محمد فاروق قریشی
محمد فاروق قریشی اگست 1929ء میں غیر منقسم پنجاب کے مردم خیز شہر امرتسر میں پیدا ہوئے اپنی نوجوانی کے دور میں حریت اور آزادی کی تحریکوں سے وابستہ ہوئے۔ امرتسر میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی مسجد میں روزانہ صبح فجر کے بعد درس میں ضرور شریک ہوتے رہے۔ دینی گھرانہ ہونے کی وجہ سے دینی اور دنیاوی تعلیم امرتسر میں ہی حاصل کی۔ تقسیم ملک کے بعد خاندان کے ہمراہ پاکستان اٹھ آئے اور لاہور گوالمنڈی میں مقیم ہوئے۔ پاکستان میں حزب اختلاف کی داغ بیل پڑی لاہور میں عوامی لیگ کا قیام عمل میں آیا تو اس کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ تحدید ملکیت زمین کے مسئلہ پر اختلاف رونما ہوئے تو علیحدگی اختیار کر لی۔ آزاد پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے پاکستان نیشنل پارٹی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی بنانے کے لئے ڈھاکہ جانے والے وفد میں شامل تھے۔
حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے وقت خان عبدالولی خان اور متحدہ جمہوری محاذ کے لیڈروں کے ہمراہ پنجاب کے دورہ میں اوکاڑہ سے تمام قومی لیڈروں، ولی خان کے ساتھ گرفتار ہو گئے۔ پی ڈی ممبر بھی منتخب ہوئے اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایوبی آمریت کو للکارا۔
مسٹر بھٹو نے نیپ پر پابندی لگائی اور سپریم کورٹ نے حکومت کے فیصلہ کو جائز قرار دیا تو سردار شیر باز مزاری سے اور بیگم نسیم ولی خان سے مل کر نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔ جمہوریت کے اجراء شہریوں کی آزادی کی بحالی بنیادی حقوق کی بازیابی اور معاشرتی عدل و انصاف کے لئے متعدد بار پس دیوار زنداں جا چکے۔
فاروق قریشی ایک بہت ہی صاحب مطالعہ سیاسی ماہر اور صاحب نظر انسان تھے اجلاسوں میں اپنی رائے بہت موثر اور مستحکم انداز میں دیتے تھے خاص بحث کے دوران بھی ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور لہجے کی شائستگی کبھی ماند نہیں پڑتی تھی۔ اختلاف کے دوران مزاج کی استقامت قائم رکھنے والے لوگ آج کل کم ہی نظر آتے ہیں۔ پارٹی کے اجلاسوں کے دوران سچ کہنے اور اس کی سزا جھیلنے کا موقع آتا تو نہ صرف کھل کر اپنا مافی الضمیر بیان کرتے بلکہ کسی قسم کے سیاسی نشان، عہدے کی معطلی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔بھٹو دور میں بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی صعوبتیں برداشت کیں۔
دوران قید ساہیوال جیل میں ہارٹ اٹیک ہوا تو اس وقت کے فوجی گورنر جنرل غلام جیلانی خان نے ان کی فیملی سے یعنی ان کی صاحبزادی صباح سہیل ملک سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ ہمیں ایک رحم کی درخواست لکھ کر دے دیں ہم انہیں رہا کر دیں گے۔ لیکن مرد مجاہد کی بیٹی نے رحم کی درخواست لکھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں فاروق قریشی کی بیٹی ہوں اور رہائی کی بھیک نہیں مانگ سکتی۔ ان کی اولاد بھی صرف ایک بیٹی ہے اور اس وقت لندن میں مقیم ہیں۔ اسی دوران ساہیوال جیل میں صدر پاکستان (سابق) سردار محمد فاروق لغاری بھی قید تھے اور وہ بھی ان کی جیل میں بہادری سے کاٹنے پر انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ میں شرکت کے لئے ڈپٹی کمشنر لاہور کے ذریعے ان سے رابطہ کیا بلکہ خواجہ صفدر نے بذات خود مجلس شوریٰ میں شمولیت کے لئے رابطے کئے لیکن انہوں نے شمولیت سے انکار کر دیا۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ساتھ بہت دوستی تھی اکثر اتوار کی صبح ناشتہ پر علامہ احسان الٰہی ظہیر، عارف نظامی اور سید انور قدوائی مرحوم کشمیریوں کی مشہور ڈش ہریسہ پر فاروق قریشی کے گھر گوالمنڈی ناشتہ کرنے تشریف لاتے تھے۔ روزانہ نواب زادہ نصر اللہ خاں کے ڈیرہ نواب پر سیاسی محفل میں شامل ہو تے تھے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے میری موجودگی میں انہیں جمعیت اہلحدیث میں شامل کرنے پر اصرار کیا اور داڑھی رکھنے کا کہتے رہے۔ لیکن اس کے لئے راضی نہ ہوئے۔
ریگل چوک ہال روڈ پر ان کا قالینوں کا شوروم تھا یہ جگہ لاہور کے سیاسی لوگوں سے رونق افروز رہتی تھی تمام سیاسی راہنما، کارکن، صحافی باقاعدہ تشریف لاتے تھے اور سیاسی بیٹھک بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا ان کی اس بیٹھک میں پارٹی کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔
خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی، میاں طفیل محمد، مجید نظامی مرحوم، مجیب الرحمن شامی، رانا نذر الرحمن، علامہ احسان الٰہی ظہیر، سردار شیر باز مزاری، بارک اللہ خان، جاوید ہاشمی، ملک معراج خالد، جہانگیر بدر اور بہت سے سیاسی راہنما، مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی آمدو رفت جاری رہتی تھی۔
کئی کتابوں کے مصنف تھے اخبارات میں آرٹیکل لکھتے تھے۔
رب العزت انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین)