بینکنگ جرائم کورٹ میں ججوں کی کمی، ہزاروں مقدمات التواء کا شکار ہو گئے

  بینکنگ جرائم کورٹ میں ججوں کی کمی، ہزاروں مقدمات التواء کا شکار ہو گئے
  بینکنگ جرائم کورٹ میں ججوں کی کمی، ہزاروں مقدمات التواء کا شکار ہو گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 لاہور(رپورٹ:کامران مغل)بینکنگ جرائم کورٹ میں جوڈیشل پالیسی پرمکمل عملدرآمد نہ ہونے سے برسوں سے زیرالتواء مقدمات کے فیصلے نہ ہونے سے انصاف کے متلاشیوں کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ تفصیلات کے مطابق بینکنگ جرائم عدالتوں میں گزشتہ 3برسوں میں ساڑھے 8ہزار سے زائد مقدمات دائر ہوئے جس میں سال2020ء میں 3001،2021ء میں 3000اوررواں سال 2022ء میں نومبر تک 2100کے قریب سائلین اور بینکوں کی جانب سے مقدمات دائر کئے گئے۔ لاہورڈویژن میں بینکنگ جرائم عدالتوں کے ججوں کی تعداد7ہے ،ذرائع کے مطابق بینکنگ عدالتوں میں 1 ماہ کے دوران 14سے 15مقدمات دائر کئے جاتے ہیں،بینکنگ عدالت میں ہر جج کو روزانہ اوسط 200 سے اڑھائی کیسز کی سنوائی کرنی پڑتی ہے تاہم ججز کی کمی کے باعث زیرسماعت کیسز کو کئی کئی ماہ کی تاریخیں دینا پڑتی ہیں،آئینی وقانونی ماہرمدثر چودھری ایڈووکیٹ،مرزاحسیب اسامہ،امجدرفیق بھٹی،رانانعمان اشرف، مجتبیٰ حیدر، اسامہ بن راشد، زمان منظور، علی عثمان،متین چودھری، خاورچودھری اورمیڈم سعدیہ نے کہاہے کہ ویسے تو قانون کے مطابق3ماہ کے اندر کورٹ نے فیصلہ کرناہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے مقدمات کے بروقت فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مقدمات التواء کا شکارہوتے ہیں اور سائلین کوبروقت انصاف نہیں ملتا،پنجاب کے بڑے حصے کے لئے مختص بینکنگ عدالتیں جوڈیشل پالیسی کے باوجود انصاف کی جلد فراہمی ممکن بنانے میں سست روی کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ ججز کی کمی ہے،جس کی وجہ سے عدالتوں میں زیرسماعت ہزار وں مقدمات کئی برسوں سے التواء کا شکار ہیں۔اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ بینکنگ عدالتوں اور ججز کی تعداد بڑھائی جائے بینکنگ عدالتوں میں آنے والے کوثربٹ، نعیم الرحمن، شفیق احمد، شیخ ساجد، امجد علی،ناصر چغتائی اور اشرف بارانے "پاکستان"سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کئی برسوں سے عدالتوں میں اپنے مقدمات کی شنوائی کیلئے آرہے ہیں مگر سست عدالتی نظام اور مقدمات کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث ہماری کئی کئی ماہ باری نہیں آتی،اگلی تاریخیں دے دی جاتی ہیں جبکہ گزشتہ کئی برسوں سے انصاف کے منتظرہیں۔