سو دن بمقابلہ پینتیس سال
آخر کار تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار کے دنوں کی سینچری مکمّل کر لی ہے جسکو اپوزیشن سو ناکامیوں سے تعبیر کر رہی ہے جبکہ حکومت اپنی سو خدمات گنوا رہی ہے ۔بظاہر سو دن میں بہت کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا ہے۔روپے کی بے قدری کو لے کر اقتصادی پلان واضح نہیں ہے۔
سعودی عرب۔ چائنہ اور یو اے ای کی حکومتوں نے کچھ مالی تعاون کا یقین دلایا ہے مگر پس پردہ معاملات کن شرائط پر طے ہوئے ہیں یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
ایک طرف سعودی عرب میں معروف صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل کو لے کر تناؤ موجود ہیں کیونکہ اس واردات کے ڈانڈے براہ راست شاہی خاندان سے مل رہے ہیں تو دوسری طرف کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھی حملہ کیا گیا ہے جو کہ سی پیک پر براہ راست حملہ ہے۔تاہم پولیس اور رینجرز کے جوانوں نے جانی قربانیاں دے کر دشمن کی مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دیا ہے۔
اپوزیشن کی وہ جماعتیں عمران خان سے سو دن کا حساب طلب کر رہی ہیں جو کہ گزشتہ پینتیس سال سے دیوار اقتدار پر لڑکتی رہی ہیں۔بجائے اسکے اپنے دور اقتدار کا حساب دیا جائے الٹا اپوزیشن پنجے جھاڑ کر پیچھے ہی پڑ گئی ہے۔ن لیگ کی طرف سے کچھ بیان بازی ہے جبکہ پیپلزپارٹی زیادہ ایموشنل ہورہی ہے جبکہ فضل الرحمٰن صاحب کا تو بس نہیں چل رہا کہ اس حکومت کو ایک دن بھی مزید نہ چلنے دیں۔شاید وہ ہمیشہ سے حکومتی بینچوں پر بیٹھنے کے عادی ہیں اور اب کی بار پارلیمنٹ ہاؤس سے بھی باہر ہوگئے ہیں تو یہ مرحلے انہیں بہت گراں گزر رہے ہیں۔
پانی سال ملک کے وزیر خزانہ رہنے والے میاں نوازشریف کے سمدھی اسحاق ڈار صاحب اشتہاری ہو چکے ہیں اور وطن واپس آنے کے لئیے تیار نہیں ہیں اور انکے بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں اور جائیداد بھی ضبط کی جا چکی ہیں اور یہ شخص پانچ سال پاکستان کا وزیرِ خزانہ رہا ہے جسکے دور میں بجٹ خسارہ بڑھتا رہا ہے اور اسکی اثاثہ جات نوے گنا زائد ہوچکی ہیں جسکی منی ٹریل دینے سے وہ بھی قاصر ہے۔
میاں برادران تو اپنا بویا کاٹ ہی رہے ہیں مگر دوسری طرف سندھ کے حکمران۔ پاکستان کھپے فیم زرداری صاحب اور انکی ہمشیرہ فریال تالپور کے گرد نیب اور ایف آئی اے کا گہرا تنگ ہوتا جارہا ہے بے نامی اکاؤنٹس کے سرے اومنی گروپ اور اس جیسی دیگر کمپنیوں سے مل رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کو بھی اربوں کے بجٹ ملے ہیں مگر سندھ کے تمام شہر بشمول کراچی کھنڈر کا منظر پیش کر رہے ہیں آج تین سال سے چا ر کلو میٹر کی اورنج بس لائن اورنگی ٹاؤن تا میٹرک بورڈ آفس تک زیرِ تعمیر ہے اور ابھی پچاس فیصد ترقیاتی کام باقی ہے جبکہ لاگت دگنی ہو چکی ہے۔
خان صاحب سچے اور مخلص شخص ہیں انکی پالیسیوں اور طریقہ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کسی کی حکمرانی یا اندازِ حکومت کو جانچنے اور پرکھنے کے لئیے سو دن تؤ بہت کم ہیں ہاں سال کی بعد مطلوبہ نتائج نظر نہ آئیں تو اپوزیشن کا حق ہے کے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے اور اس پر تنقیدی حملے جاری رکھے۔
کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کا عمل جاری ہے جسکے نتیجے میں کئی لوگوں کا کاروبار ختم ہوگیا ہے اور دیہاڑی دار طبقہ شدید متاثر ہوا ہے کیا پیپلز پارٹی کی حکومت کی ذمّہ داری نہیں ہے کہ انکے لئیے متبادل پلان بنایا جائے۔نوابشاہ ہو یا لاڑکانہ سکھر ہو یا حیدرآباد کہیں بھی انفراسٹرکچر کی ڈیولپمنٹ کی لئیے کو کام نظر نہیں آرہا ہے ترقیاتی بجٹ کن جیبوں میں جارہا ہے یہ راز آشکار کرنے کے لئیے کوئی تیار نہیں ہے۔بجائے اسکے کے یہ بتایا جاتا کہ پینتیس سال عوام کے پیسے کے ساتھ کیسی لوٹ مار کی گئی ہے قوم پر قرضہ بڑھتے بڑھتے کہاں پہنچ گیا ہے۔
خان صاحب کی تقریر میں انڈے مرغیوں اور کٹے کے ذکر کو لے کر بہت مذاق اڑایا جارہا ہے مگر دانش اسکول ہوں یا سستی روٹی یا آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم انکے بارے میں ن لیگ کے ترجمان کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں اور ویسے بھی انکے بڑوں نے تو چپ سادھ لی ہے اب یہ نہیں پتہ کے ڈیل کا معاملہ ہے یا ڈھیل دی جارہی ہے
خان صاحب کو بھی اپنا امیج مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔عوام کی بہت زیادہ توقعات ہیں کہ یہ حکومت انکی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لے کر آئے گی۔ وہ وقتی تکالیف کا مقابلہ کرنے کے لئیے تیار ہیں مگر کسی نئے جال میں پھنسنے کو تیار نہیں ہیں۔
۔
یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔