پیرس میں گرم جوش مصافحے کے بعد؟
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پیرس میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اچانک ملاقات کی، دونوں رہنما ایک ہی صوفے پر قریب قریب بیٹھ کر خوشگوار ماحول میں بات چیت کرتے رہے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے’’دونوں رہنما دوستانہ موڈ میں دکھائی دیتے تھے اور اُن کی بات چیت میں گرم جوشی عیاں تھی،ملاقات کے اختتام پر دونوں نے اِسی گرم جوشی سے مصافحہ کیا‘‘ وزیراعظم نواز شریف نے پیرس میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، ملاقات کے دوران کن امور پر کیا گفتگو ہوئی اس کی کوئی تفصیل سامنے نہیںآئی، وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہمارے درمیان کیا بات چیت ہوئی اس کی تفصیلات بتانے کا مجھے حق نہیں۔جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں دونوں رہنماؤں کی یہ کوئی پہلی ملاقات نہیں ہے، سب سے پہلے تو وزیراعظم نواز شریف، وزیراعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے نئی دہلی گئی تھے، یہ پہلا موقعہ تھا کہ پاکستان ایسی کسی تقریب میں شریک ہوا تھا، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ غیر ملکی مہمانوں یا سربراہانِ حکومت و مملکت کو حلف برداری کی تقریب میں باقاعدہ دعوت دے کر بُلانے کی کوئی روایت اس سے پہلے نہیں تھی، یہ طرح نریندر مودی نے ڈالی۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعظم مودی سے ملاقات کی۔ امید تھی کہ اِس ملاقات کے بعد دونوں مُلکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی، لیکن عملاً تعلقات پہلے سے بھی زیادہ کشیدہ ہو گئے اور کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر جھڑپیں معمول بن کر رہ گئیں، جن میں سیکیورٹی فورسز کے ارکان اور عام شہریوں کی شہادتیں بھی ہوئیں۔ اِس دوران پاکستان نے بھارت کا ایک ڈرون جاسوس طیارہ بھی مار گرایا، لوک سبھا کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران کانگرس اور بی جے پی نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دی۔ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے تو بھی یہی حربہ آزمایا گیا اور کنٹرول لائن کا محاذ گرم رکھا گیا تاہم مودی کی کوشش کے باوجود بی جے پی مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر سکی بہار کے انتخابات تک یہی صورت حال تھی یہاں بی جے پی کو شرمناک شکست ہو گئی۔
دونوں وزرائے اعظم کی آخری ملاقات اوفا (روس) میں ہوئی تھی جہاں وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے سلسلے میں موجود تھے، ملاقات کے بعد ایک دس نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات نئی دہلی میں ہو گی، لیکن بدقسمتی سے یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسے من مانی تاویلات میں اُلجھا دیا تھا۔ یہ وہی سشما سوراج ہیں، جنہوں نے اپنے چند دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جنرل پرویز مشرف کے دورۂ آگرہ کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونے دیا تھا، وہ اس وقت بھارت کی وزیر اطلاعات تھیں اور مشترکہ اعلامیے کے مسودے میں بار بار تبدیلیاں کی جا رہی تھیں یہاں تک کہ اتنی تاخیر ہو گئی کہ جنرل پرویز مشرف آدھی رات کے وقت بغیر اعلامیہ جاری ہوئے واپس آ گئے۔
اِن حالات میں یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ کیا ایک مصافحہ اور اِس دوران دونوں رہنماؤں کی زبان سے نکلنے والے چند پُر تکلف روایتی جملے دونوں مُلکوں کے تعلقات بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ دونوں مُلکوں میں تعلقات کی خرابی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اِس ماحول میں جب دونوں مُلکوں کے رہنماؤں کی رسمی سی ملاقات بھی ہوتی ہے تو بڑی خبر بن جاتی ہے۔ جیسا کہ پیرس میں ہوا۔ یہ ملاقات طے شدہ نہیں تھی اور کہا یہی گیا تھا کہ اس موقعہ پر کوئی ملاقات متوقع نہیں، لیکن اچانک نریندر مودی اپنی نشست سے اُٹھ کر وزیراعظم نواز شریف کی طرف بڑھے، مصافحہ کیا، اُن کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھ کر بات چیت شروع کر دی اور یوں یہ خبر پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں دوسری تمام اہم خبروں پر سایہ فگن رہی، یہاں تک تو سب ٹھیک ہوا،اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا دونوں مُلک کوئی ایسے اقدامات کرنے پر بھی رضا مند ہوں گے، جن کی وجہ سے تعلقات میں بہتری آئے، دونوں مُلکوں کے عوام کے درمیان پائے جانے والے شکوک و شبہات کے گہرے بادل چھٹ جائیں، غلط فہمیاں دور ہوں، اعتماد کی فضا پیدا ہو، مسئلہ کشمیر سمیت دوسرے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو،اگر ایسا نہیں ہوتا،اور تعلقات پہلے کی طرح ہی کشیدہ رہتے ہیں، غلط فہمیاں بھی دور نہیں ہوتی،جامع مذاکرات بھی بحال نہیں ہوتے تو یہی کہا جائے گا کہ یہ مصافحہ اور صوفے پر بیٹھ کر یہ راز و نیاز محض فوٹو سیشن تھا، دونوں رہنماؤں میں اگر کوئی ٹھوس بات ہوئی ہے تو پھر اس کی روشنی میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر بات پہلے کی طرح ایک ہی مقام پر رُکی رہے گی تو پھر ایسی ملاقاتوں کا، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ برف پگھل رہی ہے، کیا فائدہ؟۔ اگر دونوں مُلکوں کو جدید دُنیا میں آگے بڑھنا ہے تو انہیں اپنے اختلافات حل کر کے پرامن ہمسایوں کی طرح رہنا ہوگا۔
دونوں مُلکوں کے درمیان ماضی میں تعلقات کی بہتری کے لئے جتنی کوششیں کی گئیں وہ اس لئے کامیاب نہ ہو سکیں کہ بنیادی تنازعے کو حل کرنے کی بجائے اسے نظر انداز کرنے کا رویہ اپنایا گیا، عوام کو قریب لانے کے لئے امریکہ نے جو ٹریک ٹو ڈپلومیسی شروع کی تھی وہاں بھی اِس بات پر زور دیا گیا کہ تجارت شروع کریں، عوام کے درمیان رابطے بڑھائیں، ایک دوسرے مُلک میں آمدورفت کو معمول بنائیں اور ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اُن معاملات کو نمایاں کریں جو دونوں ملکوں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں، زبان، لباس، خوراک ، سماجی اقدار، وغیرہ ایسے مشترک پہلوؤں کو زیادہ نمایاں کریں، لیکن یہ سب کچھ بھی نہ ہو سکا، دونوں ملکوں کی آمدو رفت میں سفر کی پابندیاں بدستور حائل رہیں، پورے مُلک کا ویزہ ملنے کا سلسلہ شروع نہ ہو سکا، محض چند شہروں کا ویزہ دیا جاتا اور جس راستے سے کوئی مسافر کسی مُلک میں داخل ہوتا ہے اُسی سے واپس جانے کی پابندی ہے، پولیس رپورٹنگ کی پابندی بھی ہے، چوبیس گھنٹے کے دوران ایک مقررہ وقت پر ہر روز پولیس سٹیشن پر جا کر اطلاع دینا پڑتی ہے کہ مسافر فلاں جگہ ٹھہرا ہوا ہے، جہاں تک تجارت کا تعلق ہے اس کا حال یہ ہے کہ جو سامان(سبزیاں، پھل وغیرہ) جلد خراب ہونے والا ہے، وہ سرحد پر پڑا پڑا خراب ہو جاتا ہے اور ضابطوں کی پابندیاں نرم نہیں ہو پاتیں، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان چکوٹھی کے راستے جو تجارت ہو رہی ہے اس کا بھی یہی حال ہے، کوئی معمولی واقعہ ہو جاتا ہے تو تجارتی ٹرک جہاں کھڑے ہوتے ہیں وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں، پھر سلسلہ جنبانی ہوتی ہے اور رُکے ہوئے ٹرک چلتے ہیں، سرحدوں پر کشیدگی رہتی ہے، گولیاں چلتی رہتی ہیں۔ بات بڑھ جائے تو دونوں مُلکوں کے درمیان الفاظ کی جنگ بھی تیز ہو جاتی ہے اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ دونوں مُلکوں میں کشیدگی کا باعث بننے والا مسئلہ کشمیر موجود ہے اور اسے پس پشت ڈال کر تعلقات معمول پر لانے کا فلسفہ کارگر ثابت نہیں ہو پایا، اِس لئے تعلقات بہتر بنانے ہیں تو پہلا کام پہلے کرنا ہو گا، ورنہ ہر چند ماہ بعد دُنیا کے کسی نہ کسی شہر میں پانچ دس منٹ کے لئے باہمی دلچسپی کے امور پر بات کر لینا اور مصافحہ کر کے رخصت ہو جانا بے کار مشق ثابت ہو گی۔