ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے

ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے
ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جی ہاں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ ڈرون حملے بند ہوسکتے ہیں، لیکن اب یہ مَیں ہی لکھ رہا ہوں کہ ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے۔ مَیں اب بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ ڈرون حملے بند نہیں ہوسکتے۔ بند تو ہوسکتے ہیں، لیکن بند نہیں ہوں گے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ امریکی پینٹاگون اور سی آئی اے میں جو چپقلش چلتی رہتی ہے، اس کے نتیجے میں یہ بند ہونا مشکل ضرور ہیں، کیونکہ اب ان کی کمان پینٹاگون کے پاس نہیں، سی آئی اے کے پاس ہے۔ نیٹو سپلائی اور فوج کی واپسی سی آئی اے کا مسئلہ نہیں ہے، اگرچہ امریکی فوج میں بھی شکرے افغانستان سے واپسی کے حق میں نہیں۔ صدر باراک اوباما کو ناکام بنانے والی اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ وہ جنگوں کے خاتمے اور فوجوں کی واپسی کا انتخابی وعدہ پورا کرسکیں۔ اگر صدر اوبامایہ وعدہ پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اندرون ملک ان کی مقبولیت میں خواہ کتنی بھی کمی آجائے، عالمی سطح پر ان کی مقبولیت بڑھ جائے گی۔ انہیں کسی کارنامے کے بغیر جو نوبل انعام مل چکا ہے ،اس کا کچھ نہ کچھ جواز پیدا ہوجائے گا، امریکی اسٹیبلشمنٹ کے طاقت ور ستون یہ نہیں ہونے دیں گے ،اس لئے ایسے حالات پیدا کئے جاتے رہیں گے ،جن سے افغانستان سے فوجوں کے انخلاءمیں تاخیر ہوتی رہے یا اس انخلاءکو کم از کم خوش اسلوبی سے انجام نہ پانے دیاجائے۔ افغانستان میں فوجوں کے قیام سے بہت سے طاقت ور تجارتی حلقوں کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ یہ کارپوریٹ ادارے امریکی پالیسی سازی کے پیچھے ا صل تار ہلانے والے ہوتے ہیں۔
ان سب باتوں کے باوجود ڈرون حملے بند ہوسکتے تھے، اگر حکومت پاکستان کا رویہ جرا¿ت مندانہ اور سخت ہوتا۔ پرویزمشرف کی حقیقی وارث زرداری حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اس سلسلے میں محض بیان بازی سے کام لے رہی ہے۔ مَیں جن کالموں میں یہ لکھتا چلا آیا ہوں کہ ڈرون حملے بند ہوسکتے ہیں،اُن میں میرا ہمیشہ سے یہ مو¿قف رہا ہے کہ اس کے لئے ”فریاد زیر لب“ سے کام نہیں چلے گا، اس کے لئے احتجاج کی لَے بڑھانا ہوگی اور کچھ گرمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یاد رہے امریکہ گرمی کو اعلان جنگ نہیں سمجھتا،بلکہ جوں ہی اس کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ گرمی جعلی نہیں، اصل ہے ، وہ نرم پڑ جاتا ہے۔
امریکہ کو جب یقین ہوگیا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہیں تو اس نے حملہ کردیا۔ افغانستان کے بارے میں اُسے علم تھا کہ وہاں کوئی ایسی چیز نہیں ہے، طالبان کے بارے میں اُسے غلط فہمی تھی، جو اب ختم ہو چکی ہے، لیکن شمالی کوریا کے بارے میں وہ کسی جلد بازی پر تیار نہیں۔ ایران کے سلسلے میں اسرائیل کے پُرزور اصرار کے باوجود معاملہ مذاکرات کے ذریعے ہی سلجھایاگیا ہے، حالانکہ اسرائیل ان مذاکرات کے حق میں نہیں تھا اور اب تو بعض حلقے سعودی عرب کی ناراضی کو بھی شام کی بجائے ایران کے معاملے سے جوڑ رہے ہیں۔ امریکہ واحد سپر طاقت کی حیثیت سے پاگل تو ضرور ہے ،لیکن اتنا پاگل بھی نہیں کہ کسی سچ مچ کی ایٹمی طاقت کے گلے پڑ جائے۔
ترکی نیٹو کا ممبر ملک ہے ،لیکن اس نے نیٹو سپلائی کو ترکی سے گزرنے کی اجازت نہیں دی اور امریکہ نے ترکی کا تورا بورا نہیں بنایا۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کی ،مشرقی یورپ کے راستے میں روس نے اپنی سابق ریاستوں کو شہ دی اور انہوں نے امریکہ کو راستہ دینے کے لئے بھاری قیمت کا مطالبہ کردیا۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ نیٹو سپلائی بند ہونے سے امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ اُنہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ امریکی معیشت کے لئے کتنا بڑا جھٹکا تھا۔ جی ہاں امریکہ نے معافی مانگنے سے انکار کردیا،کیونکہ اُسے توقع تھی کہ وہ دولت کی چمک سے یہ معاملہ حل کرلے گا اور بالآخر اس نے اسی ذریعے سے یہ معاملہ حل کرلیا۔ چار پانچ سال بعد جب اس سلسلے میں امریکہ کی خفیہ دستاویزات کھلیں گی تو کئی آنکھیں بھی اُس وقت کھلیں گی۔
برازیل جیسے ملک کی خاتون صدر نے اس بات پر امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا کہ امریکہ برازیل کی صدر کی جاسوسی کرتا رہا ہے ۔امریکہ سے اس مسئلے پر جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ پاکستان نے وہی شکوہ¿ زیر لب پر اکتفا کیا۔ کچھ عرصے سے ”شکوہ ¿زیرلب“ ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کے خلاف ہنگامہ برپا کردے تو اس کے جواب میں بھی پاکستان کی طرف سے”شکوہ¿ زیر لب“ پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے۔ بھارت ہمارا پانی ڈنکے کی چوٹ پر چرا رہا ہے ۔ ہمارا انڈس واٹرکمیشن بھارتی مو¿قف کی حمایت کرتا رہا ہے اور ہماری آنیوں جانیوں کے درمیان ڈیم بنا ڈالے ۔ہم اُس وقت تک ”شکوہ¿ زیرلب“ سے آگے نہیںبڑھے ،جب تک ڈیم مکمل ہوگئے اور اب عالمی عدالت سے انصاف مانگتے پھر رہے ہیں۔ اب جبکہ وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ امریکہ نے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، ابھی اس بیان کی گونج جاری تھی کہ ڈرون حملہ کردیاگیا، اس پر مشیر خارجہ کا بیان امریکہ کی صفائی پیش کرنے کے مترادف تھا۔
موصوف کا یہ کہنا کہ حکیم اللہ محسود امریکہ کو مطلوب تھا،اگر کسی کے مارنے کے لئے یہ جو از کافی ہے کہ امریکہ نے اسے مطلوب فہرست میں شامل کررکھا ہے اور امریکہ اُسے دنیا کے کسی بھی کونے میں،کسی ملک کے اندر گھس کر قتل کرسکتا ہے، اس کے لئے کسی عدالت میں کسی ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں تو پھر آپ اقوام متحدہ میں کس بنیاد پر اپنا کیس پیش کریں گے؟ اس کے ساتھ ہی موصوف کا حکیم اللہ محسود کے قتل کو جواز فراہم کرتے ہوئے یہ کہنا کہ بس ذرا ٹائمنگ غلط ہوگئی۔ گویا یہ ٹائمنگ کوئی اتفاقی چیز تھی، جس پر امریکہ کا کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ یا پھر یہ کہنا مقصود ہے کہ حکیم اللہ محسود کی موت آگئی تھی، اس لئے امریکہ کو اس کا سبب فراہم کرنا پڑ گیا۔ جناب یہ ٹائمنگ غلط ہوگئی یا جان بوجھ کر ٹائمنگ کو سیٹ کیاگیا۔ وگرنہ اگر سالوں سے حکیم اللہ محسود امریکہ کو مطلوب تھا اور مارا نہیں گیا تھا تو اب بھی اُس کے نہ مارے جانے سے کوئی قیامت نہیں آنا تھی۔ حکیم اللہ محسود چند روز کے اندر اندر وائٹ ہاﺅس یا پینٹاگون کو اڑانے کا کوئی ارادہ رکھتا تھا، نہ کسی اور امریکی مفاد کے درپے تھا، جو کچھ تھا، اُس کا ماضی تھا اور اس کے ماضی میں تھوڑا سا حال ملا کر ذرا سا اور ماضی بنا دیا جاتا تو کسی کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے بارے میں مجھے ہمیشہ حسن ظن رہا ہے، لیکن انہوں نے جو بیان دیا ہے ،وہ بھی کسی اور ہی بات کی چغلی کھا رہاہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ جن کے دور میں ڈرون حملے شروع ہوئے تھے ،وہ اس وقت عمران خان کے دائیں بائیں موجود ہیں۔ کیا آپ یہ حملے اُن لوگوں کی خاطر جاری رکھنا چاہتے ہیں جواب عمران خان کے دائیں بائیں موجود ہیں؟ آپ کو اُن کی دل داری منظورہے؟ یا پھر وہ اپنے ماضی سے تائب ہوکر اب ڈرون حملوں کے مخالف عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں توآپ اپنے پہلے مو¿قف ڈرون حملوں کو بند کرانے سے تائب ہوکر اُن کی ضد میں ڈرون حملوں کے حامی ہوگئے ہیں؟
جی ہاں ڈرون حملے بند ہوسکتے ہیں، لیکن جس طرح کا ردعمل پاکستان کا ہے ،اس سے ڈرون حملے ہرگز بند نہیں ہوں گے، بلکہ اب مجھے بھی کئی دوسرے لوگوں کی طرح یہ شبہ ہونے لگا ہے کہ پرویزمشرف کے دور سے ملی بھگت کا شروع ہونے والا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سلالہ حملے پر جو فوج کا ردعمل تھا، وہ ڈرون حملوں کے بارے میں نہیں ہے۔ شہادت کے حوالے سے فوج نے جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، اُس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج کو ڈرون حملوں پر کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ٹی وی کے مذاکروں میں بعض سابق اعلیٰ فوجی ڈرون حملوں کی حمایت کرتے پائے گئے ہیں۔ امریکی اخبارات کا دعویٰ ہے کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ ڈرون حملوں کے لئے نشانے کی نشاندہی ضروری ہے۔ یہ نشاندہی کون کرتا ہے ؟ کیاسی آئی اے کے کارندے ان علاقوں میں بیٹھے ہیں جو ڈرون حملوں کو نشانہ فراہم کرتے ہیں یا پھر ہمارے کچھ لوگ یہ خدمات انجام دے رہے ہیں؟
طالبان سے مذاکرات اور ڈرون حملوں کی مخالفت دونوں معاملے مشکوک ہوتے جارہے ہیں ۔حکومت نے ان دونوں معاملات پر عجیب وغریب طرز عمل اختیار کررکھا ہے۔ خود طالبان کا طرز عمل بھی حکومت کی طرح ہی مشکوک ہے۔ بات چیت پاکستان سے کرنی ہے، لیکن اس کے لئے ڈرون حملوں کی بندش کی شرط ، پھر حکومت کا بھی اس شرط کو مذاکرات کے ساتھ مشروط کردینا ناقابل فہم ہے۔ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اب بھی اپنے عزم کا اظہار کرتی رہتی ہے ،لیکن ڈرون حملوں کے سلسلے میں اس کا ردعمل نہایت مریل اور مو¿دبانہ سا ہے۔ یوں تو ہماری خارجہ پالیسی عرصے سے اسی مریل اور مو¿دبانہ طرز کی شکار ہے،کبھی بھارت میں مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی تو پاکستان ہر سطح پر بھرپور احتجاج کرتا تھا ،اب عالم یہ ہے کہ چند ہندو خاندان سندھ سے بھارت چلے جاتے ہیں تو بھارت آسمان سر پر اٹھالیتا ہے ،کہیں کسی اقلیتی فرد یا گروہ کے ساتھ کوئی ناگوار واقعہ پیش آتا ہے تو بھارت اس پربھی شور مچاتا ہے اور امریکہ بھی پاکستان کو اقلیتوں کا خیال رکھنے کا سبق دیتاہے، لیکن مظفر نگر میں مسلمانوں کے خلاف ہندوﺅں کی غنڈہ گردی اور سینکڑوں مسلمانوں کی شہادت پر پاکستان ”شکوہ¿ زیرلب“ بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔ خود بہت سے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ یہ بند ہوسکتے ہیں اور بند ہوکر رہیں گے ،لیکن اس کے لئے امریکہ پر دباﺅ بڑھانا ہوگا ۔ پاکستان کا موجودہ طرز عمل دباﺅ میں تخفیف کے اشارے دے رہا ہے،گویا مدعی سست گواہ چست.... تو ایسے میں ڈرون حملے کیوں کر بند ہوں گے؟....شاید ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا، جب عالمی برادری کیمیائی ہتھیاروں کی طرح ان اندھے قاتل ہتھیاروں پر پابندی لگائے گی۔    ٭

مزید :

کالم -