جنوبی پنجاب: پیپلزپارٹی کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش
رحیم یار خان کے ایک مخدوم کو ہٹا کر آصف علی زرداری نے دوسرے مخدوم کو پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کا صدر بنا دیا۔ ملتان میں اپنی رونمائی کے لئے مخدوم احمد محمود بطور صدر جنوبی پنجاب جلسے میں شرکت کے لئے آئے، تو جیالوں نے اُن کے خلاف بینرز لگا دیئے، جن پر لکھا گیا تھا کہ کسی جیالے کو صدر کیوں نہیں بنایا گیا۔ مخدوم شہاب الدین کے بعد مخدوم احمد محمود کو صدر بنا کر آصف علی زرداری نے اپنے تئیں پیپلزپارٹی میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کیا کسی ایک شخصیت کی تبدیلی سے پیپلزپارٹی کے تنِ مردہ میں جان پڑ سکتی ہے؟ حالت تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جتنے عہدیدار ہیں، وہ ایک دوسرے کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ پنجاب میں منظور احمد وٹو کو جس مزاحمت کا سامنا ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ دِنوں خود آصف علی زرداری کی موجودگی میں اجلاس کے دوران لاہور کا بلاول ہاؤس اکھاڑہ بنا رہا۔ ملتان میں بھی اجلاس کے دوران نعرے لگتے رہے اور نوبت ہاتھا پائی تک بھی آئی۔ مستقبل کے وژن اور اُمید سے محروم ایک سیاسی جماعت تو اپنے کارکنوں کو مطمئن نہیں کر سکتی، عوام کو کیسے مطمئن کرے گی؟یہ بہت اہم سوال ہے، لیکن اس وقت آصف علی زرداری سے لے کر نیچے تک سب معجزے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
سندھ کے بعد جنوبی پنجاب ایک ایسا خطہ ہے، جہاں پیپلزپارٹی کی اب بھی کسی حد تک مقبولیت برقرار ہے، لیکن مجموعی قومی سیاست کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ پیپلزپارٹی یہاں بھی اپنے وجود کو برقرار رکھ پائے گی یا نہیں؟ 2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اس علاقے سے بھی سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہی، تاہم اُس کا ووٹ بنک اب بھی موجود ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم پاکستان تھے، مگر اپنے دورِ اقتدار میں اُن کا سارا فوکس ملتان پر رہا۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی دور کرنے پر اُنہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ پھر جب اُن کی حکومت چھن گئی تو اُنہوں نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا رونا شروع کر دیا۔ وہ ایک بار پھر اس دعوے کو لے کر نعرہ زن ہوئے کہ جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بننا چاہئے۔ یہ نعرہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی آواز ہے، تاہم جب سید یوسف رضا گیلانی الگ صوبے کی بات کرتے ہیں، تو عوام اُس پر اعتبار نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ جب ساڑھے چا ر سال اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکے، تو اب کیا کریں گے؟ سید یوسف رضا گیلانی اب اور کریں بھی کیا۔ اُن کے پاس عوام کو متاثر کرنے کے لئے اور کچھ ہے بھی تو نہیں۔ اب وہ جنوبی پنجاب کا صدر اپنے رشتہ دار احمد محمود کو بنانے میں کامیاب رہے ہیں، اس سے اُن کی پارٹی پر گرفت تو مضبوط ہو گئی ہے، مگر کیا وہ جنوبی پنجاب کے عوام کی نبض پر بھی ہاتھ رکھ سکیں گے؟ کیا پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب میں اپنا کھویا ہوا تشخص بحال کر سکے گی؟
اس میں شک نہیں کہ مخدوم احمد محمود ایک با صلاحیت آدمی ہیں، پھر اُن پر آصف علی زرداری کی نظرِ عنایت بھی رہی ہے۔ انہوں نے انہیں پنجاب کا گورنر بھی بنا دیا تھا اور سنا ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، تو اُس نے انہیں گورنر پنجاب کی حیثیت سے برقرار رکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا، مگر وہ مستعفی ہو گئے۔ آج چودھری محمد سرور کے مستعفی ہونے کا بہت تذکرہ ہے۔ مخدوم احمد محمود نے بھی اس حوالے سے ایک اچھی مثال قائم کی تھی۔ اُن کی رحیم یار خان کی سیاست پر مکمل گرفت ہے۔ وہاں اُن کی آشیر باد سے ہی کوئی جیت سکتا ہے۔ چاہے وہ کسی جماعت کے پلیٹ فارم سے حصہ لیں یا پھر آزاد الیکشن لڑیں، اُن کی جیت یقینی ہوتی ہے۔ وہاں پارٹی سے زیادہ مخدوم احمد محمود گروپ کا شہرہ ہے، اس لئے آصف علی زرداری کا انتخاب بے معنی نہیں، پھر انہیں جنوبی پنجاب کی سیاست کا مکمل ادراک بھی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژنوں میں کون کیا ہے اور کہاں کھڑا ہے۔ پھر اُن میں اتنا اعتماد بھی ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے اپنے مطالبات اور فیصلے منوا سکیں۔ ان سب باتوں کے باوجود اُن کا یہ دعویٰ بادی النظر میں بہت بڑاہے کہ وہ دو سال میں پارٹی کو اس علاقے کی سب سے بڑی جماعت بنا دیں گے اور پنجاب کی حکومت بھی انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی بنائے گی۔
پنجاب کا تخت پیپلزپارٹی کا ایک ایسا دُکھ ہے کہ جسے ہر لیڈر دہراتا رہتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی جب پنجاب کے دورے پر آئے تھے، تو تخت پنجاب کے لئے ٹھنڈی آہیں بھر رہے تھے۔ آصف علی زرداری بھی اِسی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ پیپلزپارٹی کسی طرح تختِ لاہور حاصل کر لے۔ پنجاب کی حکومت کے بغیر پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں آئی ہے اور سب نے دیکھا کہ وہ اپنی حکمرانی کا سکہ نہیں جما سکی۔ بے نظیر بھٹو بھی تختِ لاہور پر حکمرانی کا خواب دیکھتے دیکھتے دنیا سے چلی گئیں۔ اپر پنجاب میں پیپلزپارٹی کے لئے جگہ بننا مشکل ہے۔ وہاں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ اب پاکستان تحریکِ انصاف بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر موجود ہے، بلکہ گزشتہ انتخابات میں تو مقابلہ ہی ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہوا ہے۔ ایسے میں صرف جنوبی پنجاب ہی وہ علاقہ رہ جاتا ہے، جہاں سے پیپلزپارٹی کوئی نقب لگا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی بار کسی قومی جماعت نے جنوبی پنجاب کے لئے الگ تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کیا ہے۔ اسے ایک اہمیت اور عہدہ دیا ہے۔
میرے نزدیک اس وقت پیپلزپارٹی میں میاں منظور وٹو کی نسبت مخدوم احمد محمود کی اہمیت زیادہ ہے۔ میاں منظور وٹو پارٹی کے لئے کچھ کر ہی نہیں پا رہے، کیونکہ اپر پنجاب میں پیپلزپارٹی کے لئے کوئی گنجائش ہی پیدا نہیں ہو رہی، جبکہ جنوبی پنجاب میں بہت سے عوامل ایسے ہیں جو پیپلزپارٹی کو سپورٹ دے سکتے ہیں۔مثلاً ڈیرہ غازی خان میں مسلم لیگ(ن) مشکلات کا شکار ہے۔ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اپنے گروپ کے ساتھ شریف برادران کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے اندر ایک ناراض گروپ بنانے کی کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں۔ یہاں ایک بہتر تنظیمی ڈھانچے اور سرگرمی سے پیپلزپارٹی سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ویسے بھی ڈیرہ غازی خان ڈویژن ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، جب فاروق احمد خان لغاری زندہ تھے، پھر وہ صدر بنے اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت برخواست کی تو لغاری خاندان کا پیپلزپارٹی سے رابطہ منقطع ہو گیا۔اس طرح کھوسہ اور لغاری سردار دونوں ہی پیپلزپارٹی کے خلاف صف آرا ہو گئے،جس کا نقصان بھی ہوا۔
مخدوم احمد محمود کا امتحان ہے کہ وہ ڈیرہ غازی خان کی ساست کا رخ پیپلزپارٹی کی طرف کیسے موڑتے ہیں؟ جہاں کلچر بہت مشکل سے قابو میں آتا ہے۔ اس میں سید یوسف رضا گیلانی جیسا بڑا لیڈر بھی کارکنوں کے تندو تیز جملوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کی حکومت اسے اندر سے کھوکھلا کر گئی ہے۔ خود کارکن بھی اس دور کی دہائی دیتے ہیں کہ انہیں یکسر نظر انداز کیا گیا اور سب کچھ چہیتوں کو ملا یا پھر قیادت بانٹ کر کھا گئی۔ احمد محمود بہاولپور ڈویژن میں پیپلزپارٹی کو بڑی اچھی پوزیشن میں لا سکتے ہیں۔ وہاں ان کا اثرو رسوخ بھی موجود ہے اور بڑے بڑے سیاسی گروپوں اور شخصیات سے ذاتی مراسم بھی ہیں۔ ایک زمانے میں پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت تھی، جس نے گلی محلے تک اپنا تنظیمی ڈھانچہ اتار دیا تھا۔ وارڈ کی سطح تک عہدیدار موجود تھے جو پیپلزپارٹی کو فعال رکھتے تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا آئیڈیا تھا کہ پارٹی کو گراس روٹ لیول تک اتارا جائے تاکہ اس کے عہدیداروں کا عوام سے براہ راست تعلق قائم ہو جائے ، لیکن بعدازاں پارٹی پر مرکزیت کی چھاپ لگتی چلی گئی اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ پارٹی میں رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور کارکن تھوڑے رہ گئے۔مخدوم احمد محمود نے ملتان میں پارٹی کو پھر سے کارکنوں کے ہاتھوں میں دینے کا اعلان کیا اور نچلی سطح تک پارٹی کی تنظیم سازی کی نوید سنائی۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کا سب سے بڑا ٹاسک تو یہ ہے کہ وہ عوام میں اپنا اعتبار قائم کرے، ان کا وہ کھویا ہوا اعتماد واپس لائے،جو عرص�ۂ اقتدار کی بداعمالیوں نے تباہ کر دیا ہے۔ یہ کام کسی اکیلے رہنما کے بس کا نہیں۔ عوام کے سیاسی شعور میں جو اضافہ ہوا ہے، وہ پیپلزپارٹی کے راستے کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ سیاسی میدان میں اب مزید کئی کھلاڑی آ چکے ہیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف سرفہرست ہے۔ اب مُلک میں دو پارٹی سسٹم نہیں رہا، بلکہ عوامی طاقت اور را ئے کئی خانوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنما ایک بار پھر الگ صوبے کا نعرہ لے کر میدان میں آئے ہیں، اگر وہ صرف اسی ایشو کو سنجیدہ انداز سے آگے بڑھاتے ہیں اور پیپلزپارٹی اسے اپنے منشور کا حصہ بنا لیتی ہے، تو جنوبی پنجاب کی حد تک اسے عوام کی نظر میں ایک ایسی برتری حاصل ہو جائے گی، جو فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا سنجیدہ مطالبہ کر سکتی ہے؟ جبکہ وہ خود سندھ میں الگ صوبے کے سخت خلاف ہے اور بلاول بھٹو زرداری تو اس حوالے سے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں؟