جن سے امید تھی وہ دست و گریبان ہیں
اخبارات کی جلی سرخیاں سیاستدانوں کی باہمی کشمکش اور غیرمحتاط بیانوں سے بھرپور ہوتی ہیں۔غریب کے ٹھنڈے چولہوں پر اب ٹھنڈی آہیں بھر کر نوحہ لکھنے والے شاعر موجود نہیں ہیں۔ سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی میں نقصان ہر صورت عوام کا ہی ہے۔ آج کل کورونا وائرس کی دوسری لہر کی ہیبت بڑھتی جا رہی ہے۔ روزانہ سینکڑوں مریض سامنے آ رہے ہیں، لیکن سیاستدانوں کی دھینگا مشتی روز دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہیں عوام کے درد کا کوئی ادراک نہیں۔ ملتان میں حالیہ واقعات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت اپوزیشن پر کھل کر تنقیدی نشتر چلا رہی ہے کہ وہ عوام کی خاطر جلسے جلوس نہ کریں اور پی ڈی ایم کو روکنے کے لئے پولیس کا بھرپور استعمال بھی کیا گیا،لیکن اپوزیشن اپنی ضد پر ڈٹی رہی۔پولیس کی جانب سے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کے علاوہ مقدمات بھی درج کئے گئے۔ حکومت نے انہیں روکنے کے لئے ہر اقدام کیا۔ کینٹینرز اور رکاوٹیں لگا کر راستے بھی بند کئے گئے، لیکن پی ڈی ایم پھر بھی اپنا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابات ہوں تو ہر امیدوار کروڑوں روپے لگا کر جیت کے لئے تگ و دو کرتا ہے، ہر کسی کی خوش آمد کرتا ہے، عوام کے دروازوں پرجاتے ہیں، لیکن الیکشن جیتنے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں۔ پھر انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ملک میں مہنگائی ہو یا عوامی مسائل، انہیں تو صرف اپنے لگائے ہوئے پیسے پورے کرنے کی فکر ستا رہی ہوتی ہے۔ عوام کورونا وائرس سے مریں یا مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
الغرض کہ پاکستان کے سیاستدان آپس میں دست و گریبان ہیں اقتدار کے حصول کی دوڑ میں تمام اخلاقی اقدار کو پامال کر رہے ہیں، الزام تراشی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، ایسے میں اسلام دشمن اور ملک دشمن طاقتوں اور قوتوں کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔سیاستدان آپس میں دست و گریبان ہونے کی بجائے، پاکستان بچائیں۔ سیاست کی تسبیح کے بکھرے موتی متحد ہو جائیں۔ ورنہ اسلام دشمن گدھیں ہمیں چُن چُن کر نگل جائیں گی۔ کسی کی دل آزاری کرکے الیکشن جیتنا کوئی کمال نہیں ہوتا،بلکہ انتخابی مہم کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں معاہدوں کو پورا کرنا اصل فن ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انداز اس کے عوام کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ اگر عوام خوشحال ہوں گے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، لیکن اگر عوام کو ہر وقت روٹی کے لالے پڑے رہیں گے تو وہ اپنی صلاحیتیں دبا کر اپنی روزی پوری کرنے کے چکر میں رہیں گے۔ روزگار کی خاطر وہ ذہنی دباؤ میں مبتلا رہیں گے، اس صورت میں وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیسے کر سکیں گے؟ اسی سوچ اور پریشانی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، پھر انہیں روزی کی تلاش کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے لڑنے اور علاج معالجے کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں شعبہ صحت کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں، اگر سرکاری ہسپتال جائیں تو جان نہیں بچتی اور غلطی سے پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرلیا جائے تو جیب نہیں بچتی۔ اس ساری صورتحال میں عوام جائیں تو کہاں جائیں؟
الیکشن لڑنے کا مطلب ہے، لڑنا، تو پھر سیاست دان آپس میں لڑنے کے بجائے، فرسودہ نظام کے خلاف لڑیں۔ دہشت گرد دہشتگردی سے باز نہیں آتے، تو ہم امن کی آشا کیوں چھوڑ دیں۔ پاکستان وہ مضبوط قلعہ ہے، جہاں ہر مکتب فکر اور محب وطن نے اپنے آشیانے بنا رکھے ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے آشیانوں کو دہشت گردوں سے بچانے کے لئے ہمیں چھوٹے چھوٹے اختلافات ختم کرنے ہوں گے۔یہ وقت ضد بازی ایک دوسرے کے مقابلے یا انا پرستی کا نہیں، بلکہ کندھے سے کندھا ملا کر ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔ عوام کو موذی وائرس سے بچانے کا وقت ہے۔ انہیں مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے اور اس سب کے لئے سیاستدانوں کو دست و گریباں اور دھینگا مشتی کے بجائے عوامی مسائل پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاست کے ایوانوں میں بیٹھنے والے آپس میں دست و گریبان ہونے کے لئے تیار ہیں مگر کرپشن،مہنگائی اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں، آپس میں لڑنے کی بجائے جہالت اور غربت سے لڑائی کریں،73برسوں بعد بھی پاکستان ویسا نہیں بن سکا جس فلسفے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہمت کر کے پاکستان کو ایٹمی طاقت تو بنا دیا،لیکن یہ ایٹمی پاکستان بدقسمتی سے ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ابھی تک گامزن نہیں ہو سکا۔ہمارا دوست ملک چین جو ہم سے 2سال بعد آزاد ہوا وہ کس قدر ترقی،خوشحالی کے راستے پر گامزن ہے اور ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ملک کو اب تک محب وطن اور مخلص لیڈرشپ نصیب نہیں ہوئی ہے اور اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ہمیں ضرور سوچناچاہیے اور غور کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے۔ہم جن سیاست دانوں سے امید لگا کر حکومت لے کر آتے ہیں وہ دست وگریبان ہو جاتے ہیں وہ ملک و قوم کی بہتری کا سوچنے کے بجائے اپنی کرسی کے چکر میں رہتے ہیں۔ یہ ہم پر عذاب نہیں تو اور کیا ہے۔