مسلم لیگ ن کی حکومت میں معیشت کو استحکام ملا ہے تاہم وہ نمو پذیر معاشی پالیسیاں اپنائیں گے جس سے لوگوں کو روزگار ملے گاجبکہ زراعت ،تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بھی ترجیحی اہمیت دی جائیگی۔

مزید :

تجزیہ -