جامعہ بنوریہ عالمیہ ایک مثالی ادارہ
دنیا کا کوئی مذہب، فرقہ، ملک یا قوم تعلیم کی اہمیت سے انکاری نہیں، بلکہ اس کے فروغ پر زور دیا جاتا ہے۔روئے زمین کی مقدس ترین الہامی کتاب قرآن مجید کا نزول لفظ، اقراء یعنی پڑھو سے شروع ہوا اور پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: ’’علم کا حصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔ عوام کو تعلیم فراہم کرنا حکومتوں کے اولین فرائض میں سے ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر ایک ریاست اپنا فرض ادا نہیں کر رہی تو پھر وہاں تعلیم کو فروغ حاصل نہیں ہوگا ، کیونکہ مذکورہ حدیث مبارکہ میں فرد کو بھی علم کے حصول کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، لیکن وطن عزیز کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ تعلیم کے حوالے سے یہاں مذہبی تعلیمات کو مکمل اہمیت دی گئی، نہ دنیا سے کچھ سیکھا گیا، حالانکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو آج جو عروج حاصل ہوا ہے، وہ اس تعلیم کا ہی مرہون منت ہے۔آج پوری دنیا میں قال اللہ و قال رسولؐ کی جو صدا بلند ہو رہی ہے۔ وہ صرف دینی مدارس کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ ان مدارس میں جماعتوں میں، تحریکوں میں اکثر وہی لوگ پیش پیش رہتے ہیں جو گرجنے اور برسنے کا ہنر جانتے ہیں، جن کی گفتار اور للکار سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں کو دم بخود کر دیتی ہو، تاہم وہ چہرے ہمیشہ پس منظر میں رہ جاتے ہیں، جن کی شاخ فکر پر پھوٹنے والا ہر خیال ان اداروں ،جماعتوں اور تحریکوں کی نشوونما کررہا ہوتا ہے۔
اصل میں یہی لوگ بہترین اثاثہ اور کل سرمایہ ہوتے ہیں، باقی دنیا میں اس اثاثے اور سرمائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، البتہ برصغیر ، خاص طور سے پاکستان میں یہی لوگ ’’ٹانگ کھینچ‘‘ مہربانوں کے سینے میں بھڑکتی حاسدانہ آگ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہی المیہ ہے ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں لوگوں کو منزل نہیں، رہنما چاہیے۔نظریہ نہیں، افراد چاہئیں، مقصد نہیں، شخصیات چاہئیں، لیڈر نہیں، خطیب چاہئے، سوز نہیں، ساز چاہئے۔ معاشرہ جب اس طرح فکری زوال کا شکار ہو جائے تو پھر صوفیانہ کلام گانے والوں کو ہی صوفیا کی گدیوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔شاعر کے حصے کی عزت و تکریم بھی بھانڈ اور مراثیوں کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ استاد کا رتبہ بھی باس کو دے آتے ہیں۔ شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم اسی المیے کے شکار معاشرے میں جینے والے ایک انسان کا نام ہے۔ پاکستان میں اتنے نمازی نہیں، جتنی یہاں مساجد ہیں۔ علم کی تلاش میں نکلے ، تشنہ لبوں کی اتنی تعداد نہیں ،جتنے یہاں مدارس آباد ہیں۔ کوئی قدیم تو کوئی جدید۔ کچھ مدارس صرف اس لئے آباد ہیں کہ اس کی پہلی اینٹ کسی بزرگ نے رکھی تھی اور کچھ کا بھرم اس لئے ہے کہ عمارتوں کا طرز تعمیر جدید ہے۔ بہت کم ایسے دینی ادارے ملیں گے ،جن کا مقصد اول و آخر تعلیم ہی ہے۔
ادارے بہت ہیں، مگر دینی تعلیم کا جو معیار جامعہ بنوریہ عالمیہ نے دیا ہے ، اس پر تنقید تو آسانی سے کی جا سکتی ہے، مگر رائج کرنے میں کمر دوہری ہو جائے گی۔ موروثیت، سیاست، کھینچا تانی، دھینگا مشتی، مفادات کی گہما گہمی سے پاک خالص علمی ماحول اگر کہیں مل سکتا ہے تو وہ جامعہ بنوریہ عالمیہ ہے۔ یونہی اگر راہ بھول کر اس دانش کدے میں قدم پڑ جائے تو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹیں گے، کچھ سیکھ کر ہی جائیں گے ، کچھ سمجھ کر ہی واپس لوٹیں گے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ وہ ادارہ ہے، جس کی خصوصیت تعلیم سے شروع ہو کر تعلیم پرہی ختم ہو جاتی ہے، یہاں کا رخ عقیدت کی جکڑ بندیوں کی بنیاد پر کم ہی کیا جاتا ہے۔ یہاں رشتہ ہے تو صرف استاد شاگرد کا کتاب اور قاری کا تعلیم آپ کو ایسے ہی تعلیمی ادارے میں ملے گی۔ تعلیمی ادارے کے ساتھ سب سے بڑا انصاف یہ ہے کہ اس کو ایک تعلیمی ادارہ ہی رہنے دیا جائے۔ یہی پیش نظر ہو تو پھر آپ صرف ایک طالب علم کے مستقبل کی فکر نہیں کرتے جو مرنے کے بعد شروع ہوتا ہے، بلکہ اس مستقبل کی بھی فکر کرتے ہیں، جسے اس دنیا میں بھگتنا ہے، تبھی تو نئے آئیڈیاز تخلیق ہوتے ہیں، منی اسکیمیں متعارف ہوتی ہیں۔ ادارے اور شعبے وجود میں آتے ہیں۔ایسے اداروں پر ہی دنیا رشک کرتی ہے۔
گزشتہ دنوں بین الاقوامی خبر رساں فرانسیسی ادارے کے صحافیوں کے ایک وفد نے جامعہ بنوریہ عالمیہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے جامعہ بنوریہ کے شعبہ غیر ملکی و ملکی شعبہ حفظ و کتب، دارالحدیث ،دارالافتاء، دارالتصنیف و دیگر شعبوں کا دورہ کیا اور اس سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ وفد میں شامل عمانوئیل ڈیوپارک اشرف خان و دیگر شامل تھے۔ حضرت مفتی محمد نعیم نے مہمانوں کو جامعہ بنوریہ عالمیہ اور مدارس کے اغراض و مقاصد اور معاشرے میں ان کی خدمات سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی اور مغرب میں دینی مدارس کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور منفی پروپیگنڈے کے جوابات دیئے۔ حضرت مفتی محمد نعیم نے صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مدارس خالص تعلیمی ادارے ہیں، جن کا تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ کسی بھی غیر نصابی سرگرمیوں سے تعلق نہیں ہے۔ مدارس علماء اور طلباء پر دہشت گردی میں ملوث ہونے اور دیگر الزامات سے متعلق حقائق جاننے کے لئے دنیا بھر کے ممالک کے سفارت کاروں، قونصلیٹس ، مبصرین اور میڈیا کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ پاکستان کے جس مدرسے کا دورہ کرنا چاہیں، مَیں ان کو دورۂ کراؤں گا، بشرطیکہ وہ حقائق جان کر اسی کے مطابق فیصلہ کریں ،پھر مدارس کے خلاف ہونے والے منفی پروپیگنڈے کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
حضرت مفتی محمد نعیم نے کہا کہ مدارس بیرونی اشاروں پر نہیں چلتے اور نہ ہی یہ کسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں۔ فقط اللہ تعالیٰ کے بھروسے اور توکل پر چلتے ہیں۔ قرآن و حدیث، فقہ سمیت شریعت مطہرہ کی موجودگی میں ہمیں اور کسی رہبری یا رہنمائی کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ مدارس دینیہ کی تاریخ نئی نہیں اور نہ ہی اس کے خلاف جاری پروپیگنڈہ کوئی نیا ہے، اس سے پہلے بھی دینی مدارس کو بدنام کرنے کے لئے بے شمار چھوٹ گھڑے گئے، ان مدارس و مساجد کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں قرار دیا گیا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اکا دکا نام نہاد مدرسے کے سوا کسی بھی مدرسے کے بارے میں یہ الزام ثابت نہیں کیا جا سکا کہ وہ دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہے۔ مدارس کی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ آیا یہ مدارس واقعی دہشت گردی کی جڑ ہیں یا پھر مسلمانوں کی اس اساس ،یعنی دینی مدرسوں پر قدغن لگا کر کچھ دین بے زار طبقے اپنی فطری جبلت اور خبث باطن کا اظہار کرکے اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دینی مدارس کی ابتداء برصغیر ہندو پاک میں اس وقت ہوئی جب متحدہ ہندوستان میں غاصب انگریز سامراج نے اپنا تسلط مضبوط کیااور مسلمانوں میں موجود جذبہ ایمانی کو ختم کرنے کے لئے لازم قرار دے دیا کہ پورے ہندوستان میں سرکاری طور پر ذریعہ تعلیم اردو ،عربی اور فارسی کے بجائے انگریزی ہوگا ،جبکہ سرکاری نوکری کے لئے انگریزی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا، چنانچہ وہ مسلمان جو پہلے سے ان سرکاری محکموں میں ملازم تھے، انہیں ان کے عہدوں سے معزول کر دیا گیا اور آئندہ کے لئے سرکاری اداروں میں ان کے داخلے بند کر دیئے گئے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو اسلامی تہذیب و تمدن سے تہی دامن کر دیا جائے، چنانچہ مسلمانوں نے اپنی پیٹ کی بھوک بجھانے اوراپنی اولاد کو سرکاری نوکری دلانے کی خاطر انگریزی اداروں میں تعلیم دلانا شروع کر دی ،پھر رفتہ رفتہ ہندوستان میں انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب و تمدن کو فروغ ملنے لگا۔
نئی نسل کی بگڑتی صورت حال کو دیکھ کر اس وقت کے اکابرین امت کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس نئی نسل کو جو سرکاری نوکری کے حصول کی خاطر انگریزی تعلیم حاصل کرکے اپنی ثقافت ، تہذیب و تمدن اور بالخصوص دین اور دینی اقدار سے دور ہوتی جا رہی ہے، اس کی روک تھام کے لئے ان مدارس دینیہ کا قیام عمل میں لایا جائے، جس کا بنیادی مقصد انگریزی سامراج کے اس مذموم مقصد کے آگے بند باندھنا تھا۔اس کے لئے ضروری تھا کہ ایسے مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے جو سرکاری تسلط سے آزاد ہوں، چنانچہ اس وقت کے اکابرین مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ کے لئے آزاد دینی مدارس کا قیام عمل میں لائے ،جن میں دارالعلوم دیو بند اور مظاہر العلوم سہارن پور سرفہرست تھے۔ آگے چل کر ان مدارس کے طلباء نے پورے ہندوستان میں اپنی مدد آپ کے تحت دیگر مدارس کی بنیاد ڈالی ،یوں یہ سلسلہ چلتے چلتے پورے پاک و ہند میں پھیل گیا۔یہ انہی مدارس کا کمال تھا کہ ان کی بدولت انگریز سامراج اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور پھر کلمہ طیبہ کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنے لئے ایک آزاد وطن کا مطالبہ کیا جو آج الحمد للہ پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔
اگرچہ انگریز سامراج کاسورج برصغیر پاک و ہند سے غروب ہو گیا، لیکن کچھ ایسے ناعاقبت اندیش آج بھی مسلمانوں میں موجود اس جذبہ ایمانی کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کی خاطر کبھی پرویز مشرف کی آڑ میں دینی مدارس پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان کو ختم کرنے کی سازش کرتے ہیں تو کبھی طاہر القادری جیسے نام نہاد دینی سکالر میدان میں آکر ان مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ان کے پیشرو بھی اپنے ان مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے اور نہ ہی آئندہ کوئی اس مقصد میں کامیاب ہو سکے گا۔اس لئے کہ اکابرین امت نے ان مدارس کی بنیاد اخلاص، تقویٰ اور للہیت پر رکھی تھی اور باطل قوتوں کے آگے ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کریں، جن کا ماضی جھوٹ اور مکر سے عبارت ہو، مگر وہ بظاہر دین کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہوں۔ درحقیقت ان کا مشن اور مقصد سیکولر اور لبرل جیسے خوشنما نعروں کی آڑ لے کر مسلمانوں کو ان کے دین، دینی اقدار اور روایات سے دور کرنا ہوتاہے، ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے اور ان کی چالوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔دین کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے، دین ہمیشہ زندہ رہے گا۔ دینی مدارس اللہ تعالیٰ کے دین کے قلعے ہیں، اس کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔