مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:146
قلعہ التیت ۔۔۔پیدا تیری محفل میں افسانے سے افسانہ:
التیت میں ایک دو لوگوں سے راستہ پوچھ کر اور دو تین گلیوں سے ہو کر ہم قلعے کے پاس پہنچ گئے۔ہنزہ کے قلعوں میں التیت قلعہ سب سے پرا نا ہے۔یہی کوئی نو سو، ہزار سال پرانا۔ پہلے ہنزہ کے میر یہیں رہتے تھے۔ ایک تنگ سی گلی سے گزر کر ہم قلعے تک پہنچے۔ اعظم اور اس کے دوست قلعہ دیکھنے کے بجائے”خدا کی شان“ دیکھنے جا نے کہاں نکل گئے تھے۔
قلعے سے ذرا پہلے پانی سے بھرا ایک حوض تھاجس کے ایک کونے پر مجوریعنی بید ِمجنوں کا پرانا درخت تھا جس کی شاخیں تالاب پر جھکی ہوئی تھیں۔ یہ حوض آپ کو ہر گاؤں میں نظر آتے ہیں۔ ان میں چشموں کا پانی محفوظ کر کے مقامی ضروریات کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ قلعے میں جانے سے پہلے ٹکٹ ضروری تھا۔ ایک وقت میں ہنزہ کے قلعوں کی حالت اتنی مخدوش تھی کہ لگتا تھا یہ سب قلعے صرف تاریخی حوالوں میں رہ جائیں گے پھر ہنزہ والوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں ان کی اصل صورت پر بحال کیا جائے۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی مدد سے ان کی بحالی کا کام شروع ہوا اور وہ قلعے جو معدوم ہو رہے تھے ایک بار پھر خم ٹھونک کر وقت کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ پچھلی بار جب میں یہاں آیاتھا تو یہ قلعہ زیر ِمرمت تھا اور سیاحوں کےلئے بند تھا لیکن پھر بھی کریم صاحب نے اخلاق ِ کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے سارا قلعہ اور تعمیراتی کام دکھا یا تھا۔ سارا کام ہنزہ کے مقامی لوگ کر رہے تھے۔ کریم صاحب نے میرا تعارف روبینہ نام کی ایک لڑکی سے کروایا تھا۔ جو یو ای ٹی کے پڑھی ہوئی تھی اور اس منصوبے سے وابستہ ہو کر مقامی لڑکیوں کو تعمیراتی تربیت دے رہی تھی۔ قلعے کا ماسٹر پلان ایک دیوار پر آویزاں تھا۔بہت سے لڑکے لڑکیاں میزوں پر کا غذ پھیلائے اور سامنے کمپیوٹر رکھے مصروفِ عمل تھے۔ اگرچہ ہمارے دیہاتوں میں بھی عورتیں بہت فعال ہوتی ہیں لیکن یہاں کی عورت تعلیم کی وجہ سے جو کردار ادا کر رہی ہے اس کی اہمیت اور فادیت زیادہ ہے۔
دنیاکے دیگر مذاہب اور بادشا ہتوں کی طرح اسماعیلیت کی تاریخ میں بھی قلعوں کو بہت اہمیت حا صل رہی ہے۔ہنزہ کے قلعوں کا فکری شجرہ قلعہ الموت سے جا ملتا ہے۔ ایران کے علاقے قزوین کے قلعہ الموت ا ور البرز کے قلعہ لمبسر سے لے کر ہنزہ کے قلعوں تک ایک طویل تاریخ ہے۔ تین اطراف میں سمندر سے گھرے اور خشکی کی جانب ایک انتہائی ترچھی چٹان پر واقع دژ الموت یاقلعہ الموت کی اصل شہرت حسن الصباح سے ہوئی جسے مارکو پولو نے پہاڑوں کے بوڑھے کا لقب دیا ، حسن نے اس قلعے کو گیارھویں صدی میںاپنا مستقر بنا یا۔ جس کے فدائین سے دنیا بھر میں حشیشئین کی پراسرار اور خطرناک کہانیاں چلیں۔
تاریخی اعتبار سے قزوین ایک اہم اور دل چسپ علاقہ ہے۔ اس کا تعلق 3 فقہی و مذہبی گروہوں سے ہے۔ نویں صدی میں کتاب التفسیر اور کتاب التاریخ کے مصنف اور سنّی مذہب کی صحاح ستہ میں سے سنن ابن ِ ماجہ کے مؤلف ابو عبداللہ بن یزید بن ماجہ الربعی القزوینی جنھیں عام لوگ امام ابن ِ ماجہ کے نام سے جانتے ہیں یہیں پیدا (824ء) ہوئے تھے۔ ان کے کوئی 300 سال بعد اس علاقے کو اسماعیلیت کے مرکز کے طور پر شہرت ملی۔ پھر انیسویں صدی میں یہیں وہ عورت پیدا ہوئی جس کا نام زرّیں تاج (1814/17-1852) تھا۔بہائی مذہب کی مبلغّہ اور علی محمد باب کی سترھویں حروف ِ حی، جسے سید کاظم رشتی نے قرة العین اور بہاءاللہ نے ”طاہرہ“ کا لقب دیا اور اقبال نے جاوید نامہ میں اس انقلابی خاتون کا شمار ارواحِ جلیلہ ( بشمول منصور حلّاج اور غالب ) میں کرتے ہوئے اسے خاتون ِ عجم کا خطاب عطا کیا ۔ جس کے لکھے قصیدے :
گر بتو افتدم نظر چہرہ بچہرہ رو برو
شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ ، مُو بمُو
(تجھ سے اگر نظر ملے چہرہ بچہرہ رو برو۔۔۔ شرح ِ غم ِ نہاں کرے نکتہ بہ نکتہ، مُو بمُو)نے اہل ِ دل کو ہمیشہ اپنا اسیر رکھا ہے۔ جون ایلیاءتو اس بحر کا عاشق تھا ۔ ایک بار اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے اس بحر میں سب سے زیادہ غزلیں لکھی ہیں۔
قلعہ الموت کو فتح کرنے کی کوشش ِ ناکام کرنے والوں میں کُرد سلطان صلا ح الدین ایوبی کانام بھی آتا ہے۔ بعد میں قلعہ الموت کو 13ویں صدی (1256 )میں منگول سردار ہلاکو نے معروف عالم اور مؤرخ علاؤالدین عطاءملک جوینی (جسے سقوط ِ بغداد کے بعد ہلاکو نے گورنر مقرر کیا تھا) کی مدد سے فتح کیا تھا۔ سقوط الموت اور خلافت ِ فاطمی کی بساط لپٹنے کے بعد ہی خانقاہ وجود میں آئی ۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔