وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر اظہارِ اعتماد
وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ایک روزہ قیام کے دوران وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے ایک بارپھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اپنی میعاد پوری کریں گے،یعنی جب تک موجودہ صوبائی اسمبلی موجود ہے وہ اس کے قائد ایوان کے طور پر فرائض ادا کرتے رہیں گے۔انتخابات چونکہ(دستور کے مطابق) ہر پانچ سال کے بعد منعقد ہوتے ہیں،اور گزشتہ انتخاب کو ایک سال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ ہوا ہے،اس لیے حکومت(اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار) کے مخالفین کو کم و بیش چار سال صبر سے کام لینا ہو گا۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ نہ تو کسی شاہانہ رہائش گاہ میں رہتے ہیں،نہ ہی ان کی سیکیورٹی پر سالانہ80کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ان کا اصرار تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے پنجاب میں مختلف شعبوں میں جو اصلاحات کی ہیں، وہ اِس سے پہلے کبھی نہیں کی گئیں۔ سیمینار منعقد کرانے چاہئیں اور پنجاب حکومت کی کارکردگی کی تشہیر کی جانی چاہئے۔کابینہ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان سے ایک ملاقات میں وزیراعظم نے صاف طور پر کہا کہ انہیں پتہ ہے کہ اجلاس میں موجود ہر شخص وزیراعلیٰ بننا چاہتا ہے،لیکن وہ وزیراعلیٰ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عثمان بزدار جب سے وزیراعلیٰ بنے ہیں،ان کو اس منصب سے علیحدہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کو پنجاب اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت حاصل نہیں۔اس نے آزاد ارکان اور مسلم لیگ(ق) کو ساتھ ملا کر چند ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بنائی ہے۔اپنی تعداد کے اعتبار سے مسلم لیگ(ن) اسمبلی کے اندر ایک بہت بڑی قوت ہے، اور اگر اس کے ارکان محنت اور تیاری کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کریں تو ہر قدم پر حکومت کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔نواب کالا باغ جب گورنر تھے، اور فیلڈ مارشل ایوب خان صدر، آج کا پورا پاکستان،ایک صوبے مغربی پاکستان میں سمٹا ہوا تھا، اور پنجاب اسمبلی ہی کی عمارت میں مغربی پاکستان اسمبلی کے اجلاس منعقد ہوتے تھے،تو اپوزیشن کے ارکان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ صدارتی نظام میں حکومت نہ تو اسمبلی میں سے بنائی جاتی ہے،نہ ہی وہ اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے، اسے صرف قانون سازی سے غرض ہوتی ہے، حکومت سازی میں اس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اپوزیشن کے چند ارکان کی تقریروں کی گونج آج بھی تاریخ میں سنائی دیتی ہے، اور قانون سازی میں ان کی کنٹری بیوشن کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایک بِل پڑھ کر آتے،اور اس کی ایک ایک شق کا مہارت اور محنت سے جائزہ لیتے تھے۔آج بھی اگر اسمبلیوں کو پُرزور لفظوں اور اندھے جذبات کے اظہار سے نجات مل جائے تو اپوزیشن بہت موثر کردار ادا کر سکتی ہے، اور حکومت کو عوام دوست قوانین بنانے پر مجبور کر سکتی ہے،لیکن سیاسی امور اور اسمبلی کے باہر کی جانے والی انتقامی کارروائیاں اس قدر غالب آ جاتی ہیں کہ اکثر اوقات ایوان میں کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
عثمان بزدار جب سے وزیراعلیٰ بنے ہیں،وزیراعظم عمران خان پوری شدت اور قوت کے ساتھ ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔پی ٹی آئی کے اندر وزارتِ اعلیٰ کے خواہش مندوں کی کمی نہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنے طور پر اپنی جماعت میں اکثریت کی حمایت تو کجا چند درجن ارکان کی تائید بھی حاصل نہیں کر سکتا۔شاہ محمود قریشی وزارتِ اعلیٰ کے ایک مضبوط امیدوار ہو سکتے تھے، لیکن صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی ان کے حصے میں نہیں آ سکی۔ نتیجتاً ان کا کردار مرکز تک محدود ہو گیا۔جہانگیر ترین کا سیاسی اور انتظامی تجربہ ان کی راہ ہموار کر رہا تھا،اکثر سیاسی مبصرین کی رائے میں وہ پنجاب کے موزوں ترین وزیراعلیٰ ہو سکتے تھے،لیکن انہیں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے نااہل کر ڈالا اور یوں نہ صرف پنجاب حکومت کو بلکہ پی ٹی آئی کو بھی ایک سیاسی جماعت کے طور پر بڑا صدمہ اٹھانا پڑا۔وزیراعظم عمران خان کی بات اپنی جماعت میں حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہے، سو جب انہوں نے کسی غیر متنازعہ شخص کی تلاش شروع کی تو نگاہِ انتخاب عثمان بزدار پر ٹھہر گئی۔ وہ پہلی بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے کہ ہما اُن کے سر پر بیٹھ گیا۔ان کی شرافت اور انکساری کا ہر شخص معترف ہے۔ نہ دھڑے بندی پر ان کا یقین ہے،نہ ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔سو وہ وزیراعظم عمران خان ان کے اور وہ وزیراعظم کے وفادار اور مضبوط محافظ ہیں۔ پی ٹی آئی میں ان کے مخالفین کو اب ٹھنڈا پانی پینا پڑے گا کہ ان کو اپنی جگہ سے ہلانا ان کے بس میں نہیں رہا۔
عمران خان نے وزیراعلیٰ کو اپنی کارکردگی کی تشہیر کی جو ”اجازت“ دی ہے، امید ہے وہ اس پر توجہ دیں گے۔انہیں صوبائی اسمبلی میں اپنی حاضری بھی بڑھانی چاہئے، اور یہاں وقفہ سوالات کے جوابات بھی بذاتِ خود دینا چاہئیں۔اپنی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ روابط بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ارکان سے بھی منصفانہ سلوک کو یقینی بنانا چاہئے۔سرکاری اہلکاروں کو تحفظ اور اعتماد دینا چاہئے، ان کے تبادلے کم سے کم ہونے چاہئیں،اس وقت صوبائی اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف (حمزہ شہباز شریف) جیل میں ہیں۔ان کے پروڈکشن آرڈر باقاعدگی سے جاری نہیں ہو پاتے،انہیں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنانے کے معاملہ پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پا رہا۔ وزیراعلیٰ کو اپوزیشن کے ساتھ کھلے دِل سے معاملہ کرنا چاہئے کہ جمہوریت کی گاڑی محض ایک پہیے پرنہیں چل سکتی۔ اپوزیشن کو اس کا پارلیمانی کردار ادا کرنے کے لیے ہر سہولت فراہم کرنا حکومت کے استحکام میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔