خود فریبی سے بچیں!
ہم کتنے بھولے ہیں آنکھ بند کر لینے سے سمجھتے ہیں ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا اسے ہم خود فریبی کا نام بھی دے سکتے ہیں اور خود فریبیوں کا سلسلہ کتنا ہی دراز کیوں نہ ہوجائے حقائق سے تو فرار حاصل نہیں کیا جاسکتا اور حقیقتیں خود فریبیوں سے شکست نہیں کھاتیں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا بھر میں سب سے زیادہ چاہے جاتے آدمی ہیں حالانکہ بعض اوقات ہمیں اپنے ہی حلقہ احباب سے چاہتوں کی کمی کا سامنا رہتا ہے چاہے جانے کے لئے سراہا جانا ضروری ہوتا ہے اور سراہے جانے کے لئے لازم ہے کہ ہم میں وہ خصوصیات پائی جاتی ہوں کہ جنہیں لوگ سراہیں اور پھر ہمیں یہ زعم بھی ہوتا کہ ہم دنیا کے سب سے زیادہ سمجھدار آدمی ہیں حالانکہ لوگ ہمیں کچھ اور ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں اور یہ کہاں کی سمجھداری ہے کہ ہم اپنے تئیں بڑے ذہین بنے بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ ہماری بے وقوفیوں کے چرچے بھی عام ہوتے ہیں سمجھ کا تعلق تو بصیرت اور دانش سے ہوتا ہے اگر ہم اپنی دانش و بصیرت سے کام لیں تو دنیا ہماری ذہانت اور سمجھداریوں کی معترف ضرور ہوتی ہے ہمارا یہ بھی ماننا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہی درست ہے اور باقی سب غلط ہے حالانکہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر درست ہوتے ہیں درست کہتے اور درست کرتے ہیں اور تب تک درست نہیں گردانے جاتے جب تک معاشرے کی اکثریت ہمیں درست نہ کہہ دے ہم اپنی طبیعت کی کسی کیفیت میں ڈھلتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کیفیت منفی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ مثبت لمحوں کا حاصل،
بس اس میں ڈھلتے جاتے ہیں اور پھر اس کیفیت کے غلام ہو کررہ جاتے ہیں اور پھر اس غلامی میں ہمارے اصول ہماری وضع داری بھی مغلوب ہو کررہ جاتی ہے کسی کی آنکھ کاتار ا بننے کے لئے لازم ہے کہ ہم اسکی زندگی میں چمکتے دمکتے ہوں ایسا نہیں کہ ہم دوسروں کی آنکھ میں کھٹکتے ہوں اور اسی کے منظورِ نظر بھی ہوں محبت میں کوئی فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ہوتیں کہ سر دھننا پڑے محبت کی بات تو سیدھی ہے کہ آپ احترام آدمیت کے جذبے کی پرورش کریں اور یہی راستہ سیدھا راستہ ہے جس پر چل کر عزتوں کی رفعتوں پر فائز ہوا جاتا ہے دوسری تمام راہیں تو ناکامیوں اور گمنامیوں کی طرف جاتی ہیں لیکن ہم اس کا ادراک نہیں کرتے جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن صاحب کوجب اچانک گرفتار کر لیا گیا تو مجھے تعجب ہوا کہ یہ تو اپنی ہی نیک نامی کے دشمن ہوئے جاتے ہیں کہ آپ بلاوجہ جب کسی نفیس اور شفیق شخصیت کے اجلے دامن کو میلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کے ظرف کا تعین تو ہوجاتا ہے خیر یہ تو ہمیشہ سے ہردور میں ہوا ہے ۔
مولانا ظفر علی خان کو صحافت کی دنیا میں ایک اجلی صبح کے لیے ظلمتوں کے مہیب اندھیروں سے گزرنا پڑا لیکن حالات کی کوئی تاریکی انکے عزم پر جبر کا سایہ نہ کر سکی انکے حوصلوں کی دھوپ ہمیشہ روشن رہی اور آپ صحافت کے میدان میں پورے طمطراق سے کھڑے رہے۔
حسرت موہانی کی شاعری کو کلمہ بغاوت سمجھا گیا جسکی پاداش میں انہیں پابند سلاسل کردیا گیا عقوبت خانوں میں رکھا گیا سزاؤں کے تلخ لمحوں سے گذارا گیا لیکن جتنی بار بھی انہیں پس زنداں رکھا گیا اتنے ہی دیوان انہوں نے دئیے کاروبار ختم، رسالہ بند ہوا لیکن سچائی کا باب نہ بند کیا۔
ایسے ہی کئی رہنمااستحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کرتے رہے جنہوں نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی بات کی ظلم اور ناانصافی کا ذکر کیا تو ان کے راستوں کی دشواریاں بڑھادی گئیں لیکن وہ کسی مشکل سے خائف ہوئے بغیر اپنے نظریات کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں اگر چہ ان راستوں پہ چلتے انکے پاؤں بھی زخمی ہوئے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہ انکا نظریاتی سفر رک گیا ہو یا انہوں نے راستے بدل لئے ہوں۔
ایسے ہی میر شکیل الرحمان صاحب ہیں جنہیں ناحق قید تنہائی میں رکھا گیا ہے تو کیا ہوا؟ ایک ضدی شخص کی انانیت نے تو طمانیت پھر بھی نہیں پائی وہ تو آج بھی اپنی سیماب طبیعت لئے بے قرار ہے اور میر شکیل الرحمان صاحب اپنے اطمینان کی دولت لئے خیر سے سکھ چین سے ہیں جدائیوں کے دن اور تنہائیوں کی سیاہ راتوں کے باوصف انکی زندگی میں محبتوں کا سویرا ہے عزتوں کا نور ہے جناب میر شکیل الرحمن کو جب اسیر کرلیا گیا تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے صحافی گہرے اضطراب میں مبتلا ہوئے میر شکیل الرحمن صاحب کا قد تو اور بلند ہوا ہے انکے لفظوں کی آبرو تو سلامت ہے انکی بے گناہی کی آوازیں تو عدو کے جلو سے بھی آتی رہی ہیں لیکن میں سوچتا ہوں ایک ضدی شخص کو کیا ملا ہے اس نے آخر پایا ہی کیا ہے۔