جنرل صاحب! گمنامی کیوں؟

پاک فوج میں کمانڈ کی تبدیلی خوش اسلوبی سے طے پا گئی۔ یہ ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے۔ بہت سے ممالک میں تو اکثریت کو ایسی تبدیلی و تعیناتی کی خبر ہی نہیں ہوتی مگر ہمارے ملک میں چونکہ آرمی چیف کے عہدے میں اختیارات کا ارتکاز ہو چکا ہے۔ اس عہدے کو طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کبھی راز اور اخفا میں نہیں رہی۔ کل ہی یوم شہداء کے موقع پر جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے ستر سال سے فوج کی سیاست میں مداخلت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسے غیر آئینی بھی قرار دیا تاہم یہ دعویٰ بھی کیاکہ اب ایک ڈیڑھ سال سے فوج نے سیاست کے معاملات سے کنارہ کشی کا مصمم ارادہ اور سکہ بند فیصلہ کر لیا ہے۔
رواں ہفتے دو دن کے وقفے سے دو تعیناتیاں ہوئیں۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو جوائنٹ سروسز چیف جبکہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔سنیارٹی لسٹ میں جنرل عاصم منیر ٹاپ پر تھے۔ اب جنرل ساحر ان کو سپر سیڈکر گئے ہیں۔ وہ بڑے عہدے پر چلے گئے۔ تینوں افواج کے سربراہان کی کمیٹی کے چیف بن گئے، قواعد کے مطابق جنرل ساحر کو جنرل عاصم سلیوٹ کیا کریں گے، دونوں جرنیل نئے منصب پر تعیناتی پر خوش ہیں۔ آرمی چیف کی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ اس طرح بھی ہو جاتا ہے کہ مبارک بادوں، گلدستوں اور مٹھائیوں کا کہیں زیادہ رخ آرمی چیف کے مسکن کی طرف ہے۔
جنرل اظہر عباس اور جنرل فیض حمید سپر سیڈ نہیں ہوئے مگر انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جنرل اظہر عباس کا ایک چانس اس صورت میں موجودتھا کہ جنرل عاصم 27 نومبر کو ریٹائر ہو جاتے۔ ان کو حکومت نے ”ریٹین“ کر لیا۔ ان کو دو دن کی توسیع مل گئی۔ وہ27نومبر کو ریٹائر ہو جاتے تو نئی سنیارٹی کے مطابق جنرل اظہر عباس دوسرے نمبر پر آ جاتے۔ اگر جنرل عاصم کو جوائنٹ سروسز چیف بنا دیا جاتاتو جنرل اظہر عباس کا سنیارٹی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چانس نہیں رہتا تھا۔جنرل اظہر اور فیض شاید جنرل منیر کی دو روز کی توسیع اور جوائنٹ سروسز چیف کے بجائے آرمی چیف بنائے جانے پر تحفظات رکھتے ہیں۔
فوجی سربراہان خصوصی طورپر آرمی چیف کی تقرری میں تاخیر بھی ہیجان کا سبب بنی ہوئی تھی اور پھر حکومتی اوراپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے اپنی اپنی پسند کے جرنیل کو آرمی چیف بنانے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں۔ ایک موقع پر عمران خان نے کہہ دیا۔" صدر تقرری پر مجھ سے مشورہ کریں گے تو صدر سے مل کر کھیلیں گے۔" عمران خان کے اس بیان سے سیاست میں ہلچل مچ گئی۔ جب تقرری کا اعلان ہوا تو عمران خان سے صدر نے ملاقات کی اور فوری طورپر سمری پر دستخط کردیئے جس اس سے ایک نیا تماشہ بننے یا کھڑا ہونے کی نوبت نہیں آئی۔عمران خان نے دونوں نئے بننے والے فور سٹار جنرلز کو مبار باد دی جس میں قائد اعظم کے اس فرمان کا بھی حوالہ جس میں فوج کو اس کے فرائض یاد دلائے گئے ہیں۔اس پرتعریف اور تنقید کا سلسلہ چل نکلا۔
جنرل باجوہ کا شمار پاکستان کے طاقتور ترین جرنیلوں میں ہوگا۔ وہ چھ سال اس عہدے پر رہے۔ اس دوران وہ جتنے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوئے اتنے ہی متنازعہ بھی ہوگئے۔ زیادہ عرصہ مسلم لیگ ن کو جوایک دور میں پاکستان کی سب سے بڑ ی پارٹی تھی، چِت کیا گیا اور پھر تحریک انصاف بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو مسلم لیگ ن کی طرح بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مگر نسبتاً کم عرصے کے لیے زیر عتاب آئی۔ جنرل باجوہ کی اندرون کی طرح بیرون ملک بھی حیثیت مانی جاتی تھی لہٰذا حکومتوں کو مالی سپورٹ کے حوالے سے وہ کردار ادا کرتے رہے۔ جنرل باجوہ نے طاقت کی ”چھڑی“۔ اپنے جانشین کے حوالے کرنے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا ”میں گم نامی میں چلا جاؤں گا“۔ جنرل صاحب گمنامی میں کیوں جاتے ہیں۔ ایک موقع پر وہ اپنی مدت ملازمت میں من مرضی کے اضافے کی پوزیشن میں تھے۔وہ چاہتے تو آج جو سیٹ اپ موجود ہے وہ لاموجود ہوتا۔ اقتدار میں آنے والے لوگ ان کے ممنون ہیں۔ گوکہ ان لوگوں کی طرف سے آخری دنوں میں آنکھیں دکھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا تاہم معاملات بگڑنے سے محفوظ رہے۔ جنرل صاحب چاہیں تو دنیا کے کسی بھی ملک میں سفیر بن کر چلے جائیں۔امریکہ زیادہ مناسب رہے گا۔ ان سے زیادہ پاکستان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات سے کون آگاہ ہوگا۔ سیاسی پارٹی بنائیں دو سال یوں گزر جائیں گے۔ اس دوران میل ملاقاتیں بڑھائیں، تیاری کریں۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف سیاست میں آئے اور ناکام لوٹے۔ سیاست میں ہر جرنیل کی ناکامی کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ امریکہ میں کتنے جرنیل تھے جو صدر بنے۔ جنرل صاحب گمنامی میں رہنے کے بجائے سیاست میں قسمت آزمائی کریں۔
ایک تقریر جنرل باجوہ نے یوم شہدا کے موقع پر24نومبر کو بھی کی تھی۔ اس میں انہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوجی نہیں سیاسی شکست تھی۔مشرقی پاکستان میں 90ہزار نہیں 34ہزار فوجی قیدی بنے تھے۔ باجوہ صاحب کو فوج کے دفاع کا حق ہے مگر حقائق کو دھندلانا ممکن نہیں ہے۔ یقینا پاک فوج کے سپوت بے جگری سے لڑے۔ اس وقت ایک نالائق نکما اور نااہل جرنیل برسر اقتدار تھا۔ فوج اور سیاسی معاملات اس کے کنٹرول میں تھے۔ ہر دو صورتوں میں جنرل یحییٰ خان شکست کا ذمہ دار تھا۔ بالفرض کوئی بھی پاکستانی یہ کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کو شکست ہوئی۔ فوجی وہاں بنگالیوں پر ظلم و بریت کے پہاڑ توڑتے رہے۔ پاک فوج کو بُری طرح شکست ہوئی۔ یہ الزام کس پر لگے گا؟ وہ فوجی کہاں سے آئے؟؟ دشمن کے فوجی تھے؟؟ آپ کو ایک بھی پاکستانی ایسا نہیں ملے گا جس کا کوئی عزیز رشتہ دار دوست فوج میں نہ ہو۔ پاک فوج سے کوئی بھی پاکستانی ممخاصمت نہیں رکھ سکتا۔ اگر کسی کو کوئی گلہ و شکوہ ہے تو ان کرداروں سے ہے جن کو وہ کسی نا پسندیدہ معاملے میں ملوث سمجھتے ہیں۔ ایسے کرداروں کو کوئی" ادارہ" سمجھتا ہے تو یہ حماقت ہے۔کچھ ناسور کہتے رہے ہیں کہ فوج نے کوئی جنگ نہیں جیتی، اس نے صرف قوم کو ہی فتح کیا ہے۔
جنرل عاصم منیر نے چارج لینے کے بعد یہ حکم جاری کیا کہ آئندہ کمانڈ کی تبدیلی کی اس طرح تقریب نہیں ہوا کرے گی۔قارئین!آپ کو یہ حکم کیسا لگا؟یہ ان کا پہلا فیصلہ تھا۔آخری تین سال بعد ایکسٹنشن نہ لینے کا ہوسکتا ہے۔