نفسیاتی الجھنوں کی شکار یہ قوم

نفسیاتی الجھنوں کی شکار یہ قوم
نفسیاتی الجھنوں کی شکار یہ قوم

  

اگر کوئی شعر پاکستان کے ہمہ وقت جاری حالات کی درست عکاسی کر سکتا ہے اور اسے بلا شبہ اس کا قومی ترانہ قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ منیر نیازی کا حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا یہ شعر ہے....” اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، مَیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا“.... اور دو ”دریاﺅں “ کے درمیان کی اس سرزمین کے باسیوں کو نفسیاتی الجھنوںنے اس قدر گھیرا ہو ا ہے کہ ہر موج ایک سونامی ( جس سے بچنا) اور ہر پتھر ایک ہمالیہ(جس پر سے گزرنا) ہے اور ہر دو ابتلاﺅ ں کے درمیان دم مارنے کی بھی گنجائش نہی   ں                  ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے دی گئی پے در پے دھمکیوں اور وارننگوں ، جو پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھتی گئیں.... 111 بریگیڈ نے نہیں آنا تھا، نہ آیا حتیٰ کہ ان کے نعرے چیخوں اور پھر آہوں میں تبدیل ہو گئے، تاہم کوئی کم عقل انسان ہی کہہ سکتا ہے کہ اب انتخابات سے پہلے تمام راہ صاف ہے اور تمام ذہنی الجھنوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ہر گز نہیں، ایسا سمجھنا کم عقلی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ٹھوس معروضی مسائل ایک بات ہیں، لیکن اصل مسئلہ تو التباسات کا ہے، جنہوںنے بھوتوں کی طرح ہمارے تخیلات پر ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ ہماری پیچیدہ اور تہہ دار نفسیات طلسم ہوشربا کا وہ سلسلہ ہے، جہاں ہو ش میں آنا مشکل ہے۔ اگراس اسلامی جمہوریہ میں کاریں پانی سے چل سکتی ہیں اور جتنے قد آور لوگ اس آبی کار کی حمایت کر رہے تھے، یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا.... اور امریکہ کے مشرقی ساحلوںپر تباہی مچانے والاسینڈی طوفان ہمارے مفتیان ِ عظام کے مطابق کسی احمق کی طرف سے بنائی گئی توہین آمیز فلم پر ملنے والی سزا تھی، اگر میرے دوست ڈاکٹر اے کیوخان نے ایک بم بناکر قوم کو بچانے کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہو تو سمجھ لیں کہ ہمارے ذہنی مسائل سوچ سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ ان تفکرات سے ایک اور پریشان کن سوچ ابھرتی ہے.... کیا ہم، جیسا کہ ہمارے دانشور دعویٰ کرتے ہیں، واقعی خدا کے انتہائی قریب ، بلکہ محبوب ہیں کہ یہ وطن آسمانی طاقتوں کی خصوصی توجہ سے معرض ِ وجود میں آیا؟ کس کافر کی مجال ہے کہ اس عقید ے کا کفر کرے !کیا اس سے یہ سوچ بھی پیدا نہیں ہوتی کہ اگر ہم اس قدر قریب ہیں تو پھر ہماری حماقتیں بھی تو بہت زیادہ نظر میں ہوں گی اور بہت جلد خالق ِ ارض و سما ہم سے اکتا جائے گا؟ خدا کے غضب کے بارے میں تو ہم مقدس کتاب میں پڑھتے ہیں، لیکن اگر اُسے اس ”خاص تخلیق “ (ہمارے دعوے کے مطابق)نے مایوس کیا تو کیا ہو گا؟میری جنرل(ر) حمید گل سے بہت پرانی شناسائی ہے اور ہم (امید ہے کہ پاکستان دفاع کونسل والے اس کا برا نہیں منائیںگے) گاہے بگاہے فون پر بات بھی کرتے ہیں۔ مَیں اُ ن کا مشکور ہوں کہ وہ مجھے پرہیزگاری ، بلکہ پارسائی ، کے درس سے نوازتے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ میں ان کی نصیحت پر کان دھرتا ہوں، اور جیساکہ آپ کو علم ہے کہ وہ اپنے مخاطب کو بہت جلد قائل کرلیتے ہیں، لیکن اس پر عمل کرنے میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ مانع ہے اور اس کا تعلق حفیظ جالندھری کے لافانی نغمے، جس کو ملکہ پکھراج نے سروں کے موتیوں میں پرو دیا، سے ہے”ابھی تو مَیں جوان ہوں “۔ سینٹ آگسٹائن کی مشہور دعا اکثر کو یاد ہو گی جو اُنہوں نے جوانی ، جب وہ عقیدے اور جذبات کی الجھن میں تھے، میں کی.... ”اے خدا مجھے پارسائی کے راستے پر چلانا.... لیکن ابھی نہیں“۔سینٹ آگسٹائن عیسائیت میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، لیکن کیا یہ دعا ہم گناہ گاروںکے لبوں پر کچھ مسکراہٹ نہیں بکھیر دیتی؟اگر اکابرین کا یہ عالم ہے تو عام لوگوں، جو خطا کے پتلے ہیں، کو کس 62 اور63 کی چھلنی میں چھانا جائے ؟ہماری موجودہ اسمبلی کو، جو اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہے، ہماری تاریخ کی انتہائی بے کیف اسمبلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی آمروں یا جمہوری آمروں کی اسمبلیوں کو ہم نے دیکھا ہے، لیکن اُن میں بہت جاندار سیاست دان ہو تے تھے۔ اگرچہ مَیں خود بھی اسی اسمبلی کا حصہ ہوں، لیکن یہ کہنے میںکوئی تامل نہیںہے کہ اس اسمبلی نے قومی خدوخال پر اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ اس کی مدت کے دوران ہم سب کی عمروں میں پانچ سال کا اضافہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیںہوا۔ کیا اس سے بڑا کوئی اور سوگوار واقعہ ہو سکتا ہے؟اگر اس اسمبلی کے کارہائے نمایا ںکو ایک عنوان کے تحت لانا ہو تو مرزا غالب (معذرت کے ساتھ کچھ ترمیم) کا یہ مصرع موزوں رہے گا....” بیٹھے ’رہے‘ تصور ِ ’جانا ‘کئے ہوئے“.... شعری ترمیم کی اور بات ہے، پلیز اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم کا ذکر نہ کیجیے گا۔جب مَیں ان کاغذی کامیابیوں کا ذکر سنتا ہوں تو میرا ہاتھ بے ساختہ اپنے پستول کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ گورنگ کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے کلچر کے بارے میں سن کر اُس کے بھی یہی خیالات تھے۔ وکلاءکی تحریک نے بھی میرے اندر ایسے ہی جذبات پیدا کر دئیے تھے۔ جب میں ایک مشہور وکیل کے منہ سے ”آئین اور قانون کی بالا دستی “ کی بات سنتا ہوں تو میرا ہاتھ بے ساختہ پھولوں کے گلدان (یہ پتھر کا گلدان اُن کے لئے پستول کی نسبت مناسب رہے گا)کی طرف اٹھ جاتا ہے۔ بہرحال وقت کی دھول میں ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے ساتھ یہ مسافر، موجودہ اسمبلی، اپنی منزل کے قریب ہے۔ خدا کرے تاریخ مرحومہ کو اچھے الفاظ میں یاد رکھے۔ اگر ، جیسا کہ تجویز ہے، آئین کے آرٹیکلز 62 اور63 کا نفاذ کیا جائے تو پھر اسمبلی میں کون ہوگا؟.... شاید دراز لبادوں میںملفوف منافقت کی چلتی پھرتی تصویریں! کم ازکم ایک مرتبہ ان آرٹیکلز کو لاگوکر یں تاکہ اکتاہٹ کی ماری اس قوم کی تفریح کا بھی کوئی سامان ہو ۔ ذرا تصور کریں کہ جب مَیں اپنے کاغذات ِ نامزدگی جمع کراتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر کو سینٹ آگسٹائن کی مذکورہ بالا مشہور دعا (اور ساتھ ملکہ پکھراج کے نغمے )کا حوالہ دوں گا تووہ صاحب کیا کہیں گے؟بات کہاںسے کہاں جا نکلی، مَیں ڈاکٹر طاہر القادری کی آتش بیانی ، جو بعد میں معجزانہ طور پر”گلزار “ ہو گئی، کا ذکر کر رہا تھا ، کے بعد کچھ سادہ لوح یہ سمجھ رہے ہیںکہ اب انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیںہے۔ عرض ہے کہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ یہ وہ ملک ہے، جہاں سازش کی تھیوریوں نے آب ِ حیات پی رکھا ہے۔ ایک دریا (منیر نیازی والا) کے پار بمشکل اترتے ہی ہیں کہ دوسرے سے سامنا ہو جاتا ہے(اگر نہ ہو تو خود ہی فرہادی، یعنی دریا کھودنا، شروع کردیتے ہیں)۔ اگر چہ شیخ الاسلام اپنے اصل (ملک ؟) کی طرف لوٹ رہے ہیں، لیکن ہمارے سیاسی پنڈتوں کے ذہن سے یہ خوف نہیں جاتا کہ کچھ ہونے والا ہے اور یہ کہ انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان اوہام کا علاج تو حکیم لقمان مرحوم (رفع ِ شر کی خاطر مرحوم لکھنا بہتر ہے)کے پاس بھی نہیں تھا۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پی پی پی واقعی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ اپنی عقل کا علاج کرائے۔ ایک بہت بڑے وفد کی صورت میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس ملاقات کے لئے جانا صرف پی ایم ایل (ن) کو زچ کرنے کے لئے تھا.... اس ضمن (زچ ہونے) میں پی ایم ایل (ن) کسی کو مایوس نہیں کرتی۔ آئین کے آرٹیکلز 62 اور63 کا تذکرہ محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ہے، ان کو نافذ کرنا مقصود نہیںہے، کیونکہ صدر آصف علی زرداری بھی انتخابات کرانے میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں، جتنی کہ نواز شریف.... چنانچہ وہ کسی پارسائی کے چرنوں میں ان کو قربان کیوں ہونے دیں گے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ”عطائیت“ کادور لد گیاہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ دنیا میں ہم سے زیادہ سازش کی تھیوریاں تیار کرنے اور پھیلانے میں کوئی مستعد نہیںہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ معاملہ یہ نہیںکہ تاریخی طور پر ہم ان افعال میں سند کا درجہ رکھتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کرنے کو اور کچھ بھی نہیںہے۔ اگر آپ اسلام آباد یا لاہور میں بیٹھ کر سیاست پر بات نہ کریں تو اور کیا کریںگے؟یہ قوم اس لق و دق صحرا کی اسیر ہے، جہاں کوئی کیکٹس بھی نہیں کھلتا، جہاں خواب میںبھی سراب ہے۔ مَیں زیادہ تر وقت کلبوں اور ہوٹلوں میں بسر کرتا ہوں اور کبھی اپنے گاﺅں والے بنگلے پر، لیکن ہر جگہ یہ سوچ جاگزیں رہتی ہے کہ اب ”دل کے بے کیف کواڑوں کو مقفل “ کر دینا چاہیے۔ اس تنہائی میں شاید پارسائی کی طرف دھیان چلاجائے۔ شاید اسی لئے قوم ایک دریا سے گزرنے کے بعد خواب دیکھنے لگتی ہے کہ شاید کوئی مسیحا آجائے.... اتنی دیر میں آنکھ کھلتی ہے اور ایک دریا درپیش ہوتا ہے، چنانچہ ”اب سرِ منظر فقط اک بادباں اور ایک مَیں“۔نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ 

مزید :

کالم -