پی سی بی کو سلیکٹرز یا کوچ میں سے ایک کو تبدیل کرنا ہو گا
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے کسی حد تک انگلینڈ سے ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی ہار کی ذمہ داری سلیکٹرز پر ڈالی ہے۔ اور چیف سلیکٹر ہارون الرشید نے ہار کی ذمہ داری ہیڈ کوچ اور کپتان پر ڈال دی ہے۔ ہار جیت گیم کا حصہ ہے۔ اس پر چور سپاہی ۔ اور چوہے بلی کا کھیل کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ہار سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیت کی تیاری کی ضرورت ہے۔
ویسے پاکستان کوئی پہلی دفعہ تو ہارا نہیں۔ ورلڈ کپ کی ہار پر بہت شور ہوا تھا۔ سرفراز کو باہر بٹھانے پر شور ہوا۔سارے پاکستان نے کہا کہ سرفراز دھوکہ نہیں دے گا۔ لیکن جب تک وقار یونس کو اس بات کا یقین آتا کہ سرفراز دھوکہ نہیں دے گا۔ ہم ورلڈ کپ سے باہر ہو چکے تھے۔ تب سے اب تک وقار یونس مسلسل سرفراز کو ٹیم سے بار نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر سیریز میں بیچارہ سرفراز ٹیم سے اندر اور باہر ہوتا رہتا ہے۔ وقار یونس ہر سیریز کو سرفراز کی ہی نذر کر دیتے ہیں کہ کسی طرح اس کو مکمل آؤٹ کر دیا جائے۔ اور وہ بچ جا تا ہے۔ اور اس طرح اگلی سیریز بھی داؤ پر ہی لگ جاتی ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس لئے نئے نئے لوگوں کو چانس دے رہے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے با لا تر ہے کہ پاکستان نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ نئے کھلاڑیوں سے کھیلنا ہے یا پرانے سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ۔ اگر نئے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا ہے تو پرانوں کو کیوں بار بار چانس دیا جا رہا ہے۔ اور اگر پرانے سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا ہے تو انہیں باہر کیوں بٹھا یا جا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹیم مینجمنٹ کو پتہ نہیں کہ انہوں نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کس کے ساتھ کھیلنا ہے۔
اگر آپ احمد شہزاد ، عمر اکمل کو نہیں کھلانا چاہتے تو نہ کھلائیں ۔ مگر انہیں نفسیاتی دباؤ میں لا کر کھلانا تو ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ سیریز سے پہلے احمد شہزاد کو متنازعہ کر دیا گیا کہ ہیڈ کوچ وقار یونس نے انہیں تھپڑ مارا ۔ اور پی سی بی کے سابق سربراہ نے یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ احمد شہزاد شاہد آفریدی کا سامان اٹھا کر پھرتے ہیں۔ جب آپ ایک کھلاڑی کو ہیڈ کوچ کی جانب سے تھپڑ مارنے کی خبر نکال دیں تو پھر یہ کھلاڑی اس ہیڈ کوچ کے ساتھ کیسے کھیل سکتا ہے۔ اسی طرح بلا شبہ احمد شہزاد کو سیریز سے پہلے ہی متنازعہ کر دیا گیا تھا۔
عمر اکمل کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ پہلے عمر اکمل کو معطل کر دیا گیا۔ شو کاز جاری کر دیا گیا۔ انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔میڈیا نے عمر اکمل کا بھرکس نکال دیا۔ ہر قسم کی کہانی میڈیا میں آگئی۔ عمر اکمل میڈیا کے سامنے رونے والا ہو گیا۔ لیکن میڈیا کو بھی کوئی رحم نہیں آیا۔ اس کے بعد دو دن میں ہی پی سی بی نے معطلی ختم کر دی۔ انکوائری ختم کر دی۔ اور عمر اکمل کو ٹیم کا حصہ بنا دیا۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ اس سارے کا مقصد عبدالقادر کا منہ بند کرنا تھا۔ لیکن کوئی سمجھے جب ایک کھلاڑی کو اس قدر سیاست کا شکار کیا جائے گا۔ اسے ذہنی دباؤ میں لا یا جا ئے گا۔ تو وہ کیا کارکردگی دے گا۔
شعیب ملک کی تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ ہماری ٹیم مینجمنٹ تو شعیب ملک کی محبت کے سحر میں اس قدر گرفتار ہے کہ انہیں سارے فارمیٹ کھلانے پر بضد رہی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے خود شعیب ملک کو احساس ہو گیا کہ ایک بیٹنگ پچ پر ان سے سکور ہو گیا ۔ ورنہ وہ تو اب ٹیسٹ ٹیم کے قابل نہیں ہیں۔ اسی لئے انہوں نے خود ہی ٹیسٹ سے ریٹائر منٹ کا اعلان کر دیا۔ پتہ نہیں شعیب ملک کو کب احساس ہو گا کہ وہ اب ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کے قابل بھی نہیں ہیں۔ ایک اوسط درجہ کی کارکردگی کے ساتھ کب تک وہ نئے کھلاڑیوں کا راستہ ر وک سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ ٹیم مینجمنٹ یونس خان کو تو ایک چانس دینے کے لئے بھی تیار نہیں تھی۔ لیکن شعیب ملک کے چانس تو ختم ہی نہیں ہو رہے۔ ویسے تو یہ ہمارا قومی مزاج رہا ہے کہ ہم نے اکثر اپنے ہیروز کو اچھے طریقے سے الوداع نہیں کیا ہے۔ اور اب ہم نے یونس خان کو بھی اچھے طریقے سے الوداع نہیں کیا ہے۔ اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
نہ جانے یہ تاثر کیوں ابھر رہا ہے کہ قومی ٹیم کے ہیڈکوچ وقار یونس انصاف پر نہیں بلکہ پسند اور نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔اسی طرح ون ڈے ٹیم کے کپتان اور ٹی ٹونٹی کپتان کی ترجیحات اور پسند و نا پسند بھی اپنی اپنی ہیں۔ دونوں نے اپنی اپنی ریاستیں بنائی ہوئی ہیں۔ جسے شاہد آفریدی ضرور کھلانا چاہتے ہیں۔ اسے اظہر علی ٹیم میں نہیں رکھنا چاہتے۔ ایسے میں ایک اچھی ٹیم کیسے بن سکتی ہے۔شاہد آفریدی کی اپنی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے۔ وہ اتنی بری کارکردگی کے ساتھ کیسے ورلڈ ٹی ٹونٹی کھیل سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کرکٹ کی خوبی یہی رہی ہے کہجس کی ٹیم میں بھی جگہ نہیں بنتی ۔ وہی کپتان ہو تا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف آخری ٹی ٹونٹی میں نئے نوجوان نہیں بلکہ سینئرز اور تجربہ کار کھلاڑی نا کام ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی کرکٹ کافی عرصہ سے زوال کا شکار ہے۔ عوام کی ہمت و حوصلہ ہے کہ اتنے زوال کے بعد بھی عوام کی دلچسپی کم نہیں ہو ئی ہے۔ لیکن ڈر یہی ہے کہ کرکٹ بھی کہیں ہاکی کی طرح عوامی دلچسپی کھو نہ دے۔ پی سی بی کو ہوش کے ناخن لینا ہو نگے۔ پی سی بی کو سمجھنا ہو گا کہ یا تو سلیکٹرز کو تبدیل کر دے یا ہیڈ کوچ کو تبدیل کردے۔ کیونکہ اگر کوچ اور سلیکٹرز ہی ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا شروع کر دیں گے تو ٹیم سے کارکردگی کی امید رکھنا دور کی بات ہے۔