قلم کا ہتھیار
معاذ ہاشمی، پڑھے لکھے لوگوں کے لئے اجنبی نہیں۔ وہ کئی برسوں سے خاموشی کے ساتھ تحقیق و تخلیق کا کام کر رہے ہیں۔ نتیجتاً کئی تراجم و طبع زاد ”نسخے“ زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور قارئین کے علم و شعور میں اضافے کا سبب ٹھہرے۔ وہ علامہ پیر سید ایاز ظہیر ہاشمی گیلانی کے صاحبزادے ہیں جو خود کئی اسلامی کتابوں مثلاً: اخلاقیات نبویؐ، اسماء الحسنیٰ، سیرت رسولؐ ہاشمی، صوفی، راہِ صوفی، واقعاتِ نبویؐ، فیضانِ صوفیاء اور مولانا جلال الدین رومی کے زندگی بدل دینے والے چالیس اصول بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس پر ”صوفی تحریک“ اور دعا پبلکیشنز مستزاد!
معاذ ہاشمی کا شعبہء فکر و نظر قدرے مختلف ہے۔ انہوں نے ہیرلڈلیم کی شہرۂ آفاق کتاب ”سکندر اعظم“ کو اردو قالب میں ڈھالا تو دھوم مچا دی۔ سکندر اعظم کا شمار فاتحینِ عالم میں ہوتا ہے۔ اس نے بہت کم عمر میں دنیا فتح کر ڈالی تھی۔ اسی طرح ان کی دیگر متعدد شاہکار تصانیف و تالیفات قابل ذکر ہیں۔ میں نے ان کے چشم قلم سے ٹپکے آنسوؤں کو دیکھا تو ششدر رہ گیا اور بے ساختہ خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہا ہے۔
موصوف بلحاظِ عمر وسن جوان رعنا ہیں۔ کوئی چالیس کے پیٹے میں ہوں گے، مگر ان کا ذوق شوق بڑا پختہ و بزرگ ہے۔ قلم اٹھایا تو سنجیدہ موضوعات پر! مادیت کے اس خالص دور میں علم دوست ہونا کوئی کم کارنامہ ہرگز نہیں۔ ان کی رعایت سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ مستقبل میں مزید علمی کارنامے سرانجام دیں گے۔ ان کی ایک خوبی اور خوبصورتی یہ بھی ہے کہ چپ چاپ قلمی سرمایہ جمع کئے جاتے ہیں۔ سستی شہرت کے طالب نہ اندھا دولت کے پیچھے بھاگنے والے!وہ صبح و شام علم کی روشنی عام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ انہیں بھی گھر کے لئے ایک ”دیا“ چاہیے!
میں سمجھتا ہوں کہ معاذ ہاشمی قوم و وطن کو بہت کچھ دینے کا جذبہ و امنگ رکھتے ہیں۔ قلم ہی ان کا ہتھیار ہے۔وہ اس ہتھیار سے کیا کیا کام نہیں لے رہے۔ تعمیر ملت و وطن ان کا پیشہ و کاروبار ہے اور دن رات اپنی بساط، بلکہ اس سے کچھ زیادہ، اس میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ مولا کریم ان کی محنت و کاوش قبول فرمائے! آمین