ایک دیوانے کا سوال
انسانی زندگی کے بہت سے پہلوہیں۔ ہر پہلو دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور بسا اوقات متضاد بھی ہو جاتا ہے۔ جب ہوش سنبھالا تو سوچا کرتا تھا کہ قومیں عظیم کیسے بنتی ہیں اور حقیرکیسے ہو جاتی ہیں۔ میٹرک تک تاریخِ انگلستان کے جستہ جستہ ابواب پڑھے۔ اس دور میں پاکستان نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ (میں 1950ء کے عشرے کے وسط کی بات کر رہا ہوں) ہماری نصابی کتابیں ابھی تک انگریزی دور میں لکھی گئی تھیں۔ پڑھانے والے مجبور تھے کہ برطانیہ کو برطانیہ ء عظمیٰ (Great Britain) ہی پڑھائیں۔ یہ برطانیہ دو تین سو برس تک دنیا کی واحد سپرپاور بنا رہا۔ میں ”پاکستان زندہ باد“ کے نعروں کے ہجوم میں یہ بھی سوچا کرتا تھا کہ ”برطانیہ زندہ باد“ کیسے بنا۔
اس دور کی ایک سوچ یہ بھی تھی کہ دورِ غلامی (یا مجہول دور) میں فنونِ لطیفہ کی پرورش اور ترویج زیادہ ہوتی ہے۔ شاعری، مصوری، نقاشی، سنگ تراشی اور موسیقی کمزور اور ضعیف اقوام کے ہاں زیادہ بار پاتی ہیں۔ برصغیر کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں بے شمار شاعر اور موسیقار وغیرہ پیدا ہوئے…… کس کس کا نام لوں ……قارئین جانتے ہیں کہ مسلم دورِ حکمرانی (دسویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی تک) میں اَن گنت شعرا وغیرہ پیدا ہوئے لیکن برطانیہ عظمیٰ میں شاید ایک دو شاعر ہی ایسے تھے جو ان کے دورِ عروج میں مشہور ہوئے۔ شیکسپیئر، ملٹن اور ورڈز ورتھ وغیرہ میں کوئی بھی شاعر ویسا غزل گو نہیں تھا جیسا برصغیر میں سودا، میردرد، میر تقی میر، آتش، ناسخ، انیس و دبیر اور ذوق و غالب تھے۔ لیکن ہمارے ان تمام شعراء کی شاعری قومی سلامتی اور قومی وقار و عظمت کے گیتوں اور نغموں سے خالی تھی۔ اس دور کے مشہور موسیقار بھی دلیری و جاں سپاری کی دھنوں کے خالق نہیں تھے۔
کچھ یہی حال ایران کا بھی تھا۔ وہاں تو شاعروں کی ایک نہ ختم ہونے والی لائن ہے جن کے اشعار ہمارے برصغیر میں آج بھی زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ لیکن یہ تمام ایرانی شعراء مسلم دور کے آخری برسوں میں مشہور ہوئے۔مزدک و مانی سے لے کر رومی، سعدی، حافظ اور نظیری تک کی شاعری فنونِ لطیفہ کی شاعری تھی۔
ایک اور بڑی بات جو مجھے اس زمانہء طالب علمی میں کچوکے دیا کرتی تھی وہ شاعروں کی وہ محبوبہ تھی جس کا وجود برصغیر اور ایران میں کمیاب تھا۔ میری نظر جب مغربی ممالک کی حسیناؤں کو دیکھتی تو خیال آتا تھا کہ اصل حسن تو یورپ میں پایا جاتا ہے۔ ہم نے خواہ مخواہ ایک اَن دیکھی محبوبہ ”گھڑ“ رکھی ہے جو شرم و حیا کی پتلی ہے لیکن شاعروں نے اس شرم و حیا کے تمام بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ ناز و انداز اور دلبری کی تمام اداؤں کو صرف شاعری کے دیوانوں میں ہی دیکھا جاتا تھا، ہمارے گلی محلوں میں اس ذاتِ شریف کا وجود عنقا تھا جبکہ مغرب کی تمام گلیاں، بازار اور محلے حسنِ نسوانی سے ہمہماتے رہتے تھے اور وہ آج بھی ہمہما رہے ہیں۔ لیکن ان کا وہاں کوئی ”پرسانِ حال“ نہیں۔ہمارے اردو، فارسی اور برج بھاشا کے شاعروں نے جن محبوباؤں کو اپنے تصور میں بسا رکھا تھا وہ 1940ء سے لے کر 1970ء تک کے عشروں میں بالی وڈ میں پروڈیوس کی گئی فلموں کا سامانِ تعیش تھا۔ ان فلموں میں شاعری، موسیقی اور اداکاری کا ایک ایسا امتزاج تھا جس نے برصغیر کے شاعروں اور موسیقاروں کو گویا ایک نئی زندگی دے دی تھی۔ میں سوچا کرتا تھا کہ اس دور کی برطانوی، فرانسیسی، رشین اور امریکی فلموں میں بھی کوئی ایسا امتزاج ملتا ہے۔ مغربی فلموں میں دلیری، جرائت، تاریخی جنگ و جدال اور فطرتِ انسانی کے ان نازک پہلوؤں کی ترجمانی تھی جو ہماری اردو فلموں میں اگر نایاب نہ تھی تو حد درجہ کمیاب تھی۔
قارئین شاید یہ خیال کرتے ہوں گے کہ میری یہ سوچیں یا تصورات میری دیوانگی کی طرف اشارا کرتے ہیں۔سچی بات یہ بھی ہے کہ میں اس وہم میں ایک عرصے تک مبتلا رہا۔ تاآنکہ فوج میں قدم رکھا…… فوج کی دنیا عجیب و غریب تھی!
مجھ پر منکشف ہوا کہ برطانیہ عظمیٰ کی عظمت دراصل اس کی فوج کی عظمت تھی۔ آج بھی اس کا یہی حال ہے۔ امریکہ، روس، چین، برطانیہ، جاپان، فرانس اور اسرائیل کی عظمت کا راز ان کی سہ گانہ یا چہارگانہ افواج کا رہینِ احسان ہے۔ برّی، بحری،فضائی اور میرین افواج جب تک ان ممالک کے پاس ہیں، تب تک وہ عظیم بھی ہیں اور بلند و برتر بھی۔ لیکن سوچ کا ایک اور دھارا بھی ساتھ ہی ابل پڑا جو یہ تھا کہ فوج تو پاکستان کی بھی بہت طاقتور شمار ہوتی ہے۔ ہمارے پاس جوہری بم ہیں، میزائل ہیں، ٹینک، توپیں، آبدوزیں اور فوجی طیارے ہیں۔ تو کیا ان کے ہوتے ہوئے ہم ’بھکاری‘ ہیں؟
ہم IMF سے بھیک مانگتے ہیں اور دنیا بھر کے بینکوں سے ادھار مانگ مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ کیا ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم ایک ”بھکاری قوم“ نہیں، عظیم قوم ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہم سپرپاور نہیں بن سکتے؟ کون سی چیز ہمیں روکتی ہے؟ ہمارے ہاں شاعروں، موسیقاروں اور مصنفوں کی ایک ”عظیم کھیپ“ ہے۔ ہم میں غالب اور اقبال پیدا ہوئے اور آج؟
آج کون لوگ پیدا ہو رہے ہیں؟سوشل میڈیا کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے، ہم کس کھیل تماشے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوست سے آج امریکہ میں بات ہوئی۔ وہ بھی میری طرح پاکستانی ہے۔ تلاشِ معاش میں امریکہ گیا ہوا ہے۔ آج کل ایک سٹور پر کام کرتا ہے اس نے بتایا کہ اس سٹور کے مالک کو معلوم ہی نہیں کہ whatsappکیا ہوتا ہے۔ میں یہ سن کر حیران ہوا اور سوال کیا کہ کیا امریکیوں کو ”واٹس ایپ“ کی بھی خبر نہیں؟…… اس نے کہا کہ جب میں نے سٹور کے مالک کو بتایا کہ واٹس ایپ پر تمام ”کچھ“ مفت ہوجاتا ہے۔ خط و کتابت، بات چیت اور دنیا بھر کی خبریں بالکل مفت آتی جاتی ہیں۔ اس نے کہا کہ بس یہی وجہ ہے کہ میں ”مفت“ کی چیز کو حرام سمجھتا ہوں۔ امریکہ میں تمام لوگ محنت کرتے اور اس کا اجر پاتے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہو کہ بعض اشیاء مفت بھی مل جاتی ہیں تو وہ آج ہی اس آلے (whatsapp) سے ہاتھ کھینچ لیں گے…… مجھے میٹرک کی اردو کی نصابی کتاب کا ایک شعر یاد آ گیا:
آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے، سرہانے دھرے دھرے
سوشل میڈیا کا زیادہ کاروبار مفت ہے۔ آپ کو کوئی دوست massage بھیجتا ہے تو مفت ’ارسال فرماتا‘ ہے اور آپ سے توقع رکھتا ہے کہ آپ بھی اپنے احباب کو مفت کے اس پیغام سے نوازیں گے۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ اس کام کی کوئی قیمت ہے تو آپ سو بار سوچیں گے کہ یہ Massage خواہ یہ کتنا ہی کارآمد، مفید، ضروری اور نفع بخش ہو کہ کسی دوست، عزیز یا رشتہ دار سے شیئر کروں یا نہ کروں ……
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ واٹس آپ کا استعمال مفت کیوں ہے، سوشل میڈیا کا کون سا کاروبار ہے جو مفت ہے یا اس کی کوئی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ گویا اس حوالے سے ہم بھی ایک قسم کے بھکاری ہیں اور جو یہ میسج ریسیو کرتے ہیں اور دوسروں کو ارسال کرتے ہیں ان کا شمار کس زمرے میں ہونا چاہیے، اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں …… عصرِ حاضر میں یہ مفت چیز ایسی عام کیوں ہے، ہم نے کبھی اس موضوع پر کوئی غور نہیں کیا۔اس کا ٹھیکہ تو ان قوموں نے لے رکھا ہے جو خود کو عظیم کہلواتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا وہ عظیم ہیں یا نہیں؟ اور ہم ”مفت بر“ ہیں یا نہیں؟
یہ اور اس قسم کے افکار و تصورات مجھے کئی بار آکر تنگ کرتے ہیں۔ کیا آپ بھی اس مخمصے کا شکار ہیں؟…… اگر نہیں تو ذرا سوچیں کہ کیوں نہیں ……
اقبال گوشاعر تھا لیکن اس نے ایک جگہ بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ کہتا ہے:
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن، کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا غیاب
شاید ہم نے اس لئے علم کو سراپا غیاب اور عشق کو سراپا حضور سمجھا ہوا ہے۔ حضور و غیاب کی یہ منزل مغرب میں بہت کم اور مشرق میں بہت زیادہ کیوں ہے……اسے آپ خواہ دیوانے کا سوال سمجھیں یا فرزانے کا، اس پر غور ضرور کریں۔