کامیاب دورہ اور ناکام سیاست

کامیاب دورہ اور ناکام سیاست
کامیاب دورہ اور ناکام سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا ہے جسے تقریباً سب لوگ کامیاب کہہ رہے ہیں۔ ویسے پاکستان کے کسی حکمران کا کوئی دورہ کبھی ناکام نہیں ہوا۔ جنرل ضیاء الحق جب کسی دورے سے واپس آتے تھے تو پریس کانفرنس میں حنیف خالد صاحب پہلا سوال کیا کرتے تھے کہ سر آپ کا دورہ کیسا رہا تو ضیاء الحق کہا کرتے تھے کہ دورہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ دورہ بھی توقع سے زیادہ کامیاب رہا ہے خیر اب کچھ سنجیدہ بات ہو جائے اس دورے کی ظاہر ہے بہت تیاری کی گئی تھی۔ ممتاز اینکرکامران خان کے مطابق اس کے پیچھے پاک فوج کا ہاتھ تھا۔ دورے سے دس دن پہلے امریکی وزیر خارجہ نے ٹیلی فون پر آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب سے تفصیلات طے کی تھیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سی چیزیں جنرل باجوہ صاحب کے برطانیہ کے دورے کے دوران طے ہو گئی تھیں گویا دورے کی کامیابی کے پیچھے بنیادی بات یہ تھی کہ حکومت اور آرمی ایک پیج پر تھے پھر خارجہ پالیسی میں امریکہ جیسے ملکوں کے ساتھ تعلقات عالمی منظرنامے میں تبدیلی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

دورے کے موقع پر وہاں پاکستانیوں کا بھی ایک غیرمعمولی جلسہ ہوا۔ اس جلسے کی کامیابی کے پیچھے بھی بہت سارے لوگوں کی محنت اور سرمایہ کاری تھی۔ اگرچہ جلسے میں عمران خان کی تقریر صورت حال کے مطابق نہیں تھی بلکہ بقول شخصے اس میں صرف کنٹینر کی کمی تھی پھر نوازشریف سے اے سی واپس لینے کی بات اور وہ بھی امریکہ میں وزیراعظم کے شایان شان نہیں تھی۔ دورے کی Opticsکی حدتک بہرحال عمران خان کے ذاتی گلیمر کا بھی ہاتھ تھا۔ اب اس دورے کے نتائج کیا نکلتے ہیں اور امریکہ سے ہمارے تعلقات میں یہ گرمجوشی کب تک رہتی ہے اس سے قطع نظر بہرحال یہ ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا تھا، جس کی پاکستان کو بڑی ضرورت تھی، کیونکہ ملک کے اندر شدید محاذ آرائی چل رہی ہے اور خارجہ پالیسی میں بھی ہمیں بہت سے چیلنج درپیش تھے لہٰذا اس منظرنامے سے عام پاکستانی کافی پریشان تھا۔ اب کم از کم وقتی طور پر ہی سہی عوام کو کافی حوصلہ ملا ہے۔


اب داخلی محاذ کی بات کرتے ہیں خصوصاً، جبکہ ایک سال پورا ہو گیا ہے۔ مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد 3 مہینے کی بات کی تھی، لیکن اس وقت میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ تین مہینے والی بات یورپ کے لئے تو موزوں ہے، لیکن ہمارے مسائل جتنے اُلجھے ہوئے ہیں تین مہینے میں کسی حکومت سے کسی معجزے کی توقع نہیں کی جا سکتی اس کے لئے کم از کم ایک سال انتظار کرنا ہو گا۔ اب انتظار کی گھڑیاں تو ختم ہو گئیں، لیکن کامیابی کا سراغ نہیں مل سکا۔یہ بات حکومت کے لئے ہی نہیں، بلکہ پاکستان کے لئے بڑی مایوس کن ہے۔ قوم نے بڑی مشکل سے عمران خان کی شکل میں ایک مسیحا ڈھونڈا اور یہ کام کوئی آسانی سے نہیں ہوا۔ عمران خان کو 22 سال جدوجہد کرنی پڑی۔ بلاشبہ عمران خان کے کئی پلس پوانٹس ہیں یہی کہ وہ ایماندار ہیں۔ ہیرو ہونے کی وجہ سے اُن کا ذاتی گلیمر بھی ہے، جس سے نوجوان نسل کی سیاست میں دلچسپی بڑھی۔ عالمی سطح پر بھی اُن کا تعارف ہے، لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے ناقابل ِ عمل دعوے کئے۔اپنے حریفوں پر فتح حاصل کرنے کے لئے سخت زبان استعمال کی اور لوگوں کو سبز باغ دکھائے۔ اب اگر لوگ مایوس ہوں گے تو یہ بہت افسوسناک ہو گا، کیونکہ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر عمران خان ناکام ہو گیا تو پھر نیا آدمی کہاں سے آئے گا؟


سیاسی اور معاشی محاذ پر کامیابی یا ناکامی سے ہی کسی لیڈر کا مستقبل طے ہوتا ہے۔ معاشی محاذ پر ناکامیوں کی تفصیل میں جائیں تو کسی سیکٹر میں بھی ابھی تک کوئی کامیابی نظر نہیں آئی۔ قرضوں کی تفصیل، برآمدات میں اضافے، افراطِ زر اور ڈالر کے ریٹ سمیت اگر تکنیکی موضوعات کو چھوڑ بھی دیں تو مہنگائی تو ہر آدمی کو متاثر کر رہی ہے۔ مہنگائی کچھ نہ کچھ وقت کے ساتھ بڑھتی ہی رہتی ہے، لیکن اس دفعہ جو مہنگائی ہوئی ہے اس کے غریب آدمی نہیں،بلکہ مڈل کلاس پر بھی بہت برے اثرات پڑے ہیں۔ ہمارے کچھ دانشور دوست کہتے ہیں کہ سیاست کو زیربحث نہیں لانا چاہئے جب ہر آدمی آنے والے بجلی اور گیس کے بل کے بارے میں پریشان ہو تو وہ سیاست سے کیسے دور رہ سکتا ہے۔

ہمارے ایک ریٹائرڈ کولیگ کا گیس کا ایک مہینے کا بل 84ہزار آیا ہے۔ سیاسی میدان میں بھی انتخابات کے ایک سال بعد تک محاذ آرائی عروج پر ہے ہر طرف مار دھاڑ ہے لگتا ہے کہ تمام قابل ذکر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کا منصوبہ ہے۔ عرفان صدیقی کی گرفتاری تو بہت ہی شرمناک ثابت ہوئی ہے۔حکومت کی تمام تر توجہ کرپشن کی مہم کو کامیاب کرنے پر مرکوز ہے۔اب اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے سوشل میڈیا میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ترقی نہ کرنے کی وجہ کرپشن نہیں،بلکہ غلط اکنامک ماڈل ہے۔ آج تک ایک پیسہ بھی واپس نہیں آیا۔ محاذ آرائی کے نتیجے میں پارلیمنٹ پوری طرح فنکشنل نہیں ہو سکی۔ادھر ہم ادارے مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں اور ادھر عدلیہ اور نیب طرح طرح کے سکینڈلوں کی زد میں ہیں۔ تمام قابل ِ ذکر سیاسی پارٹیاں وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیراعظم سمجھتی ہیں۔


ہم نے عمران خان سے توقع باندھ لی تھی کہ وہ سٹیٹس کو توڑیں گے لیکن اس محاذ پر بھی وہ چند نمائشی اقدامات تک محدود رہے جن کا کوئی مطلب نہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کی چند بھینسیں انہوں نے بیچیں اس کے علاوہ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بالکل غلط ہے۔ البتہ پنجاب کے گورنر ہاؤس میں یونیورسٹی بنائی جا سکتی ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔
عمران خان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں پولیس ٹھیک کر دی ہے اور اب پنجاب میں بھی پولیس کلچر بدل دیں گے، لیکن لگتا ہے کہ اسے بھاری پتھر سمجھ کر چوم کر رکھ دیا گیا ہے۔ پنجاب میں افسروں کے تبادلے بالکل ماضی کی طرح حکومتی ارکان اسمبلی کی سفارشوں پر ہو رہے ہیں۔عمران خان لوکل باڈیز انتخابات پر بڑا زور دیا کرتے تھے، لیکن غالباً اُن کے خیالات میں تبدیلی آ گئی ہے یا سیاسی مصلحت غالب آ گئی ہے وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیں گے، لیکن اس پر انہوں نے یو ٹرن لے لیا۔

حال ہی میں وکلاء نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر جب احتجاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وکلاء میں 17 کروڑ روپے بانٹنے کا پروگرام بنا لیا گیا بالکل اُسی طرح جیسے پیپلزپارٹی کے دور میں اُس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان نے ہیلی کاپٹر لے کر بار ایسوسی ایشنوں میں پیسے تقسیم کئے تھے۔
پہلے کی طرح ”اپنے“ بندے ہر جگہ لگائے جا رہے ہیں بلکہ جنگ میں ایک خبر چھپی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ پارٹی کے حامیوں کو دفتروں میں اکاموڈیٹ کیا جائے کسی نے تردید نہیں کی۔ مختلف اضلاع میں ڈی پی او اور ڈی سی اوز کے گھر کئی کئی ایکڑوں میں ہیں۔ سرکاری افسر چار چار پلاٹ لے رہے ہیں پھر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے سربراہوں نے پجارو گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں جس کا کوئی جواز نہیں۔ دفتری نظام میں اصلاحات کا کوئی سراغ نہیں ان سب چیزوں کا وزیراعظم نے کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ ان کاموں کے لئے تو نہ آئی ایم ایف اور نہ اپوزیشن رکاوٹ ہے نہ اس پر کوئی خرچ آئے گا، بلکہ بے پناہ بچت ہے۔ کپتان صاحب کہاں ہے وہ تبدیلی جس کا وعدہ آپ نے 21 کروڑ عوام سے کیا تھا۔ کہاں ہے میرٹ کی حکمرانی اور گڈگورننس۔

مزید :

رائے -کالم -