گجرات پولیس نے فرسودہ نظام کی تبدیلی کا عملی طور پر آغاز کر دیا
پولیس کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کی جتنی ضرورت اس وقت ہے کبھی نہ تھی، اس فرسودہ نظام میں گنہگار اور بے گناہ تختہ دار پر چڑھ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پولیس کی کارکردگی معاشرے پر مرتب ہوتی ہے پھر وہ تمام ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں جو پولیس کی کارکردگی سے براہ راست وابستہ ہیں۔ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر جائز و ناجائز کاموں کیلئے رشوت دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، رشوت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے، محنت کے بل بوتے پر ترقی کے رجحان میں کمی وجہ سے ملک ترقی کرنے کی بجائے بدترین معاشی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ جن ممالک نے ترکی کی اسکی بنیادی وجہ انصاف پر مبنی معاشرہ ہوتا ہے، تمام اداروں کو احتساب کا خوف اور خود احتسابی کا جذبہ ہوتا ہے۔ انصاف کی بروقت فراہمی سے جرائم کے فروغ کی بیخ کنی ہوتی ہے جبکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیری اور فرسودہ حربے حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں، بگاڑ فوری طور پر وجود میں آ جاتا ہے مگر اصلاح کرتے کرتے دیر لگ جاتی ہے۔ ایک ایسا ہی ناانصافی پر مبنی پولیس کا فرسودہ نظام ہے، جب کوئی لڑائی جھگڑے ، حادثات ، فائرنگ وغیرہ میں زخمی ہو جاتا ہے تو اسے فوری طور پر علاج معالجہ اور طبی امداد کیلئے ہسپتال لے جانے کی بجائے پہلے متعلقہ تھانہ کا انتخاب کرنا ہوتا تھا ،محرر کے کمرے میں خون بہتے ہوئے مضروب کو کئی کئی گھنٹے ایس ایچ او کی خصوصی مہربانی کیلئے واویلا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اسے ہسپتال میں لے جاے اور اسکا میڈیکل لیگل سرٹیفکیٹ متعلقہ ڈاکٹر سے حاصل کر کے ضربات اور انکی شدت کا تعین کر کے رپورٹ دے ، ایف آئی آر درج کی جا سکے، تھکا دینے والے ان ابتدائی مراحل سے گزر کر ایک مضروب ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد جب فارغ ہو کر گھر واپس آتا ہے تو بعض اوقات یسا بھی ہوتا ہے کہ اسکا مقدمہ درج نہ ہو سکا اگر ہوا تو قابل دست اندازی پولیس کے زمرے میں نہیں آتا ، ملزم پارٹی کو ایک موقع مل جاتا کہ وہ یا تو مدعی کو راضی کرے یا پھر پولیس کو ؟ گجرات میں تعینات ہونے والے محکمہ پولیس کے ایک عظیم سپوت پروفیسر سید علی محسن کاظمی جو فیلڈ کے علاوہ پولیس کی تربیت کرانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں نے اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ ہسپتالوں میں ایک خدمت سنٹر قائم کریں ، لڑائی جھگڑے ، حادثات اور فائرنگ کا شکار ہونے والے مضروبین جو موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں کو ایسے ناپسندیدہ واقعات رونما ہونے کے بعد تھانے رجوع کرنے کی بجائے سیدھا ہسپتال لایا جائے جہاں خوش اخلاق اور اعلی تعلیم یافتہ عملہ افسران فوری طور پر مضروب کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہوں۔ پنجاب میں پہلے ایسی کوئی سہولت نہ تو دیکھنے کو ملتی ہے اور نہ ہی کسی پولیس آفیسر نے اسکو محسوس کیا، یہ آسانی پیدا کر کے نہ صرف حالات سے مکمل آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ میڈیکل لیگل حاصل کرنے کے لیے مضروب پارٹی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے رشوت کا سہارا نہ لے سکے گی ۔
پروفیسر سید علی محسن کاظمی جو نبی کریمﷺ اور آل نبیﷺ کے غلام اور جذبہ خدمت سے سر شار ایک ایسے اعلی پولیس آفیسر ہیں جو دکھی انسانیت کی خدمت کو راہ نجات تصور کرتے ہیں نے اس پر عمل درآمد کرانے کا فیصلہ کیا، مقامی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں اس سلسلہ میں ایک خصوصی کاؤنٹر بنا دیا گیا ،اس خدمت کاؤنٹر کی یہ افادیت ہے کہ ضلع بھر سے کہیں سے بھی اگر کوئی مضروب ہسپتال پہنچتا ہے تو خدمت سنٹر والے اس کی ہر ممکن مدد کرنے کے علاوہ وہ نہ صرف متعلقہ تھانے کو آگا ہ کرتے ہیں بلکہ اسکی کمپیوٹر انٹری کرتے ہیں جس سے متعلقہ ڈی ایس پی حتی کہ ڈی پی او بھی آن لائن ہونے کی وجہ سے مکمل آگاہی حاصل کر رہے ہیں ۔یہ ایک خواب بلکہ ناممکن عمل تھا کیونکہ اس خدمت سنٹر کے قیام سے کرپٹ مافیا کو شدید خطرات لاحق تھے، ان کی من مرضی کا خاتمہ ہونا تھا، اب تک درجنوں مضروبین کی خدمت سنٹر نے مدد کی جبکہ ڈی پی او علی محسن کاظمی لڑائی جھگڑے ، مار کٹائی کے ان تمام آن لائن مقدمات میں پیش رفت سے آگاہ ہیں، جب تک ان واقعات کے ملزمان گرفتار نہیں ہوتے متعلقہ ایس ایچ او کی جان خلاصی نہیں ہوتی ،کرپشن کا ایک اور راستہ بند کرتے ہوئے مرد مجاہد پروفیسر سید علی محسن کاظمی جو پنجاب پولیس کے ماتھے کا جھومر اور سادات برادری کے علاوہ اپنی کارکردگی کی بدولت ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں میں یکساں مقبول ہیں نے محکمہ پولیس سے مزید کرپشن روکنے کے لیے پولیس کے پاس موجود وردیوں ، اسلحہ ، گولیاں ، آنسو گیس، حتی کہ ضرورت کی تمام اشیا کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے ایک علیحدہ سیل بنا دیا جہاں تنکے تنکے کا حساب بھی کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے، اس عمل سے کسی بھی ناگہانی آفت میں پولیس کو اپنے پاس موجود وسائل کا نہ صرف بروقت علم ہوتا ہے بلکہ لائن آفیسر سے لیکر ڈی پی او ، آر پی او حتی کہ آئی جی آفس کو بھی مکمل آگاہی رہتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں پولیس ملازمین کی ضروریات وغیرہ کے زمرے میں کرپشن کی خبریں ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں، اس سے قبل کسی کے ذہن میں نہ بات نہ آئی یا پھر دانستہ طور پر ایسی کوشش نہ کی گئی جس سے کرپشن کے تمام راستے بند ہو سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ کا حصہ تو ہر کوئی بن جاتا ہے، کوئی اچھا عمل کر کے یا برا مگر تاریخ دان لاکھوں اور کروڑوں میں کوئی کوئی ہوتا ہے۔ سید علی محسن کاظمی نے ایک تاریخ دان ہونے کی حیثیت سے گجرات پولیس اور کرپشن کے خاتمے کے لیے جو بھی اقدامات کیے ہیں وہ ایک نئے پاکستان کی تعمیر کرتے ہوئے اسکی تاریخ کا ایک سنہری باب ضر ور بنیں گے ۔
سید علی محسن کاظمی جو عقاب کی نظر اور بلا کے ذہین ایک ادیب ‘ محقق ‘ اور محکمہ پولیس میں ایک پروفیسر کی شناخت رکھتے ہیں نے اب فیصلہ کیاہے کہ ملزمان کے قبضے سے برآمد ہونے والی تمام اشیا ، نقدی ، زیورات ، اسلحہ ، منشیات ، چھری ، چاقو ، گولیاں اور تمام مال مسروقہ کو سیل بند کر کے اسے پولیس لائن میں جمع کرایا جائے گا۔ پروفیسر سید علی محسن کاظمی نے اس مر کا فیصلہ ان شکایات کی روشنی میں کیا ہے جس میں انہیں علم ہوا تھا کہ بعض نکمے اور راشی تھانیدار اپنے پاس موجود اسلحہ ، منشیات وغیرہ کو کئی کئی بار ملزمان پر ڈال کر چالان کر دیتے ہیں بلکہ مال مسروقہ کی اصلی حالت بھی تبدیل ہو جاتی ہے سونا ، تانبا بن جاتا ہے ، اصلی کرنسی ، جعلی اور اصل منشیات ، مٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے بلاشبہ معاشرے کو پولیس کے اس فرسودہ نظام سے نکالنے کے لیے انکا یہ عمل بھی دورس نتائج کا حامل ہوگا بلکہ ان شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہو سکے گا جس میں ملزمان یا مدعی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پولیس نے منشیات اپنے پاس سے ڈال دی ہے یا برآمد ہونے والا اسلحہ وغیرہ بھی جعلی تھا ۔ گجرات ضلع سے شروع ہونے والی اس تبدیلی کے سوفیصد مثبت نتائج برآمد ہونگے تو جلد ہی پنجاب کے بعد پورے ملک میں ان زریں اور نایاب فیصلوں کو لاگو کر دیا جائے ،ان انقلابی اقدامات کو ہی پولیس میں اصلاحات قرار دیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر سید علی محسن کاظمی اس سے قبل بے گناہ اشتہاری ملزمان کو ایمنسٹی دیکر عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں، پنجاب پولیس کے سربراہان ،حکمران اور گوجرانوالہ ڈویژن کے آر پی او طارق عباس قریشی ، ڈی پی او گجرات کے ان انقلابی اقدامات کی بدولت مبارکبار کے مستحق ہیں ۔
نوٹ:یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔