ملتان کا سنسنی خیز ڈرامہ، کیا حکومت سبق سیکھے گی؟
ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ کامیاب تھا یا ناکام یہ سوال بے معنی ہو چکا ہے کیونکہ حکومت کی بے تدبیری کے باعث یہ جلسہ چار دن تک پورے ملک کے اعصاب پر سوار رہا اور یہی اپوزیشن کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ اس جلسے کو روکنے کے لئے حکومت نے جو حکمتِ عملی اپنائی وہ خود اس کے گلے پڑ گئی۔ 30 نومبر کو شام تین بجے جلسے کی رکاوٹیں ختم کرنے کا حکم دے کر غالباً پنجاب حکومت نے یہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کی کہ اتنے کم وقت میں اپوزیشن قلعہ کہنہ قاسم باغ کے اندر اسٹیج، لائٹنگ اور ساؤنڈ سسٹم کا انتظام نہیں کر سکے گی اور جلسہ عملاً ناکام ہو جائے گا۔ مگر اس سے حکومت کا وہ بیانیہ تو چاروں شانے چت ہو گیا کہ کورونا کی وجہ سے ملتان میں جلسے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میں انہی کالموں میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اس جلسے کو روکنے کی صورت میں جگہ جگہ لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جائے گا، جو کورونا کے پھیلاؤ میں زیادہ معاون ثابت ہوگا۔ اسٹیڈیم میں جلسہ کرنے دیا جاتا تو دو چار گھنٹے میں شو ختم ہو جانا تھا اور کسی نے اس جلسے کو انقلاب کی نوید بھی قرار نہیں دینا تھا۔ آج پی ڈی ایم ملتان کے کئی رہنما علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ اس جلسے کو حکومت کے خلاف ایک بڑا شو بنانے میں مقامی انتظامیہ ا ور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سازشیں کرنے والوں نے اہم کردار ادا کیا۔ عام حالات میں عام طریقے سے یہ جلسہ ہوتا تو بات آئی گئی ہو جانی تھی، مگر کئی دن کی اعصاب شکن لڑائی، پرچے اور گرفتاریاں اس جلسے کو حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ بنا گئیں، یہ تاثر عام ہوا کہ حکومت پی ڈی ایم کے جلسوں سے خوفزدہ ہے اور گھبراہٹ کے عالم میں ایسے اقدامات کر رہی ہے، جو کسی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتے۔
میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ جلسہ اگر اسٹیڈیم کی بجائے گھنٹہ گھر چوک پر ہوا تو یوں لگے گا جیسے پورا شہر اُمنڈ آیا ہو، کیونکہ ایک کم گنجائش والی جگہ پر ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہی نظر آتا ہے۔ دوسری طرف اگر یہ جلسہ قاسم باغ اسٹیڈیم میں آزادانہ ہونے دیا جاتا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے بھرنے کے لئے پی ڈی ایم کو جان کے لالے پڑ جاتے۔ اپنے مخالفین میں جوش و خروش تو خود حکومتی اقدامات نے پیدا کیا۔ اسٹیڈیم کو تالے لگوائے گئے، پانی چھوڑا گیا، کارکنوں نے تالے توڑ کر اسٹیڈیم پر قبضہ کیا تو رات گئے پولیس آپریشن ہوا، دوبارہ تالے لگے، کنٹینرز آئے، حکومتی ترجمانوں نے سخت ایکشن کی نوید سنائی رٹ آف گورنمنٹ کے تذکرے کئے، جن سے پی ڈی ایم کو ایک ڈرامائی کامیابی ملنے کے امکانات پیدا ہو گئے۔ رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن نے ملتان آکر پوری کر دی اور یہ بیان داغ دیا کہ کارکنوں کو اگر روکا جاتا ہے تو وہ ہر رکاوٹ توڑ کر جلسہ گاہ پہنچیں ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں تو انہیں بھی لاٹھیاں اٹھانے کا اختیار ہے۔ ایسا بیان کوئی سیاسی رہنما عام حالات میں نہیں دے سکتا لیکن اس وقت صورتحال ایسی تھی کہ یہ بیان بھی ایک خطرے کی گھنٹی بجا گیا اور یہ خدشہ پیدا ہوا کہ دونوں طرف سے ہوشمندی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو خاصا خون خرابہ ہو سکتا ہے، بڑا اچھا کیا کہ پنجاب حکومت نے ایسے حالات پیدا ہونے سے پہلے پسپائی اختیار کی اور جلسہ کرنے کی اجازت دیدی، وگرنہ جب تین اطراف سے مولانا فضل الرحمن، آصفہ بھٹو زرداری اور مریم نواز کی ریلیاں گھنٹہ گھر کا رخ کرتیں اور پولیس انہیں روکتی تو ایک بڑا تصادم ہو سکتا تھا جو شاید حکومت کے تابوت میں واقعی آخری کیل ثابت ہوتا۔
آخر وقت پر حکومت کی یہ پسپائی مستقبل میں اس کے لئے مشکلات پیدا کرے گی 13 دسمبر کو پی ڈی ایم لاہور میں جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ ظاہر ہے اگر حکومت نے پھر یہی حماقتیں کیں جلسے کو روکنے کے لئے یہی ہتھکنڈے اختیار کئے، مشیران کرام نے اسی طرح برانگیخت کرنے والے بیانات دیئے، تو لاہور جلسے سے پہلے ہی ایک سنسنی خیز ڈرامہ شروع ہو جائے گا۔ پھر حکومت اسی طرح آخری لمحات میں اپنا فیصلہ بدلے گی اور اس کی رٹ ایک مذاق بن جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے جلسے میں کہا کہ عمران خان کو سمجھ آ جانا چاہئے کہ اس کی رٹ اب ختم ہو چکی ہے۔ وہ ملتان میں جلسہ نہیں کرنے دینا چاہتا تھا، مگر ہم نے جلسہ کیا اور ثابت کر دیا کہ حکم اس کا نہیں ہمارا چلتا ہے۔ حکومت کے ترجمان اور مشیران کرام اب یہ دور کی کوڑی لائیں گے کہ ملتان کا جلسہ ناکام ہو گیا، عوام نے اپوزیشن ٹولے کو مسترد کر دیا، پی ڈی ایم کو منہ کی کھانی پڑی وغیرہ وغیرہ حالانکہ یہ سب باتیں اب بے وقت کی راگنی ہیں، اصل بات یہ ہے کہ حکومت جلسہ نہیں رکوا سکی، ناکام ہو گئی بے بس ہو گئی، پھر ایسا کام کیا ہی کیوں جس میں ناکامی صاف نظر آ رہی تھی۔ ایک جلسہ رکوانے کے لئے اتنا بڑا ہیجان برپا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ملتان جانے والے راستوں، موٹر ویز اور دیگر شاہراہوں پر ناکے لگا کر کتنے نفلوں کا ثواب ملا، وہ کون تھا جس نے اس سارے ڈرامے کا سکرپٹ لکھا اور حکومت اس پر بلا سوچے سمجھے، بے چون و چرا عمل کرتی چلی گئی اور بالآخر ایک ہزیمت سے دو چار ہوئی۔
پی ڈی ایم نے ملتان جلسے کے لئے اپنے سارے پتے بڑی مہارت سے استعمال کئے جب یہ علم ہو گیا کہ حکومت ملتان جلسہ روکنا چاہتی ہے تو گویا پی ڈی ایم کی لاٹری نکل آئی۔ تحریکیں اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں جب حکومت انہیں روکنے کے لئے تدبر سے عاری فیصلے کرتی ہے حالات کے پیش نظر نوازشریف نے مریم نواز کو ہر قیمت پر ملتان پہنچنے کی ہدایت دی اور دوسری طرف آصف زرداری نے آصفہ بھٹو زرداری کو پہلی بار ایک سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا یہ دونوں باتیں گویا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو جگانے کے لئے کافی تھیں، سونے پر سہاگہ حکومت کے اقدامات تھے جو مردے میں جان ڈال رہے تھے۔ سو ان سب نے مل کر ایک ایسا ماحول بنا دیا جس میں حکومت تنہا رہ گئی۔ اس نے ہزاروں پولیس اہلکار جلسے کو روکنے کے لئے تعینات کئے مگر تدبیر کار یہ بھول گئے کہ اتنی بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو اگر ایکشن کا حکم دیا گیا تو اس کی واپسی تک نجانے کیا کچھ ہو چکا ہوگا۔ ایک بار تو مجھے یوں لگ رہا تھا کہ کہیں ملتان کی یہ صورتحال ”میرے عزیز ہموطنو“ کی آواز کا باعث نہ بن جائے۔ شکر ہے کہ ایسی نوبت نہیں آئی اور حکومت کو آخر وقت پر ہی سہی ہوش آ گیا۔ حکومت ملتان میں چار روز تک جاری رہنے والے سنسنی خیز ڈرامے سے سبق سیکھتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ لاہور جلسے سے پہلے اٹھائے گئے اقدامات دیکھ کر کیا جا سکے گا۔ اگر وہاں بھی بے تدبیر مشیران ایسی ہی سنسنی خیز صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب رہے تو پھر پی ڈی ایم کا اسلام آباد کی طرف مارچ اس کے لئے دردِ سر بن جائے گا۔