ظفر علی شاہ ہار گئے ، مسلم لیگ (ن) کو نیا میئر لانا ہوگا جو آزاد میں بھی ممکن ؟
تجزیہ : چودھری خادم حسین
سابق رکن سینیٹ اور قومی اسمبلی سید ظفرعلی شاہ نے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین شپ کے لئے انتخاب میں حصہ لیا کہ وہ اسلام آباد کی میئر شپ کے امیدوار تھے، ان سے ہمدردی کرنا چاہئے کہ وہ ہار گئے اور اب انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی شکست کی وجہ پارٹی کے اندر سے ہونے والی ’’غداری‘‘ ہے کہ ان کو جان بوجھ کر ہرایا گیا، سید ظفرعلی شاہ معتبر شخصیت اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں، ان کی بطور سینیٹر مدت مکمل ہونے کے بعد اگلی ٹرم کے لئے ٹکٹ نہیں ملا تھا، اور اب وہ اپنی جماعت کی طرف سے میئر شپ کے لئے متوقع امیدوار تھے اس کے لئے یہ لازم تھا کہ وہ پہلے چیئرمین منتخب ہوکر جنرل کونسل کے رکن تو بنتے اب ان کے لئے یہ چانس نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو ان کی جگہ اب جیتنے والوں میں سے کسی کو نامزد کرنا ہوگا اور یہ بھی امکان ہے کہ کوئی آزاد حیثیت سے جیتنے والا ہی میئر بن جائے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ،آزاد حیثیت سے جیتنے والوں میں نوے فی صد مسلم لیگ (ن) کے ہیں، تو پھر ان کو جماعت ہی میں واپس آنا ہے ، سید ظفر علی شاہ کے الزام اور وزیراعظم کے بیان کو ملا کر پڑھا جائے تو پھر تنظیمی طورپر مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی صورت حال مثالی نہیں ہے اور نظم و ضبط کا فقدان دکھائی دیتا ہے کہ اگر نظم و ضبط ہوتا تو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہ ملنے والا اپنی جماعت کے ٹکٹ ہولڈر کے مقابلے میں نہ کھڑا ہوتا، اور نہ ہی سید ظفر علی شاہ اپنے بندے سے ہارتے اور ان کو سازش کہنا پڑتا ، اس کے باوجود ہمارے ملک کی روایت کے مطابق وزیراعظم نے پہلے ہی عہد دیا نوے فی صد مسلم لیگی ہی ہیں جس کا مطلب واضح ہے کہ ان کو جماعت قبول کرے گی اب یہ ان کا فیصلہ ہے کہ وزن کس کے پلڑے میں ڈالتے ہیں کہ مقابلہ 21اور 15کے درمیان ہے۔ آزاد جیتنے والوں کی تعداد 14ہے، میئر شپ کے لئے پچاس کے ایوان میں 26ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اس سے پہلے مخصوص نشستوں کے انتخاب کی وجہ سے یہ تعداد بڑھے گی اور تناسب بھی بڑھ جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہوگی کہ مخصوص نشستوں کے انتخاب سے قبل آزاد اراکین کو واپس پارٹی میں لے لیا جائے اور وہ بھی سودے بازی کرہی لیں گے اس لئے اقتدار تو بہرحال مسلم لیگ (ن) کو ملے گا لیکن تحریک انصاف کے پندرہ براہ راست اراکین اور پھر بالواسطہ منتخب ہوکر آنے والے حکمران جماعت کے لئے سردرد ضرورت بنے رہیں گے بشرطیکہ 5دسمبر کے بعد بھی تحریک انصاف نے پارلیمانی سیاست کا فیصلہ کیا اور کسی تحریک سے گریز کیا۔ ہمارے اسلام آباد کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے بلدیاتی ادارے کے نتائج 2013ء کے جنرل الیکشن کے مطابق ہی ہیں جب دونوں جماعتوں نے قومی اسمبلی کی دونشستوں میں سے ایک ایک جیتی تھی، اب شاید دھاندلی کا الزام اس شدت سے نہ لگے جو پہلے ہے۔
اب پنجاب اور سندھ کے تیسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات باقی ہیں، اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگااور دوسرا سیاسی عمل شروع ہوجائے گا 5دسمبر کو کراچی مرکز نگاہ ہوگا ، وہاں بھی کانٹے دار دنگل کا اظہار کیاجارہا ہے، بہرحال جو بھی ہوگا سامنے آجائے گا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے لئے تو عمران خان نے اعلان کردیا تھا کہ نئی رکن سازی اور پھر جماعتی انتخابات ہوں گے یوں وہ بالکل نئے سرے سے تنظیم نو کررہے ہیں، اس میں بہر حال وقت لگے گا۔
ان کے مقابل پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی اپنی تنظیم کی طرف مکمل توجہ کی ضرورت ہے، چیئرمین بلاول بھٹو نے اگر سارے ملک کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے تو پھر ان کو جماعت کی تنظیم نو کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ سیاسی سائنس کا بھی یہی تقاضا ہے کہ منجمد پارٹی کو متحرک کرنے کے لئے تنظیم نو لازم ہے آج تو یہ صورت حال ہے کہ یہاں یوم تاسیس پر بھی لاہور اورپنجاب تنظیم کے اختلاف اسرار خودی کی طرح سامنے آگئے ہیں اور لاہور کی تنظیم نے خودی کا پرچم بلند کردیا ہے۔ اور یوم تاسیس کی تقریب کا اہتمام خود کیا۔ پنجاب والوں کو چل کر جانا پڑا یوں بھی بہتر ہوگیا کہ پنجاب تنظیم کے اخراجات بچ گئے، میاں منظور وٹو سیانے ہیں کہ ایوان اقبال میں مشترکہ تقریب کی بات نہ مانی گئی تو انہوں نے اسے ملتوی ہی کردیا اور لاہور تنظیم کی طرف سے منعقد ہونے والی تقریب میں چلے گئے۔ بلاول بھٹو نے ملیر میں تقریر کی وہ مستقبل کی جماعت کے حوالے سے پورے پاکستان کے لئے اور پارٹی پروگرام کے حق میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جس پارٹی نظریے کا علم وہ اٹھا کر چلنا چاہتے ہیں اس کے لئے ان کو اجازت ملے گی کہ اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ ان کو اگر میدان کھلا دیا گیا تو پھر نتائج کا انتظار ہوگا، پیپلزپارٹی والے اب کھل کر کہہ رہے ہیں کہ واحد اور آخری کوشش یہی ہے کہ بلاول اپنے پارٹی پروگرام کے ساتھ پورے ملک میں تنظیم نو کرکے سیاسی عمل شروع کریں ۔ ابھی تک تو توجہ 5دسمبر پر ہے جب کراچی میں معرکہ ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ملیر کے علاوہ لیاری میں کتنی نشستیں حاصل کرتی ہے۔ ویسے کیسی عجیب بات ہے کہ اس بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے سنا جارہا ہے کہ کراچی میں مقامی طورپر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوئی ہے جبھی تو ایم کیوایم نے کہا اس کے خلاف سب جماعتیں اکٹھی ہیں۔