گڈی آئی ، گڈی آئی ۔۔
ہم اپنے ذہنوںمیںکچھ مفروضے بنا لیتے ہیں ، یہ مفروضے گوئبلز کے جھوٹوں کی طرح اتنے دہرائے جاتے ہیں کہ ضرب المثل بن جاتے ہیں، جیسے اک مفروضہ یہ تھا کہ اس ملک میں کبھی کسی مقدس گائے پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا ، پرویز مشرف بارے یہی کہا جا رہا کہ ماضی کا سابق آمر حکومت، عدلیہ اور جمہوریت پسند عوام سمیت سب کا منہ چڑاتا ہوا جنوری کے آخری دنوں میں وطن کے پنجرے سے اڑن چھو ہوجائے گا، ملکی میڈیا اور ماہرین تو اک طرف رہے، بہت زیادہ ذمہ دارسمجھے جانے والے بین الاقوامی میڈیا نے بھی ایسی ہی ہرزہ سرائیاں کیں جیسے اس ملک میں آئین اور حکومت،قانون اور عدلیہ نامی چیزوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ مفروضہ تو یہ بھی قائم کرلیا گیا تھا کہ سابق آمر بہت بہادر اور محب وطن شخص ہے اور اب ان دونوں غباروں سے بھی ہوا نکل چکی ہے، اگر وہ بہادر اور محب وطن ہوتا تو ایک ہسپتال کے ذریعے ملک سے بھاگنے کی راہ تلاش نہ کر رہا ہوتا۔ پاکستان کو دن رات برا بھلا کہنے والے جان لیں کہ اکیسویں صدی کا پاکستان، بیسویں صدی کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کبھی بھی اس آئین شکن کو ملک سے جانے کی اجازت نہیں دیں گے اور رہ گئی بات عدالت کی تو اس کا رویہ تو سب نے دیکھ لیا ہے۔ مجھے مفروضوں پر اہمیت حاصل کرنے کے مرض میں مبتلا میرے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ عدلیہ افتخار چودھری والی عدلیہ نہیں، تم بے خبر ہو اور نہیں جانتے کہ ہماری عدلیہ کے ججوں کے سابق چیف جسٹس سے بہت گہرے اختلافات پید اہو چکے تھے، وہ افتخار چودھری کی میڈیا میں بے جا کوریج حاصل کرنے کے لئے سو و موٹو لینے کی روش سے سخت نالاں تھے۔ میں نے اپنے ساتھی کے مفروضے کو صرف اس وجہ سے رد نہیں کیا کہ کہیں زیادہ اہمیت حاصل کرنے کے کوشش میں ان کے منہ سے جھاگ نہ نکلنے لگے، صرف اتنا عرض کیا کہ میں لمحہ بھر کے لئے افتخار چودھری کو فراموش کردیتا ہوں مگر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس ملک کی عدلیہ اور میڈیا کے نے اپنا اپنا مقام پہچان لیا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ جو پیپلزپارٹی کی حکومت کی شدید ترین بے زاری کے باوجود افتخار چودھری کا بال بیکا نہیں کر سکی، وہ اپنا مکاآئین اور قانون کی راہ پر چلنے والی موجودہ عدلیہ کی طرف بھی نہیں بڑھا سکے گی۔
بات مفروضوں کی ہور ہی ہے، اک مفروضہ تھا کہ تحریک انصاف کو عوام کی اندھا دھند حمایت حاصل ہوچکی ، وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کا صفایا کرتے ہوئے کم از کم دوتہائی اکثریت تو ضرور ہی حاصل کرلے گی، انتخابی نتائج ایسے ہوں گے کہ عمران خان وزیراعظم بننے سے آصف علی زرداری کو ایوان صدارت سے گھر بھیجیں گے مگر انتخابات میں یہ مفروضہ اک چوتھائی حقیقت بن سکا۔ پھر یہ مفروضہ قائم ہوا کہ عام انتخابات میں شدید ترین دھاندلی بلکہ دھاندلا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما جمشید اقبال چیمہ کی رہائش گاہ پر ان کی پھھپو کے انتقال پر اظہار افسوس کے لئے جاتے ہوئے دوستوں کا یہی اصرار تھا۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ میرے ساتھ لاہور کے کسی بھی حلقے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر سٹڈی کر لیں۔ اک امر تو طے ہے کہ دن بھر جعلی ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے کیونکہ پولنگ سٹیشنوں پر فوج کی موجودگی میں پی ٹی آئی کے جوشیلے کارکن کسی بھی ایسے ووٹر کا ووٹ کاسٹ ہی نہیں ہونے دیتے تھے جس پر ذرا برابر بھی شک ہو، کہا گیا کہ نتائج اس وقت تبدیل کئے گئے جب پریذائیڈنگ افسران نے ووٹوں کی گنتی کے بعد رزلٹ ریٹرننگ افسران کو بھیجے۔ میراکہنا یہ ہے کہ پولنگ ایجنٹوں نے ہر پولنگ سٹیشن پر پریذائیڈنگ افسر سے دستخط شدہ نتیجہ وصول کیا، وہ یہ تمام نتائج اکٹھے کر لیں، جمع تفریق کی غلطی کے لئے بیس، تیس یا سو ووٹوں کی آگے پیچھے ہونے کی گنجائش رکھ لیں، انہیں جمع کریں اور اگر وہ جیت رہے ہوں تو اس حلقے میں دھاندلی کے ایشو پر میں ان کا مکمل ساتھ دوں گا۔
اک مفروضہ یہ بھی ہے کہ اس ملک سے لوڈ شیڈنگ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی، ایم او یوز کا ڈھیر لگایا جا رہا ہے مگر یہ سب وقت گزاری اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے اور میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ چھ ماہ یا ایک سال کی باتیں تو اب کوئی بھی نہیں کر رہا مگر یہ بات سو فی صد یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے اس ملک سے لوڈ شیڈنگ غائب ہو چکی ہو گی اورحکمران اگلا الیکشن جیتنے کے لئے بجلی کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی کریں گے۔ صرف پنجاب کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی جو منصوبہ بندی کر رہا ہے وہ سرکاری سطح پر چھ سو ساٹھ میگا واٹ کے دو پلانٹ اور مجموعی طور پر چھ ہزار میگا واٹ کے بجلی کے کارخانے لگانے کی ہے اور اس وقت ہمارا شارٹ فال بھی اتنا ہی ہے، اگر ہم نیلم جہلم سمیت باقی تمام منصوبے اور ایم او یوز بھول بھی جائیں اور شہباز شریف پر اعتماد کر لیں کہ جنوں کی طرح کام کرتے ہوئے اپنے پراجیکٹ مکمل کر لیں گے تو اضافے کے باوجود اس ڈیمانڈ کوتین سال میں پورا کر لیا جائے گا۔ توانائی کے بحران کو کم کرنے کے لئے ایل این جی کے لئے پلاننگ، شمسی توانائی کے استعمال کا خواب، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے وغیرہ وغیرہ تو اس کے علاوہ ہیں۔
میں اصل میں جس مفروضے پر بات کرنے لگا ہوںوہ یہ ہے کہ پاکستان ریلویز ایک ایسا سفید ہاتھی بن چکا
ہے جو کبھی بھی منافع بخش ادارہ نہیں بن سکتا، کچھ ستم ظریفوں نے مسلم لیگ نون کے بلٹ ٹرین چلانے کے انتخابی وعدے کے کارٹون بنا کے بھی سوشل میڈیا پر شئیر کئے مگر مجھے پورا یقین ہے کہ خواجہ سعد رفیق جس طرح اس محکمے کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی۔ ریلوے ہیڈکوارٹرز کے کمیٹی روم میں پاکستانی میڈیا کے چھ درجن سے زائد جنات موجود تھے اور میں خواجہ سعد رفیق ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے ، یہ مقابلہ وہی کر سکتا ہے جو محنت، دیانت اور لگن کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہو ورنہ ہمارا میڈیا ایک لمحے میں مخالف کی عزت پامال کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔۔ مگر ٹھہرئیے۔۔ یہاں خواجہ سعد رفیق کو ایک اور بہت بہتر رفیق کار مل گیا ہے اور وہ جناب روف طاہر جیسے پروفیشنل، ہارڈ ورکنگ اور محب وطن جرنلسٹ کا ساتھ ہے جو کارکن صحافیوںکے لئے اک درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے سامنے گذشتہ برس گیارہ جون سے اکتیس دسمبر تک ریلوے کی بحالی کے سفرکی داستان موجود ہے۔ جب ریلویز کو نئی قیادت ملی تو یہ کم و بیش تیس ارب روپوں کے خسارے کا شکار تھا مگر ابتدائی دو سو دنوں میں، ریلویز نے پچھلے مالی سال کے اسی دورانئے کی نسبت تین ارب تینتالیس کروڑ انچاس لاکھ روپے زیادہ کمائے، سعد رفیق کہتے ہیں کہ اس حوصلہ افزا ابتداءکے بعد ان کی منزل ریلوے کو ایک ایسے ادارے میں ڈھالنا ہے جو دوسرے سرکاری محکموں کے لئے ایک مثال کا درجہ رکھتا ہو مگر واقعی یہ کوئی آسان کام نہیں۔ریلوے بارے مفروضہ یہ ہے کہ وہ کام نہ کرنے والے ہڈحراموں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ میں اعداد و شمار پر زیادہ اس لئے نہیں جاو¿ں گا کہ مجھے اپنے ایک قابل فخر سیاسی کارکن سے امید ہے کہ اس کی لائی ہوئی تبدیلیاں ریلوے میں عملی طور پر نظر بھی آئیں گی، ہو سکتا ہے کہ بلٹ ٹرین کا خواب پانچ سال بھی پورا نہ ہو مگر دوسری طرف اگر ٹرینیں وقت پر آنا اور جانا شروع کر دیں، محکمے کا خسارہ ختم ہوجائے، مین لائین اتنی اپ گریڈ ہوجائے کہ اس پر الیکٹرک ٹرینیں تیز ترین سپیڈ کے ساتھ چلنے لگیں، بوگیاںصاف ستھری ہوں، وہاں کھانے پینے ہی نہیں انٹرنیٹ کے لئے وائی فائی، ٹی وی کے ذریعے انٹرٹینمنٹ، کسی مشکل میں فرسٹ ایڈ جیسی سہولیات میسر ہوں، ریلوے مقامی سطح پر مثال کے طور پر گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، اوکاڑہ اور نارووال جیسے شہروں کے لئے شٹل سروس شروع کر سکے تو میں بھی بچپن میںسنا ہوا وہ گانا دہرا سکوں ۔۔۔ گڈی آئی گڈی آئی نارووال دی، سینے چ ٹھنڈ اتوں اگ بال دی ۔۔۔ بچپن سے یاد آیا میرے ذہن میں اپنے والد کی کوئی تصویر نہیں کہ وہ اس وقت وفات پاگئے تھے جب میں تین سال کا تھا ۔۔۔ میرے والد پاکستان ریلوے میں ملازم تھے اور طویل عرصے تک میں اپنی والدہ کے ساتھ ریلوے اسٹیشن ان کی پنشن لینے کے لئے آیا کرتا تھا ۔۔۔ ریلوے سے میری اس حوالے سے جذباتی وابستگی بھی ہے اور میرے اندر کوئی چیخ چیخ کے یقین دلارہا ہے کہ تمہارے لئے بھائیوں کی طرح محترم سعد رفیق، تمہارے باپ کے ادارے کو بحال کرنے جا رہا ہے !!!
