اُن ہی دِنوں میرے بینک کے سینئر افسر جو دوسرے بینکوں سے آئے تھے، میری کامیابی سے حسد کرنے لگے، کیونکہ میرے بڑے اچھے مراسم بینک کے اہم Clients سے ہو گئے تھے،بیورو کریسی کے بڑے افسر جن کے ذریعے سرکاری Projects کے بڑے اکاؤنٹ ملتے تھے، اُن سے میری ذاتی دوستیاں ہو گئی تھیں،واپڈا، محکمہ سوشل سیکورٹی، لاہور کارپوریشن، فری میسن کلب، الفلاح بلڈنگ، یہ سب Prestigious اکاؤنٹ تھے۔کینال ویو UBLکا پبلک ریلشن اِدارہ بن گئی تھی۔ہر بڑے افسر سے ملنے میں مجھے آسانی تھی۔ حاسد تو پیدا ہونے ہی تھے۔ سلیم ملک(اَب مرحوم)جو سلطان صاحب کے پُرانے مخالف تھے، خواجہ ضیا الدین(صدر UBL) کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے رہے۔ قومیائے جانے کے بعد تمام بینک پاکستان گورنمنٹ کی وزارت خزا نہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ما تحت ہو چکے تھے،اُن دِنوں وزارتِ خزانہ کے جوائنٹ سیکرٹری چیمہ صاحب ہوتے تھے، جن کے ماتحت تمام بینک آتے تھے۔بینکوں کے سربراہوں اور ڈائریکٹرز کی مراعات بھی کافی کم کر دی گئی تھیں۔ بینکوں میں ترقیاں، اُکھاڑ پچھاڑ وزارت خزانہ کے چیمہ صاحب کے ہاتھ میں تھیں۔ سلطان صاحب دِل برداشتہ ہو کر UBL چھوڑ گئے اور بینک آف عمان(جو اَب مشرق بینک کہلاتا ہے)کے صدر بن کر دبئی چلے گئے۔ آہستہ آہستہ عزتِ نفس رکھنے والے تمام بینکوں کے سینئر ایگزیکٹوز باہر کے بینکوں میں بڑے عہدوں پر ملازم ہو گئے،خاص طور پر BCCI، مشرق بینک،مڈل ایسٹ بینک، حبیب بینک AG Zurich، حبیب سنز لندن اور بینک آف ابوظہبی نے پاکستانی ایگزیکٹیوز کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ UBL میں بھی سفارش سے ہی ترقی ملتی تھی اور اچھی پوسٹنگ ملتی تھی۔ پاکستانی بینکوں کی بیرون ملک برانچوں میں غیر ضروری عملہ سفارش پر جانے لگا۔
باہر کے ملکوں میں ضرورت سے زیادہ برانچیں بنادی گئیں، جہاں بزنس بھی نہیں تھا۔ میَں بھی دِل برداشتہ ہو کر باہر جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک روز اکرام اللہ نیازی صاحب (والد عمران خان)شاہنواز خان صاحب، سعد اللہ خان جو کوئٹہ کی بڑی کنسٹرکشن کمپنی (S.U.K) کے مالک تھے، شام کے وقت میرے گھر تشریف لائے۔ میرے لئے یہ خوشگوار لمحہ تھا کہ میَں اِتنے سینئر لوگوں کی میزبانی کر رہا تھا۔ نیازی صاحب نے پوچھا کہ منظور UBL میں تمہارارُکنے کا پروگرام ہے یا تمہارا بھی باہر جانے کا ارادہ ہے۔ میَں نیازی صاحب کو بتا چکا تھا کہ مجھے کینال ویو سے نکالنے کی دو سازشیں ناکام ہو چکی ہیں۔ میَں بھی سوسائٹی میں قبل از وقت انتظامیہ کے الیکشن کروا کر کسی غیر ملکی بینک میں ملازمت کی کوشش کروں گا حالانکہ میَں BCCI اور بینک آف اومان میں 1977ء میں ہی جا سکتا تھا۔ نیازی صاحب نے اپنے پانچ ساتھیوں کی طرف سے پیشکش کی کہ کینال ویو کے قرب و جوار میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کمرشل بنیادوں پر بنائی جائے۔ اُس سوسائٹی کی سربراہی میرے ذمے ہو، میرے حصے کی سرمایہ کاری دوسرے ڈائریکڑ کریں گے اور بطور چیف ایگزیکٹو میری تنخواہ اور مراعات UBL سے بہتر ہوں گی۔ میَں نے سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا، اُس زمانے کے بڑے بڑے صنعتکار مجھے اپنے گھر شادی بیاہ کے موقعو ں پر ضروربلاتے تھے، کیونکہ اُن کے کینال ویو میں پلاٹ تھے۔ کریسنٹ گروپ کے میاں شفیع، سرگودھا ٹیکسٹائل ملز کے میاں اسلم اور اُن کے تمام بیٹے،عائشہ ٹیکسٹائل گروپ کے میاں عثمان، سیفائر گروپ کے میاں نسیم، اِتفاق گروپ کے میاں شریف، نواز شریف اور اُن کاتمام خاندان مجھے بہت تواضع سے ملتے تھے، اِسی طرح محکمہ کواپریٹو کا ہر رجسٹرار، سیکرٹری اور LDA کا چیف مجھ سے احترام سے پیش آتے تھے۔ میَں نے پہلے اس پر غور کیا کہ کینال ویو چھوڑنے کے بعد میری اسی طرح کی آؤ بھگت رہے گی یا ختم ہو جائے گی۔ میَں نے UBL میں اپنے بہت قریبی دوستوں سے مشورہ کیا جو اَب مرحوم ہو چکے ہیں۔
سب نے میری ہمت افزائی کی کہ میں نئی سوسائٹی کامیاب کر سکتا ہوں۔اِسی صلاح مشورے کے دوران سلیم ملک جو اَب کراچی میں بطور UBL ایگزیکٹو ڈائریکٹر تمام سندھ اور پنجاب کی برانچوں کے ہیڈ تھے، کو پتہ چل گیا کہ میَں UBLچھوڑ کر نئی سوسائٹی بنا رہا ہوں اور لاہور میں ہی رہوں گا،اُنہوں نے لاہور کے ریجنل ہیڈ یوسف شاہ (مرحوم)کے ذریعے مجھے ملتان زون میں پوسٹ کر دیا اور وہاں کے ریجنل ہیڈ مسٹر اِقبال چغتائی(مرحوم) کو سختی سے حکم دیا گیا کہ منظور کو لاہور آنے کے لئے کوئی رخصت نہیں دینی، اگر منظور بیماری کی بھی چھٹی مانگے تو اُسے CMH ملتان میں داخل کرواؤ۔ مطلب یہ کہ منظور کے لئے لاہور Out of Bound کردو، تاکہ دوسری سوسائٹی نہ بنا سکے۔ میَں ایک بات بتانا بھول گیا،جس طرح خواجہ ضیا الدین نیشنل بینک سے اُٹھا کر UBL کے صدر بنا دیئے گئے تھے اسی طرح نیشنل بینک کے ایک اور SEVP شیخ تجمل حسین (مرحوم)HBL کے صدر بن گئے۔ اُنہوں نے اپنے من پسند افسروں کو HBL کے بڑے عہدوں پر بٹھا دیا۔ اُن ”بھاری بھرکم پسندیدہ افسروں میں آغا فصیح(اب مرحوم) بھی تھے۔ جنہیں شیخ تجمل حسین نے پنجاب کا ریجنل ہیڈ لگا دیا۔ آغا فصیح سرکاری افسروں سے تعلقات بنانے کے ماہر تھے، اُنہوں نے شیخ تجمل کو کینال ویو میں پلاٹ لینے کی ترغیب دی اور اپنے صدر کو یقین دلایا کہ کینال ویو کے سیکرٹری سے دوستی کی بنیاد پر نہر کنارے پلاٹ حاصل کر لیں گے۔ ایک روز شام کے چار بجے آغا فصیح، شیخ تجمل صدر حبیب بینک اور ارشد شفیع (جو بعد میں کسی بینک کے صدر مقرر ہوئے اب مرحوم)HBL کی مرسیڈیز کار میں میرے گھر تشریف لے آئے۔ میَں اِن تینوں صاحبان میں سے صرف آغا فصیح کو پہچانتا تھا، کیونکہ وہ لاہور HBL کے چیف تھے۔ اپنے پریزیڈنٹ کو متاثر کرنے کے لئے آغا فصیح نے مجھے ذرا زیادہ ہی بے تکلفی سے پکارا۔ مجھ سے اپنے پریزیڈنٹ اور ڈائریکٹر ارشد شفیع کا تعارف کروایا اور مجھے کینال ویو چلنے کا اس طرح کہا جیسے میَں آغا فصیح کا لنگوٹیا ہوں۔
”ساڈی گڈی وچ ہی بے جا اسی شیخ صاحب نوں کنال ویو وکھانی اے“۔آغا فصیح نے یہ جملہ اسی بے ساختگی سے کہا کہ مجھے لحاظ داری میں اُن کی گاڑی میں ہی بیٹھ کر گلبرگ سے کینال ویو جانا پڑا۔ شیخ تجمل (صدر HBL) تو زیادہ بات نہیں کر رہے تھے، لیکن آغا فصیح ہی دوران سفر کینال ویو سوسائٹی اور مجھ سے گہرے تعلقات کا تاثر دیتے رہے۔ کینال ویو پہنچ کر شیخ تجمل صاحب سے ایسے مخاطب ہوئے جیسے کہ آغا فصیح مجھ سے پلاٹ کی لوکیشن اور اُس کی الاٹمنٹ کا وعدہ پہلے ہی لے چکے تھے۔ میَں نے اُن کی توقع کے برعکس جواب دیا۔ شیخ تجمل میرا جواب سُن کر اگلے ہی لمحے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اُن کے ماتحت دونوں صاحبان بھی کار میں بیٹھ کر یہ جا اور وہ جا۔ وہ لوگ خود ہی اپنی گاڑی میں مجھے میرے گھر سے لائے تھے۔ لیکن اُنہوں نے اِتنی بداخلاقی کا مظاہرہ کیا کہ مجھے اپنے ساتھ واپس لے جانا بھی گوارہ نہ کیا، اس قسم کی بدتمیزی میرے لئے غصے کا باعث تھی، لیکن اُس وقت میَں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ اس واقع نے مجھے کینال ویو کو خیر آباد کہنے کا حتمی فیصلہ کرنے میں مدد دی۔ میرے ہی بینک کے رفقائے کار اور سوسائٹی کی اِنتظامیہ کے چند ساتھی نہیں چاہتے تھے کہ میَں کینال ویو کی سربراہی کروں، بینک کے صدر اور سینئر ایگزیکٹو ز میری پبلک ریلشنگ سے حسد کرنے لگے تھے، یہ سب کچھ کینال ویو کا فاؤنڈر سیکرٹری ہونے کی وجہ سے تھا اِدھر مجھے نیازی صاحب اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے کمرشل بنیادوں پر نئی سوسائٹی بنانے کی پیشکش تھی۔ مجھے BCCIاور بینک آف عمان میں اچھے عہدے پر ملازمت کی Offer بھی تھی لیکن میَں نیازی صاحب کے گروپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، باہر کے بینکوں میں ملازمت تو مل ہی جانی تھی۔
لہذا میَں نے 1979 میں کینال ویو کے الیکشن کروائے اور اپنے آپ کو سوسائٹی سے علیحدہ کر لیا، ابھی بینک سے استعفیٰ دینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ UBL نے پہل کر کے مجھے بینک کی ملازمت سے فارغ کر دیا یعنی Terminate کر دیا اُنہوں نے تو یہ ہی سمجھ کر کیا ہوگا کہ منظور کو اَب کسی بینک میں ملازمت بھی نہیں ملے گی اور یہ خوار ہوگا۔ لیکن اللہ کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے شاندار مستقبل کا پروگرام تیار رکھا تھا۔ میرے ہاتھوں نیازی صاحب کے گروپ کی کمرشل ہاؤسنگ سوسائٹی Westwood کے نام سے قریباً 18ماہ میں تیار ہو گئی۔ویسٹ ووڈ بھی نہر کے کنارے پر واقع ہے۔ اس سوسائٹی کے پلاٹ بھی ہاتھوں ہاتھ بکے۔ ویسٹ ووڈ میں نہر کے کنارے واقع Trust School کے بانی جناب طاہر یوسف ہیں جو بہت مخیّر تھے۔ ٹرسٹ سکول کا پلاٹ رعائتی قیمت پر طاہر یوسف صاحب کو دیا گیا تھا۔ یہ سکول لاہور کے اعلیٰ سکولوں میں شمار ہوتا ہے۔ شائد ابھی بھی اس ٹرسٹ سکول کے ناظم شیخ طاہر یوسف ہی ہوں۔ اس دوران مجھے سعودی عرب کے سرکاری بینک الریاض سے بہت اعلیٰ ملازمت کی آفر آگئی۔ یوں میَں نے 1981ء میں ویسٹ ووڈ سوسائٹی کی ذمے داری سے سبکدوشی لے کر جدّہ میں بینک جوائین کر لیا۔ بینک الریاض میں ملازمت کے دوران دو سال اس بینک کا لندن میں کنٹری ہیڈ رہا۔ 1986ء میں سعودی عربیہ واپس آیا تو اُن ہی دِنوں سلطان صاحب پریذیڈنٹ بینک آف عمان(اَب مشرق بینک) نے مجھے پیشکش کی، 1987 میں میَں بینک آف عمان دبئی میں زیادہ بہتر مشاھرے پر ملازم ہو گیا۔ اس بینک میں رہ کر میَں نے بینک کے مالکان کو لاہور میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لئے دو خوبصورت ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کا منصوبہ دیا۔لاہور میں اِزمیر اور ویلنشیاء بینک مشرق کے اِبتدائی سرمائے سے وجود میں آئیں۔ (ختم شُد)