صوفی شاعر حضرت مست توکلی کی یاد میں ’’ محفل مشاعرہ‘‘ کا انعقاد
کراچی( اسٹاف رپورٹر) اکادمی ادبیا ت پاکستان کے زیراہتمام بلوچی زبان کے صوفی شاعر حضرت مست توکلی کی یاد میں ’’ محفل مشاعرہ‘‘ اور خصوصی لیکچرکا انعقاد اکادمی کے کراچی دفتر میں کیا گیا۔ جس کی صدارت اردو زبا ن کے معروف کالم نگار ، دانشور، ادیب ، شاعر سرور جاوید نے کی۔ مہمان خاص پشتوزبان کے معروف شاعر مردان سے آئے اقبال نذر تھے۔ اعزازی مہمان سیدصغیر احمد جعفری ، شگفتہ شفیق ، ذیشان الطاف لوہیہ تھے ۔صدر محفل سرور جاوید نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین پر جابجا صوفیاء کرام کے مزار ہیں لوگ صدیوں سے بڑی تعداد میں ان کی زیارت کو آتے ہیں اور لافانی نغمے بھی گاتے ہیں جوان کے دلوں کو تسکین پہنچاتے ہیں شاھ لطیف بھٹائی ہو،حضرت قلندر شہباز ہو، بابا بلھے شاھ ہو یا رحمن بابا ہو، اسی طرح بلوچستان میں بھی بلوچی زبان کے معروف شاعر حضرت مست توکلی کا مزار موجود ہے۔مست توکلی بلوچی زبان کے صوفی شاعر ہیں اور برصغیر میں تصوف کی بنیادی روایت کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں صوفیاء کرام کے کلام کی طرح متنوع اور وسیع ہے ۔ مست توکلی کے کلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے زمانے کے بلوچستان میں بلکہ آج بھی اپنے عوام کے لئے رجائیت کا نقیب ہے اور مثبت اقدار کے فروغ کے سلسلے میں اس کی تاثیر بے حد مؤثر اور تمانیت بخش سمجھی جاتی ہے۔مہمان خاص پشتوزبان کے معروف شاعر اقبال نذیر نے خصوصی لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ مست توکلی کے پاس الفاظ کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ وہ کسی دوسرے بلوچ شاعر کے پاس نہیں ہے یہ الفاظ بغیر محنت کے بھی اترتے ہیں اور در وِزہ میں مبتلا کرکے بھی نازل ہوتے ہیں ان کی شاعری بڑھتے ہوئے ایسے بیشمار الفاظ ملتے ہیں جو شاعر یہ بہت دباؤ ڈال کر خلق ہوجاتے ہیں ۔ مست کے فلسفے نے کوئی تحریری صورت اختیار نہ کی وجہ لکھ پڑھکا رواج تھا ہی نہیں پھاڑوں میں صرف سینے تھے صونہ صرف اس کے مصرعے اس میں محفوظ رہے بلکہ اپنی قبائلی سرحدات کو ملیامیٹ کرتے ہوئے عالمی ادب کا حصہ بن گئے ۔ جغرافیائی و قبائلی بندشیں سرحد یں ملیا میٹ کردیں اور لولا کے عشق کے جھنڈے اپنے فلکس بوس پھاڑوں پہ لھرائے۔ انہوں نے بلوچی زبان کے ادب میں ایسے لافانی نقوش چھوڑے ہیں جنکی آب و تاب آج بھی نگاہوں کو خیرہ کیئے دیتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرونے کہاکہ مست توکلی کے کلام میں جمالیاتی عناصر ایسے رچے بسے ہیں کہ انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مست توکلی کو ہاں ایک اور امتیازی وصف توجہ طلب ہے کہ انہوں نے اپنے معاشرے کی مجبور ومظلوم عورت کو نجات کی راہ دکھائی یہ پہلو مست توکلی کو اس روایت کے دوسرے شعراء سے جداگانہ اور بلند تر مقام عطاکرتا ہے۔مست توکلی نے وصیعت کی تھی کہ انہیں ٹکیل پھاڑ پہ دفن کیاجائے مگر جس اونٹ پہ میت رکھی تھی وہ میداں گرمی نامی ہموار جگہ پر جاکر بیٹھ گیا لوگوں نے تمام جتن کئے کہ اسے ٹیکیل پھاڑی کی جانب جانے پر آمادہ کیا جائے مگر اونٹ وہاں سے نہ اٹھا چناچہ وہیں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی قبر جوکھودی گئی اور میت اس میں رکھی گئی تو مٹی جتنی ڈالتے گئے قبر بھرتی نہ تھی مجبورً موجودہ سردار خیر بخش مری کے والد سردار مہراس خان کو بلوایا گیا ( یا ن کی چادر ان پرڈالی گئی) تو قبر خاموش ہوئی اور تدفین مکمل ہوئی۔۔اور آخر میں مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا ۔جس میں ملک کے نامور شعراء کرام نے اپنا کلام سُنا کر مست توکلی کی عظمت کوخراج تحیسن پیش کیا۔ قادربخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔