”انتخابی“ مسلم لیگ
مسلم لیگ(ن) کے بارے میں ”دو بیانیوں“ کا پراپیگنڈا بہت منظم طریقہ سے پھیلایا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے جغادری تجزیہ نگار بھی آج کل اپنے تجزیوں میں یہ کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے مزاحمتی اور میاں شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیوں کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹر اور سپورٹر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ سیاسیات میں اسے dichotomy of narratives کہتے ہیں۔ میں کئی تجزیے پڑھ چکا ہوں جن میں وہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی توقع سے”کم“کارکردگی،اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں سیٹ ہار جانے کو اسی کشمکش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
کیا واقعی ایسا ہے یا غلط پراپیگنڈا کر کے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی حکومت کی جیت کی راہ ہموار کی جا سکے؟ میرے خیال میں اس اہم اور نازک نکتہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی یہ متعین کرنا بھی ضروری ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے خلاف یہ پراپیگنڈا نیا نہیں ہے، بلکہ اسے 20 برس سے بھی زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ جب 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر غیر آئینی فوجی آمریت قائم کی تھی تو انہیں مجبوراً شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیجنا پڑا تھا۔
اس وقت بھی مقتدر حلقوں کی شہہ پر بہت شدت سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے اختلافات کی خبریں پھیلائی جاتی تھیں اور اس وقت بھی پراپیگنڈا یہی تھا کہ فوجی حکومت میاں شہباز شریف کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے، لیکن میاں نواز شریف اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگر میاں نواز شریف سیاست سے دستبردار ہو جائیں تو میاں شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) کی اقتدار میں واپسی کا راستہ بنایا جا سکتا ہے۔اسی دوران میں نے 2004ء اور 2005ء میں میاں صاحبان سے لندن میں ملاقاتیں کیں تو دیکھا کہ سارا پراپیگنڈا ہی مکمل طور پر غلط ہے۔ دونوں ایک ہی دفتر میں بیٹھے نہ صرف کام اور سیاسی ملاقاتیں کر رہے ہیں،
بلکہ آگے کی حکمت عملی کے حوالہ سے بھی دونوں میں ہم آہنگی اور اتفاق ہے۔ آنے والے برسوں میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت عوامی دباؤ کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی اور شریف خاندان نہ صرف ملک واپس آیا،بلکہ میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم اور میاں شہباز شریف دو مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔ فوجی حکومت کا شروع کردہ dichotomy of narratives کا پراپیگنڈا البتہ گاہے بگاہے مارکیٹ میں فلوٹ کیا جاتا رہا تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال کیا جاتا رہے۔ ان 20برسوں میں اس حوالہ سے بار بار میرا دھیان پراپیگنڈا کے سب سے بڑے استاد گوئبلز (Goebbels) کی طرف جاتا رہتا ہے، جس کی تعلیمات کے مطابق کوئی جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنا شروع ہو جائیں۔
آج کل آزاد کشمیر الیکشن اور سیالکوٹ ضمنی انتخاب کے حوالہ سے کہا جا رہا ہے کہ وہاں کے عوام نے میاں نواز شریف کا فوج کے خلاف بیانیہ مسترد کر دیا ہے۔ یہ بات غلط ہے کیونکہ آزاد کشمیر الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے پانچ لاکھ ووٹ حاصل کئے اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں بھی تقریباً2018 جتنے ووٹ لئے ہیں، گویامسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اسی طرح قائم ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف یا مریم نواز شریف نے فوج کے خلاف کبھی بات نہیں کی، بلکہ صرف ان چند جرنیلوں کی بات کی ہے جو سیاست اور حکومت میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں کئی بار منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر اور آئین توڑ کر‘ فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے۔
ترکی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت مماثلت ہے کیونکہ دونوں ملکوں میں چار چار مرتبہ اور تقریباً ساتھ ساتھ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ پہلی بار پاکستان 1958ء اور ترکی 1960ء، دوسری بار پاکستان 1969ء اور ترکی 1970، تیسری بار پاکستان 1977ء اور ترکی 1980ء اور چوتھی بار ترکی 1997ء اور پاکستان 1999ء۔اس کے بعد 2016ء میں ترکی کے جرنیلوں کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش ترک عوام نے اپنے محبوب لیڈر طیب اردوان کی قیادت میں ناکام بنا دی۔ اس وقت پانامہ سکینڈل آچکا تھا، لیکن ترکی کے تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک JIT کی بنیاد پر عدالتی عمل کے ذریعہ نا اہل کروایا گیا اور پھر اگلے سال 2018ء میں ملک میں ہائبرڈ حکومت قائم ہو گئی۔
دنیا کی ہر سیاسی پارٹی میں شکرے (hawks)اور فاختائیں (doves) ہوتی ہیں۔ حکمت عملی کے حوالہ سے پارٹی کے اندر اختلاف رائے مستند سیاسی سوچ اور عمل ہوتا ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آمرانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے جب سیاسی حکمت عملی پر اختلاف رائے رکھنے والے جے اے رحیم، معراج محمد خان اور ڈاکٹر مبشر حسن وغیرہ کی سوچ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو پارٹی پر خوشامدی مفاد پرست ٹولے کا قبضہ ہو گیا تھا۔ مسلم لیگ(ن) میں بھی مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیوں کی توتا کہانی انہی لوگوں کی پھیلائی ہوئی ہے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا میں یہ پراپیگنڈا کیا تھا۔ ان میں مایوسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف کو نا اہل ہوئے چار اور حکومت سے بے دخل ہوئے تین سال گذر چکے ہیں لیکن ایک بھی قابل ِ ذکر لیڈر نے پارٹی نہیں چھوڑی، جبکہ ماضی میں کسی پارٹی کی حکومت ختم ہوتی تو راتوں رات اس کے راہنما نئی کنگز پارٹی میں شامل ہو جاتے تھے۔ مزاحمت اور مفاہمت کی بے معنی بحث میں الجھنے کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی تمام توجہ اسے انتخابی مسلم لیگ بنانے پر ہونی چاہئے۔ پارٹی کی تما م صوبوں اور انتخابی حلقوں میں تنظیم سازی کر کے اسے انتخابی مسلم لیگ بنانا ہوگا۔ یہی ایک طریقہ ہے جس پر چل کر مسلم لیگ (ن) اگلے الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔