مرنے سے پہلے لوگوں کی پانچ حسرتیں
برونک وئیر Bronnic Ware کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور وہ پوری دنیا میں ایک مصنف، گانے لکھنے والی اور موٹیویشنل سپیکر کے طور پر جانی جاتی ہے۔ وہ مشہور ہونے سے پہلے آسٹریلیا کے ہسپتال میں نرس تھی۔ وہ ہسپتال میں تقریباََآٹھ سال تک Palliative and Comfort Care Unit میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ اس یونٹ کا مقصد تھا کہ جس مریض کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ آخری ایّام کے قریب ہے یا وہ کچھ ہی دنوں یا کچھ گھنٹوں کا مہمان ہے تو اُس کو ہسپتال کے اس یونٹ میں ٹھہرا دیا جاتا۔ برونک وئیر تمام مریضوں کا بہت ہی انہماک اور غوروفکر کے ساتھ مشاہدہ کرتی اور اُن سے گپ شپ کرتی رہتی۔ آٹھ سالوں میں اُس نے ہزاروں مریضوں کا مشاہدہ کیا اور اُن کے آخری ایّام کی حسرتوں اور خواہشات کو بہت ہی قریب سے محسوس کیا۔
برونک وئیرکے مطابق ہر کوئی بستر مرگ پر کوئی نہ کوئی افسوس یا حسرت ضرور لے کر آتا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس کو تمام مریضوں کی حسرتیں اور افسوس ملتے جلتے نظر آئے۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود انسان جب زندگی کے آخری لمحات سے گزرتا ہے تو اُس کے لب پر کاش، اگر، ہائے افسوس یا پھر مختلف حسرتیں اُس کے چہرے پر عیاں نظر آتی ہیں۔برونک وئیر اُن سب مریضوں سے تبادلہ خیال کرتی اور اُن حسرتوں کو اپنے پاس نوٹ بھی کرتی۔ آٹھ سال کے عرصے کے بعد اُس نے ایک کتابThe Top Fiive Regrets of the Dying لکھی،اس کتا ب میں بتایا گیا ہے کہ بستر ِ ِ ِمرگ پر تقریباً ہر انسا ن کو پانچ حسرتو ں میں سے کو ئی ایک حسرت ضرور ہوتی ہے۔
یہ پانچ افسوس ایسے ہیں جو کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی میں نہیں پڑھائے اور سمجھائے جاتے۔ جس میں پہلا افسوس یہ بتایا گیا کہ "کاش! میں نے اپنی زندگی اپنے مطابق گزاری ہوتی اور یہ نہ سوچا ہوتا کہ لوگ کیا کہیں گے"۔ اگر ہم اپنی سوسائٹی او رموجودہ معاشرتی زندگی کا مشاہدہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اپنی روز مرہ زندگی کے 90 فیصد سے زیادہ کام ہم یہ سوچ کرکر تے ہیں کہ" لوگ کیا کہیں گے"۔ اگر ہم اپنی نجی زندگی کو دیکھیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ہم اپنی شادی بیاہ سے لے کر اپنے مذہبی معاملات تک کو یہ سوچ کر گزارتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ شادی بیاہ اور موت کے بعد کی تقریبات پر لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کردیں گے صرف یہ سوچتے ہوئے کہ لوگ کیا کہیں گے، حتیٰ کہ کسی نے کرئیر ہی پسند کیوں نہ کرناہو وہ سب سے پہلے لوگوں کے بارے میں سوچے گا کہ دوسروں کو کیا پسند ہے یا دوسرے کیا چاہتے ہیں، جب کہ انسان کو فیصلہ اپنے شوق اور پسندیدگی کے مطابق کرنا چاہیے۔ حضر ت معروف کر خیؒ نے کیا خو ب فرمایا کہ" خَلق سے دُوراور خُلق سے نزدیک رہنا مصائب دنیا کا بہترین علاج ہے"۔برونک وئیرکے مطابق دوسری بڑی حسرت یہ تھی کہ "کاش! میں نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہوتا"۔
ہم زندگی بھر اپنے مختلف جذ بات اور کیفیات کے اظہارسے احتراز کرتے ہیں مثلاً محبت کا جذبہ چاہے والدین سے، اولاد سے یا پھر اپنی بیوی سے ہو، ہم ہمیشہ اُن احساسات اور جذبات کو اپنے دل کے کسی کونے میں محفوظ کر دیتے ہیں۔ محبت اور احساس کا اظہار بارش کے قطروں کی طرح ہوتا ہے جو بیان کرنے والے کے ساتھ سننے والے کو بھی اپنی محبت و الفت میں بھگو دیتا ہے۔ اظہارِ محبت سے محبت بڑھتی ہے اور زندگی مزید حسین، دلکش اور خوبصورت ہوجاتی ہے۔حضرت مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا کہ" جس شخص میں محبت غالب ہو گی اس میں دکھ درد محسوس کرنے کا جذبہ زیادہ ہو گا"۔ تیسری قسم کے حسرت مند لوگوں نے کہاکہ "کاش میں نے زندگی میں اتنی محنت نہ کی ہوتی، خود کو اور دوسروں کو بھی وقت دیا ہو تا"۔ لوگ ساری زندگی محنت کرتے گزار دیتے ہیں مگر اپنے خاندان، عزیزواقارب اور بیوی بچوں کو وقت نہیں دیتے، جس کی بدولت آخری لمحات میں حسرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ لوگ اپنے عزیزوں اور خود کی زندگی بنانے کے لیے بیرون ملک ساری عمر گزار دیتے ہیں مگر نہ اپنے والدین کو وقت دے پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کی مناسب تربیت کرپاتے ہیں۔انگریزی مقولہ ہے کہ" آپ کے تمام دن کی جو مصروفیت ہے وہی آپ کی محنت ہے"۔
برونک وئیر کے مطابق چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جن کو یہ حسرت تھی کہ "کاش! میں اپنے دوستوں کے ساتھ تعلق میں رہتا اوراُ ن کے ساتھ زیادہ وقت گزارپاتا"۔ مخلص اور اچھا دوست انسان کے لیے ا للہ پاک کی طرف سے ایک حسین تحفہ ہوتا ہے۔ اکثر آپ کے دوست آپ کی تکلیف اور مصیبت میں آپ کے رشتے داروں سے بھی زیادہ آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے غیروں کے ساتھ باغ میں جانے سے بہتر لگتا ہے کہ بیڑ یاں پہن کر دوستوں کے ساتھ قید خانے میں چلا جاؤں“۔ برونک وئیرکے مطابق پانچویں قسم اُن لوگوں کی تھی جو حسرت اور افسوس کر رہے تھے کہ "کاش! میں اپنی زندگی کے لمحات ہمیشہ خوش رہ کر گزارتا"۔ آج کل کی مادیت کے دُور میں پیسوں، چیزوں اوراعلیٰ عہدے کا نام خوشی رکھ دیا گیا ہے یاپھر سو شل میڈیا پر لائک اور کمنٹ کی زیادتی ہی خوشی کا واحد ذریعہ بن چکاہے جبکہ خوشی صرف اور صرف ہمارے اندر کے جذبات اور احساسات کو محسوس کرنے اور اپنے ہر لمحے کو لطف اندوزہو کر جینے کا نام ہے۔فرینکلن نے کہا تھا کہ" ناخوش رہنے کے عادی کو کبھی خوشی حاصل نہیں ہوتی"۔زندگی انسان کے لیے اللہ پاک کی طرف سے نعمتِ عظمیٰ ہے اس لیے آپ بھی سوچئے کہ کہیں ان پانچ میں سے کوئی ایک بھی حسرت آپ کے ساتھ سایہ بن کر تو نہیں چل رہی، کہیں وہ بھی بسترِمرگ کے وقت آپ کے سامنے آ کھڑی ہو۔۔!