حکمران بتائیں آزادی کیلئے قربانیاں دینے والوں کیلئے کیا گیا ‘ حکیم عبدالمجید رحمانی
ملتان (سٹی رپورٹر)قیام پاکستان کے وقت محمود کوٹ میں رہائش پذید 80سالہ حکیم مولانا عبدالمجید رحمانی نے کہاہے کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو میری عمر14سال تھی اور میں چھٹی کلاس کا طالب علم تھا بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی خبریں سن سن کر پورے پاکستان میں اداسی کا عالم تھا پر طرف خاموشی تھی شہر و دیہات میںآباد تمام مسلمان پریشانی میں مبتلا تھے جب پاکستان بننے کی تحریک چل رہی تھی تو اس علاقے میںآباد ہندوؤ ں و سکھوں کو شدید پریشانی تھی اور وہ سخت غصے میں تھے جہاں کوئی مسلمان اس پر حملہ کر دیتے ہمارے علاقے میں رات بھر نوجوان جاگ کر گزارتے(بقیہ نمبر41صفحہ12پر )
جہاں ہی کسی ہندو یا سکھ کے آنے کی اطلاع ملتی تو شور مچ جاتا آگئے آگئے اس کے بعد پورے علاقے کے نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے سوٹے یا چریا اٹھا کر نکل پڑتے، جب پاکستان بننے کا علان ہوا تو اساتذہ نے مدرسہ کی چھٹیاں کر دیں اور کہاکہ اب پاکستا ن بن گیا اسلامی نظام نافذ ہو جائے گا ایک طرف تو پاکستان بننے اور ہندو بنیے سے چھٹکارے کی خوشی تھی تو دوسری طرف بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں پر ہو نے والے ظلم کا افسوس تھا پاکستا ن بننے کے کچھ دنوں کے بعد بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کا قافلہ جب ہمارے آبائی علاقے محمود کوٹ آیا تو دور دور سے لوگ ان کی ملنے اور ان کی مدد کرنے کے لئے محمود کوٹ آئے جس کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے مہاجرین کی خدمت میں پیش کر دیا ہزاروں افراد کے قافلے میں کوئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں تھا جو مکمل طور پر تندرست ہو کوئی سکھوں کے ہاتھوں زخمی ہوا تھا تو کسی کے اوپر ہندو ؤں نے ظلم کیا ، کئی دن گذرنے کے باوجود بھی ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا چھوٹے بچے خوراک کی کمی کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہو گئے تھے خواتین پیدل چل چل کرنڈ ھال ہو چکی تھی ہزاروں کے قافلے میں موجو سینکڑوں خاندانوں میں سے کوئی ایک خاندان بھی ایسا نہیں تھا جو پورا کا پورا پاکستان میں داخل ہوا ہو کسی کا بیٹا بچھڑ ا تو کسی کی بیٹی کسی کا باپ قتل ہوا تو کسی جوان بیٹا کسی ایسے افراد بھی محمود کوٹ آنے والے قافلے میں شامل تھے جو صرف اکیلا ہی بچا تھا اور اس کے خاندان کے باقی سارے کے سارے افراد شہید کر دےئے گئے تھے حکیم مولا نا عبد المجید رحمانی نے کہاہے کہ بھارت سے آنے والے قافلے کے حالت دیکھ کر کوئی شخص بھی ایسا نہیں تھا جو زارو قطار روئے بغیر رہ سکا ہے بلکہ ہماری خواتین کئی کئی دن تک اپنے گھروں میں آکر کھانا نہیں کھاتی تھی اور ہر وقت روتی رہتی تھی انہوں نے کہاہے کہ ہمارے جیسے نوجوان روزانہ نزدیکی علاقوں میں جاتے اور مہاجرین کے لئے راشن جمع کرکے لاتے اور پھر ان کا کھانا تیار کرکے کھانے کھلاتے جبکہ بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین خواتین و حضرات نے کئی کئی روز تک کھانا نہیں کھایا بلکہ وہ اپنوں سے بچھڑ جانے والے رشہ داروں احبابوں کو یاد کرکے روتے رہتے تھے مہاجرین کے کئی شیر خوار بچے محمو دکوٹ پہنچ کر مناسب سہولتیں نہ ملنے اور علاج نہ ہونے کے باعث اللہ کو پیارے ہو گئے جن کی ہمارے بزرگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے تدفین کی انہوں نے کہاہے کہ لاہور ، کراچی جیسے بڑے شہروں میں آنے والے مہاجرین کو تو فوری طور پر حکومت کی جانب سے کچھ نہ کچھ امداد بھی مل گئی اور ان کو سرکاری ملازمتیں فراہم کر دی گئی لیکن محمود کوٹ سمیت دیگر دیہاتوں میں آنے والے مہاجرین کو سال ہا سال تک حکومت کی جانب سے کسی قسم کی امداد فراہم نہیں کی گئی بلکہ ان کے ساتھ مقامی لوگوں نے بھرپور تعاون کیا بلکہ ان کو مقامی سطح پر روزگار و مزدوری کے مواقع بھی فراہم کئے حکیم مولانا عبدالمجید رحمانی کا کہنا ہے کہ آج کا پاکستان دیکھ کر بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین کی قربانی یاد آتی ہے کہ انہوں نے کس طرح اس ملک کے لئے اپنے تن ،من ،دھن، اور پیاروں کی قربانیاں دی آج کا پاکستان دیکھ کر ان کی روح کو کس طرح سکون آرہا ہو گا 70سالوں سے حکومتوں میں موجود حکمران اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ انہوں نے پاکستان کے لئے قربان ہونے اور قربانیاں دینے والوں کے لئے کیا کیا ہے جس مقصد کے لئے انہوں نے قربانیاں دیں دی کیا وہ مقصد آج پورا ہو گیا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو تاریخ تمہیں معاف کرے گی نہ آنے والی نسلیں معاف کریں گے بلکہ اگر تم اپنے گریبان میں جھانکوں گے تو تمہیں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا انہوں نے کہاہے کہ ہم نے تو صرف اس ملک کے لئے قربان ہونے والوں کو دیکھا ہے ہم آج تک وہ منظر نہیں بھول سکیں گے جن لوگوں کے قربانیاں دیں ہیں آج ان کا کیا حال ہو گا ۔
