" نیب نے اگر کبھی مداخلت کی تو پنجاب حکومت . . ." وزیراعظم اور نئے چیف سیکریٹری نے بیوروکریسی کو کیا پیغام دیا؟ سینئر صحافی نے اندر کی بات بتا دی

" نیب نے اگر کبھی مداخلت کی تو پنجاب حکومت . . ." وزیراعظم اور نئے چیف سیکریٹری ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ویب ڈیسک) بیوروکریسی میں موجود افسرا ن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتارہاہے کہ افسران نیب کی وجہ سے کسی بھی  قسم کے اقدامات سے گریزاں ہیں لیکن اب اطلاعات ہیں کہ نئے چیف سیکریٹری اور وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ  وہ بے خوف و خطر اپنے فرائض منصبی انجام دیں اور نیب کے خوف کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار دیں، نیب نے اگر کبھی مداخلت کی تو پنجاب حکومت افسروں کی پشت پناہی کرے گی ان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

روزنامہ پاکستان میں محسن گورایہ نے لکھا کہ "سول سروسز اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والا ہر افسر جب عہدے کا حلف اٹھاتا ہے تو دل میں کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیتا ہے، مگر جب عملی زندگی میں آتا ہے تو اس کی راہ میں سیکڑوں دیکھی ان دیکھی رکاوٹیں آکھڑی ہوتی ہیں، ایک حد تک نئے افسران مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں مگر پھر چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی والی رو میں بہہ جاتے ہیں۔

بیوروکریسی کسی بھی نظام اور حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے، امور مملکت کو ان سے بہتر کوئی چلا ہی نہیں سکتا، اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر نہ صرف آئین بلکہ محکمانہ قواعد و ضوابط سے بھی آگاہ ہوتے ہیں، قیام پاکستان کے فوری بعد قائداعظمؒ نے بیوروکریسی کو مکمل اختیارات تفویض کئے جس کے نتیجے میں پاکستان نے تیز رفتار ترقی کے ریکارڈ قائم کئے، بعد میں آنے والی فوجی اور سول حکومتوں نے بیورو کریسی کو وہ اہمیت نہ دی جس کی وہ حقدار تھی، فوجی افسر اپنی تربیت کے مطابق ہر کام ڈسپلن اور قانون کے مطابق کرنے میں مگر سویلین افسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے میں مصروف رہے جبکہ سیاستدان آئین سے آگاہ تھے نہ قانون سے واقفیت رکھتے تھے اور نہ ہی ان کو رولز اینڈ ریگولیشن بارے کچھ سدھ بدھ تھی، نتیجے میں ترقی کا پہیہ کبھی رکتا کبھی چلتا رہا، مگر جب چلا تب رفتار نہائت سست رہی اور اسی وجہ سے آج ملک و قوم مختلف قسم کے بحرانوں سے دوچار ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے گڈ گورننس کا خواب دیکھا اور قیام حکومت کے بعد سے اس کی تعبیر کیلئے کوشاں ہیں مگر تاحال اس کی تعبیر حاصل کرنے میں ناکام رہے، وزیر اعظم نے ارکان اسمبلی کو تمام اختیارات دیئے اور کوشش کی کہ عوام کے نمائندے ہی عوامی مسائل حل کریں، مگر سوا سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ارکان اسمبلی کچھ نہ کر سکے اور اس کی بنیادی وجہ قوانین سے عدم واقفیت ہے، اب وزیر اعظم نے بیورو کریسی کے کندھوں پر بوجھ ڈالتے ہوئے افسروں کو فری ہینڈ دے دیا ہے، یہ بھی کہا کہ بیوروکریسی بے خوف اور نڈر ہو کر اپنے فرائض انجام دے ارکان اسمبلی اور وزراء کے بھی غیر ضروری اور غیر قانونی احکامات کی تعمیل نہ کرے، ان کو ہر لحاظ سے تحفظ دیا جائے گا، مسائل کا حل یقینی بنانے، تبدیلی لانے اور عوام کی آنکھوں میں سموئے خوابوں کو تعبیر دینے کیلئے پنجاب کی بیوروکریسی اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تبادلوں کا سونامی اٹھایا گیا۔

میجر (ر)اعظم سلیمان خان کو پنجاب میں چیف سیکرٹری کی ذمہ داری سونپی گئی اور کچھ کر گزرنے کا مینڈیٹ بھی دیا گیا، تحریک انصاف حکومت کے سوا سال میں تبادلوں کے جھکڑ چلتے رہے مگر پہلی مرتبہ حالات، مشکلات، وسائل اور مسائل کے پیش نظر درست اور موزوں تعیناتیاں کی گئی ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اب نتائج بھی ضرور ملیں گے۔

میجر (ر) اعظم سلیمان خان آرمی کے تربیت یافتہ ہیں ان کے مزاج میں نظم و ضبط کا بہت عمل دخل ہے، سول سروس ٹریننگ کے دوران قواعد و ضوابط سے بھی آگاہی حاصل کی، طویل عرصہ بیوروکریسی میں گزارا متعدد محکموں کی سربراہی کا بھی تجربہ ان کو حاصل ہے، جس کی وجہ سے صوبہ اور اس کے عوام کی بہتر خدمت کرنا ان کیلئے کوئی مشکل کام نہ ہو گا۔ موجودہ دور میں بیورو کریسی کیلئے سب سے بڑا پل صراط نیب ہے، ہر افسر کو نیب کی تلوار اپنے سر پر لٹکتی دکھائی دیتی ہے خواہ وہ کسی جرم میں شریک رہا ہو یا نہ رہا ہو،ہر افسر کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے کہ کہیں نیب کے شکنجے میں نہ آجائے، لہٰذا کوئی کچھ کرنے اور ذمہ داری سر لینے کو تیار ہی نہیں تھا، اسی وجہ سے نظام حکومت چلتا دکھائی نہیں دے رہا۔

اب وزیر اعظم اور نئے چیف سیکرٹری نے افسروں کو یقین دلایا ہے کہ وہ بے خوف و خطر اپنے فرائض منصبی انجام دیں اور نیب کے خوف کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار دیں، نیب نے اگر کبھی مداخلت کی تو پنجاب حکومت افسروں کی پشت پناہی کرے گی ان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔ یہ باتیں اپنی جگہ مگر اس کیلئے ہونے والی قانون سازی جلد کی جائے ورنہ حالات نہیں بدلیں گے۔ اگر یہ قانون سازی جلد کر لی جاتی ہے تو گمان نہیں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بیورو کریسی بے خوف ہو کر تندہی، لگن سے حکومتی منشور کے مطابق تبدیلی کے خواب کو عملی تعبیر دینے کیلئے کوشاں ہو گی۔

وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھی کام کام اور بس کام کی ایک بار پھر ہدایت کی ہے جس پر انہیں بھی اب سوچنا ہو گا، یہ ایک بہت اچھی روایت ہے کہ وزیر اعلیٰ کو ذمہ داری دیکر وقت دیا جا رہا ہے کہ وہ ڈیلیور کر سکیں مگر ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، اسی طرح اگر بیوروکریسی کو بھی وقت دیا جائے ان پر اعتماد کیا جائے اور ان کو ہر قسم کے دباو اور خوف سے آزاد کر دیا جائے خاص طور پر نیب کی لٹکتی دیوار کو ان کے سروں سے ہٹادیا جائے تو بیوروکریسی مختصر وقت میں بہترین نتائج دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہے اور ایک ایسی بیوروکریسی جس کی سربراہی میجر (ر) اعظم سلیمان خان جیسے با اصول، تجربہ کار،کہنہ مشق اور انتھک افسر کے پاس ہو اسے ڈیلیور کرنے میں شائد ہی کوئی امر مانع ہو کہ اعظم سلیمان اپنے ماتحتوں کی راہ میں آنے والی مشکلات کو دور کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے، اور کسی قسم کی مداخلت بھی ان کو پسند نہیں، اس لئے ان کی سر براہی میں افسر بہت سہولت سے اپنے فرائض کی انجام دہی کر سکتے ہیں۔

سیاسی اور جمہوری حکومت کا کام پالیسی سازی ہے اور پارلیمنٹ کا کام قانون سازی،کام اس وقت خراب ہوتا ہے جب یہ دونوں ادارے اپنے فرائض کو پس پشت ڈال کر انتظامی امور میں مداخلت شروع کر دیتے ہیں جبکہ انتظامی امور کو چلانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے،انتظامیہ اگر ارکان اسمبلی اور وزراء کی ماتحت یا چاکر بنا دی جائے تو معاملات کسی بھی طور پر درست طریقے سے نہیں چلائے جا سکتے،لہٰذا اگر نتائج لینا ہیں اور بیوروکریسی سے کچھ خدمت لینا ہے تو ان کو فری ہینڈ دینا ہو گا، جس کا احساس اب وزیر اعظم کو ہو گیا ہے

اور اب امید نہیں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اعظم سلیمان خان کی سر براہی میں بیوروکریسی نتائج دیگی ،بیورو کریسی ملک کی کریم ہے اس میں اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی اعلٰی سطح پر تربیت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جو قوانین کے ساتھ قواعد سے بھی آگاہ ہوتے ہیں ان پر اعتماد نہ کر کے ما ضی قریب میں جو غلطی کی گئی اس کا اعادہ کرنے کی بجائے مداوا کیا جائے، بیوروکریسی کو فری ہینڈ کے ساتھ اعتماد اور تحفط بھی دیا جائے تو خوابوں کی تعبیر جلد حاصل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی"۔