ملتان، بھکاریوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ، وارداتیں
ملتان (خصو صی ر پو رٹر) قانون کی پاسداری نہ ہونے کے باعث دیگر جرائم کی طرح بھیک مانگنے کا رجحان بھی بڑھنے لگا۔ روزگار کی تلاش کی بجائے بچے، بڑے، (بقیہ نمبر56صفحہ7پر)
بوڑھے مرد و خواتین چوک چوراہوں پر بڑی تعداد میں بھیک مانگتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں۔ ٹریفک سگنلز اور فوڈ اسٹریٹس میں بھکاریوں کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ تھوڑے پیسوں کی بجائے کھانے پینے کی اشیا خرید کر دینے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کم انکم والے گھرانوں میں بچوں کی زیادہ تعداد ہونے سے بھی یہ معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔ متعلقہ محکمے بھی مبینہ طور پر چپ سادھے دفتروں میں بیٹھے ہیں۔ محنت مزدوری کرنے کی بجائے نوجوان لڑکے ہاتھوں میں تسبیح، کتابیں، سٹیکرز اور دیگر چھوٹی اشیا کی آڑ میں بھیک ہی مانگتے نظر آتے ہیں۔ بھکاریوں کی بڑھتی تعداد روکنے کے لئے قوانین موجود لیکن عملدرآمد صفر ہے۔خواتین، بچوں سمیت تمام افراد کے لیے گدا گری کی ممانعت ہے۔انسداد گداگری ایکٹ 1971 اور پی ڈی این سی ایکٹ 2004 کے تحت بھیک مانگنے والوں کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے، قانون میں بڑی عمر والے افراد کے لئے بھیک مانگنے پر 7سال سزا جبکہ بچوں کے لیے 3 سال تک سزا موجود ہے، قانونی ماہرین کے مطابق انسداد گداگری ایکٹ کے تحت بھیک مانگنے والوں پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے، بچوں کا کچرا اکٹھا کرنا اور اشیا فروخت کرنا بھی قانونی جرم ہے۔ شہر میں گداگری میں ملوث افراد کی اصلاح کے لئے ایک بھی ہاس موجود نہیں، متعلقہ فورم بھی سزا اور جرمانہ کرنے کی بجائے وارننگ دے کر گداگروں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
وارداتیں