مکرانی کھجور مجبور کاشتکار

مکرانی کھجور مجبور کاشتکار
مکرانی کھجور مجبور کاشتکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلوچستان کے ساحل ملکی دفاع کے لئے ناقابل تسخیر جغرافیائی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی ساحل سے سالانہ اربوں ڈالرز کی اعلیٰ کوالٹی کی مچھلیاں اور جھینگے مختلف ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیں۔ جس سے جو زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے وہ براہ راست ہمارے ملکی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ دوسری طرف بلوچستان کا مکران ڈویژن ہے جو کہ سالانہ ایک سو ستائیس میٹرک ٹن کھجور برآمد کرتا ہے۔ جس میں ایک سو بیس کے قریب اقسام پائی جاتی ہیں۔ مکران میں اعلیٰ درجہ کی کھجور پیدا ہوتی ہے۔ جس میں موضاتی ، بیگم جنگی ، آب دندان ، کوزن باد ، جدگالی ، شکری ، سبزو ، ہلینی ، گوگ نا ، کنگو ، اور دیگر اقسام پائے جاتے ہیں۔ مکران میں پیدا ہونے والی کھجور ملک اور بیرون ملک میں شوق سے کھایا جاتا ہے۔ مکران کی کھجور ایران ، عرب امارات ، امان اور دیگر خلیجی ممالک میں تحفے کے طورپر بھیجا جاتا ہے۔ اکثر بلوچستان سے منتخب ارکان اسمبلی پنجاب ، خیبر پختونخواہ ، سندھ ، اور آزاد کشمیر کے سیاسی دوستوں کے لئے مکران کی کھجور تحائف کے طورپر لے جاتے ہیں۔ جسے بیحد پسند کیا جاتا ہے۔
ماضی میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ کھجور کی سیزن ( ہامین ) میں آتے تھے۔ ہامین جو کہ بلوچی زبان کا لفظ ہے۔ کھجور کی سیزن کیلئے استمال کی جاتی ہے۔ سیزن ختم ہونے پر لوگ کھجور ساتھ لیکر واپس اپنے علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے کھجور کی سیزن (ہامین ) کا باقاعدہ انتظار کرتے تھے۔ مکران واحد علاقہ ہے ، جہاں لوگوں نے باقی بلوچستان سے آنے والے اپنے بھائیوں ، بہنوں کو کھجور کی پوری سیزن ( ہامین )میں اپنے پاس رہائش دیتے تھے۔
مکران میں کھجور ضلع کیچ اور پنجگور میں بڑی تعداد میں پیدا ہوتی ہے۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں یہ پیداوار نہیں ہوتی ، جس کی وجہ زمین میں نمکیات اور سمندر قریب واقع ہونا بتائی جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ مکران میں کب سے کھجور پیدا ہورہی ہے۔ کچھ تاریخی دستاویزات میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ سکندر اعظم نے جب بلوچستان کے مکران کے علاقوں میں کچھ عرصہ قیام کیا تھا ، تو ان کا گزر بسر بیشتر مکران کی تازہ کھجور پر ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے آج کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں بھی بلوچستان خصوصاً مکران کے کاشتکار انتہائی مشکل و مصائب کا شکار ہیں۔ نہ کوئی جدید طریقہ کار موجود ہے اور نہ ہی ان کاشتکاروں کی کوئی ٹرینگ ہے ، وہی پرانے روایتی طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں۔ سیزن سے تھوڑے عرصے پہلے کھجور کے درختوں پر چڑھ کر کھجور کے گھنچوں کو ٹوکریوں ( سوندھ ) میں ڈالتے ہیں۔ تاکہ محفوظ رہیں اور زمین پر بھی نہ گریں۔ حکومتی سطح پر مقامی کسانوں کی مدد نہ ہونے کا برابر ہے۔ جس کے باعث سالانہ کئی ٹن کھجور کی برآمدات ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے مقامی کسانوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو مطلوبہ ساز و سامان اور آسان اقساط پر لون دیئے جاتے تو آج مکران بلوچستان سے سالانہ اربوں روپے ملکی خزانے میں چلی جاتی۔چند سال قبل ایک غیر سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا کھجور پیدا کرنے والا ملک ہے۔ جبکہ بلوچستان کے مکران ڈویژن میں سالانہ ستر فیصد کھجور پیدا ہوتی ہے۔ کھجور جو کہ دوا بھی ہے اور غذا بھی۔ مگر صحیح معنوں میں تربیت اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے مکران کے کسان سخت نالاں ہیں۔ اگر کھجور کی پیداوار کی دیکھ بھال اور کسانوں کو حکومتی سطح پر امداد مل جائے تو بیروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -