سب اچھا۔۔۔ مگر کہاں۔۔۔؟؟؟
تحریر: محمد بلال
ویسے پاکستانی قوم نے بھی کیا قسمت پائی ہے، ایسے حکمران پاکستانی قوم کا مقدر بنے ہیں جو صرف دعوؤں اور وعدوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن عملی کام نام کو نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے اڑھائی برس بیت چکے ہیں، ان اڑھائی برسوں میں عوام کے لیے مشکلات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ روزبروز بڑھتی مہنگائی نے عوام کو جینا دو بھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف حکمران سب اچھا کا راگ الاپتے تھکتے نہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں مہنگائی نہیں صرف عوام کو مافیا مہنگائی کے نام سے ڈراتا ہے حقیقت میں ’’سب اچھا‘‘ ہے۔ اب اقتدار کی راہداریوں میں مزے کرتے حکمرانوں کوکون سمجھائے کہ مہنگائی نے عام آدمی کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ جب خان صاحب نے عنان اقتدار سنبھالا تو کہا گیا ایک کروڑ نوکریاں اور پچا س لاکھ گھر دیں گے۔ اڑھائی برس میں تاحال نہ تو گھر بن سکے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ہاں البتہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر گھر بھی بن رہے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا الٹا لاکھوں بیروزگار ہو گئے۔ گزشتہ دنوں ہی سٹیل ملز کے 28ہزار ملازمین کو برطرفی کا پروانہ تھمایا گیا ہے۔ اس کےعلاوہ اس سے قبل پی ٹی ڈی سی کا محکمہ ختم کر کے سیکڑوں افراد کو بیروزگار کردیا گیا۔ اب اڑھائی سال گزرنے کے بعد کارکردگی صفر بٹا صفر تو صاف ظاہر ہے، خان صاحب نے ایک بار پھر عوام کو صبر کا لالی پاپ دیتے ہوئے قوم سے ایک ’’اچھا مذاق‘‘ کیا ہے۔ کہتے ہیں اپنے دور حکومت میں ایک کروڑ سے زائد نوکریاں اور پچاس لاکھ سےزائد گھر دیں گے، جب اڑھائی سال میں وعدوں کا پچاس فیصد بھی مکمل نہ ہو سکا تو اب اڑھائی سال میں پہلے وعدے سے بھی بڑا وعدہ کر رہے ہیں۔ حکومتی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ 2018 میں مہنگائی کی شرح 3.93فیصد تھی اب ایماندار حکومت کی ’’انتھک محنت ‘‘ کے بعد مہنگائی کی شرح11.12فیصد ہو چکی ہے۔ اور اب ایک بار پھر دوبارہ پٹرول بم بھی عوام پر گرانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ جس سے مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ویسے موجودہ حکومت کی یہ بھی ایک عجیب منطق ہے عوام کو ایک ماہ روپیہ دو روپے پٹرول قیمت کم کر کے خوش کر دیا جاتا ہے اور پھر اگلے ماہ ڈبل قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی کوئی خاطر خواہ نہیں۔ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں تو حکومت ہر شعبے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو مزید انتظار کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ ان ساری ناکامیوں کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ حکومت کی ساری توجہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی طرف ہے ۔ وزرا اپنی وزارتوں پر توجہ کی بجائے ہر روز ایک دبنگ قسم کی پریس کانفرنس کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور بنی گالہ کے مکیں بھی اس صورتحال سے مطمئن ہی دکھائی دیتےہیں، اور وزرا کو اپوزیشن کے خلاف مزید سخت رویے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ چونکہ ان کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے یہی تو وجہ ہے بنی گالہ کے مکیں یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے مہنگائی کا صرف واویلا کیا جاتا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اگر حکومت اپوزیشن کی دبانے کے بجائے عوامی مسائل پر توجہ دے تو حالات میں کافی بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر کابینہ اور خان صاحب شاید یہی سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کو دبا کر رکھنا ہے ہی کارکردگی ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ اپوزیشن کو خود پر سوار کرنے کے بجائے شہریوں کے مسائل کو حل کرنا کارکردگی ہے۔ حکومت کے پاس محض دو اڑھائی سال باقی ہیں۔ اس مقررہ وقت میں کارکردگی دکھا دی تو ہی مستقبل میں عوام کا اعتماد حاصل ہو سکے گا۔ رہی بات اپوزیشن کے مقدمات کی تو عدالتیں موجود ہیں۔ مقدمات وہیں نمٹائے جائیں گے۔ ہر روز ٹی وی سکرینوں پر آکر اپوزیشن کو لتاڑنا عوام کی خدمت نہیں۔
پس تحریر: ملک عزیز میں کرونا وبا زوروں پر ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد اس خطرناک وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ اپوزیشن اس وقت حکومت مخالف جلسوں میں مصروف ہے۔ حالات کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ فی الفور جلسوں کو کچھ وقت کے لیے اپوزیشن منسوخ کردے۔ تاکہ کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.