پاک آرمی کی ریزروسٹ ٹریننگ

پاک آرمی کی ریزروسٹ ٹریننگ
پاک آرمی کی ریزروسٹ ٹریننگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل ایک قریبی عزیز، ملاقات کے لئے آیا۔ کئی روز سے اُس کا فون بھی نہیں آ رہا تھا۔ مَیں نے پوچھا کہ اتنے دن کہاں غائب رہے۔کہنے لگا کہ ریزروسٹ ٹریننگ (Reservist Training) کے لئے آرمی نے ری کال(Re-Call) کیا ہوا تھا اس میں مصروف رہا۔ کبھی دن کو ٹریننگ ہوتی تھی کبھی رات کو۔ یہ عزیز فوج سے بطور میجر ریٹائر ہوا تھا، جسمانی لحاظ سے چاق و چوبند تھا، عمر50برس کے لگ بھگ ہو گی۔اس نے بتایا کہ فوج میں ریزروسٹ ٹریننگ کا جو سلسلہ چند سال پہلے بند کر دیا گیا تھا اب کچھ عرصے سے پھر شروع کر دیا گیا ہے۔۔۔ اس کالم کے ذریعے قارئین کو اس بعد از ریٹائرمنٹ ٹریننگ کلچر سے کچھ آگہی دینی مقصود ہے۔
کوئی بھی فوجی آفیسر ہو کہ سپاہی، جب ریٹائر ہوتا ہے تو عمر اور جسم و جان کے حوالے سے اُس سویلین سے بہتر ہوتا ہے جو60سال کی عمر میں ریٹائر ہوتا ہے۔ فوج کی سروس جسمانی چابکدستی اور ذہنی اہلیت کا ایک ایسا معیار مانگتی ہے، جو اس کی پیشہ ورانہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج کا سپاہی32،34برس کی عمر میں اور کمیشنڈ آفیسر (اگر میجر سے اوپر نہ جا سکے)44،45برس کی عمر میں ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ یہ فوجی ریٹائرمنٹ کے بعد ریزروسٹ لسٹ پر چلا جاتا ہے اور60سال کی عمر تک اس لسٹ پر رہتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم کو جب اس کی ضرورت پڑے تو اُسے حاضر ڈیوٹی افراد کی طرح اُن فرائض کی ادائیگی کے لئے ری کال کر لیا جائے جو فوج اس کے رینک اور اس کی جسمانی و پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حوالے سے مناسب سمجھتی ہو۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کی حاضر سروس فوج کی تعداد6لاکھ ہے تو ریزروسٹ فوج کی تعداد کئی لاکھ سے متجاوز ہو سکتی ہے۔۔۔ یہ تجربہ کار تعداد قوم و ملک کا ایک بڑا اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کو بروقت استعمال کرنے اور کام میں لانے کے لئے فوج، اپنے ریزروسٹ پول کی ٹریننگ کا ایک پروگرام رکھتی ہے جس کے مطابق ہر اس آفیسر اور سولجر کو ری کال کیا جاتا ہے جو عمر کے پیمانے اور میڈیکل فٹنس (Fitness) کے اعتبار سے قابلِ حرب و ضرب ہو۔ اس ری کالنگ میں ٹریننگ کا عرصہ مختلف ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات ایک ہفتہ اور بعض اوقات دو تین ہفتے۔
ریزروسٹ پول کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دشمن سے جنگ شروع ہو جائے تو حاضر سروس فوج کی وہ سپورٹ برقرار رکھی جائے جو میدان جنگ میں اترنے اور لڑنے والے افراد کو بالواسطہ تقویت (Augment) دیتی ہے۔ کوئی یونٹ جب محاذِ جنگ پر جاتی ہے تو اس کو محاذ پر مصروفِ جنگ رکھنے کے لئے لاجسٹک سپورٹ وغیرہ کا ایک بڑا حصہ درکار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک فوجی کو محاذ پر لڑنے کے لئے ایسے 26فوجیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اُسے میدانِ جنگ کے باہر عقب میں سپورٹ کرتے ہیں۔۔۔ یاد رہے کہ ان26افراد میں بعض لوگ وردی پوش ہوتے ہیں اور بعض وہ غیر وردی پوش کہ جن کو مسلح افواج کے بجٹ سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان حضرات کو (Civilians Paid out of Defence Fund) کا نام دیا جاتا ہے، یعنی یہ حضرات وردی نہ پہن کر بھی شریکِ کار زار تصور ہوتے ہیں اور اس سے آگے بڑھیں تو آج کل پوری کی پوری قوم کسی نہ کسی حوالے سے Nation at War کہلاتی ہے۔
جب فوج کا کوئی فرد (سپاہی، عہدیدار یا کمیشنڈ آفیسر) ریٹائر ہو جاتا ہے تو چونکہ وہ فوجی ماحول کی ہما ہمی سے دور ہو جاتا ہے اور غیر فوجی مصروفیات میں بھی گِھر جاتا ہے اسی لئے فوجی زندگی کے وہ معمولات جو قبل ازیں اُس کا اوڑھنا بچھونا بنے رہتے تھے، نیم فراموشی کی دھند میں لپٹ جاتے ہیں، لیکن یہ دھند اتنی دبیز نہیں ہوتی کہ جلد چھٹ نہ سکے۔ ان ریٹائرڈ فوجیوں کو اگر دو چار روز وردی پہنا کر از سر نو یونٹوں اور فارمیشنوں میں بھیج دیا جائے تو وہ15،20 سال کے اپنے گزشتہ عسکری تجربے کو ازسر نو یاد کرنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگاتے۔۔۔ ریزروسٹ ٹریننگ کے پیچھے یہی اصول کارفرما ہوتا ہے!
جس عزیز کا مَیں نے ذکر کیا اس کی یونٹ (انفنٹری بٹالین) ابھی حال ہی میں سوات/فاٹا سے لوٹی تھی۔ اس پوری یونٹ کو دہشت گردوں کے خلاف آپریٹ کرنے کا ’’وسیع‘‘ اور طویل تجربہ حاصل تھا۔ جنرل ہیڈ کوارٹر کے احکام کے مطابق اپنی باری آنے پر ہر ریٹائرڈ آفیسر کو ری کال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرے عہدیدار بھی ری کال ہوتے ہیں جن میں سپاہی سے لے کر جے سی او رینک تک کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ لاہور کینٹ کے جس ڈویژن نے ریٹائرڈ آفیسر کو ری کال کیا تھا، اس کی اپنی یونٹ اس ڈویژن کے زیر کمانڈ تھی۔ اس یونٹ کے 80افراد(سولجرز) کو بھی بلایا گیا تھا اور عرصۂ ٹریننگ 10روز رکھا گیا تھا۔
بظاہر تو یہ دس روزہ ’’ریفریشر کورس‘‘ کا دورانیہ کچھ ایسا طویل نظر نہیں آیا تھا، لیکن پہلے ایک دو روز ہی میں لوگ اپنے ماضی کو یاد کر کے بہت جلد زمان�ۂ حال میں لوٹ آتے ہیں اور پھر ہر قسم کی ٹریننگ کے لئے اُسی طرح تیار ہو جاتے ہیں جس طرح حاضر سروس افراد ہوتے ہیں۔
روٹین میں، ایک انفنٹری ڈویژن میں تین انفنٹری بریگیڈ ہوتے ہیں اور ہر انفنٹری بریگیڈ میں تین انفنٹری بٹالینیں ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک ڈویژن میں نو انفنٹری بٹالینیں ہوتی ہیں۔ پاکستان آرمی میں اگر آج بیس ڈویژن ہوں اور فاٹا/وزیرستان میں تین ڈویژن برسر پیکار ہوں تو ان کو نکال کر باقی17ڈویژن بچ جاتے ہیں۔ ان17ڈویژنوں میں روٹین کے طور پر51 انفنٹری بریگیڈ(3x17) ہوں گے اور ان 51 بریگیڈوں میں459 انفنٹری بٹالینیں(9X51) ہوں گی۔ اگر ایک انفنٹری بٹالین میں ایک ریٹائرڈ آفیسر اور 80ریٹائرڈ عہدیداروں کو ری کال کیا جائے تو ان کی کل تعداد 459 آفیسرز اور36720 سولجرز بن جاتی ہے۔ 37 ہزار سے زائد ان افسروں اور جوانوں/این سی اوز/جے سی اوز کو اگر دس دن کی قلیل مدت میں فوج میں شامل کرنے کے لئے تیار کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ فوج نے اپنی تعداد میں تین ڈویژنوں کا فوری اضافہ کر لیا ہے (ایک انفنٹری ڈویژن میں تقریباً10ہزار سے لے کر 12ہزار تک کی نفری ہوتی ہے۔ تین ڈویژن فوج کا اضافہ فوج کا ایک بڑا اثاثہ (Asset) ہیں۔۔۔۔
ذرا تصور کریں کہ اگر تین ڈویژنوں کو بیک وقت کھڑا(Raise) کرنا پڑے اس معیار کی ٹریننگ دینی پڑے کہ جس معیار کی اس ری کال شدہ نفری کی ہوتی ہے تو اس کے لئے کتنا عرصہ درکار ہوتا ہے۔۔۔ جنگ ہو رہی ہو تو نہ تو اتنی جلد زیادہ ڈویژن تشکیل دئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی ٹریننگ اتنی جلد کی جا سکتی ہے۔
پھر مَیں نے اُس عزیز سے یہ بھی دریافت کیا کہ جب تم ریٹائر ہوئے تھے تو کیا ہتھیاروں اور دیگر سازو سامان (Equipment) کی اقسام اور ان کا معیار بھی وہی تھا کہ جو آپ کو اس ری کال کے عرصہ میں دیکھنے کو ملا؟ اس کا جواب تھا کہ ہتھیار تو تقریباً وہی تھے مگر سازو سامان میں فرق تھا۔ مثلاً سٹیل ہیلمٹ جو چند سال پہلے یونٹوں کو ایشو کیا جاتا تھا وہ ایک عام سا ہیلمٹ ہوتا تھا جو پاکستانی فوجیوں کے سروں پر سجا ہوا کسی بھی جنگ کی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اب جو ہیلمٹ فوجیوں کو دیا گیا ہے (اور جن پر ریزروسٹ ٹریننگ بھی کی گئی ہے) اس میں قطب نما، (کمپاس) فِٹ ہوتا ہے جس سے آپ کو آگے بڑھنے، دائیں بائیں مڑنے اور پیچھے ہٹنے کی صورت میں راستے کی سمت معلوم ہوتی رہتی ہے۔ یہ کمپاس دن اور رات دونوں اوقات میں کارگر ہے۔ دوسری چیز جو اس ہیلمٹ میں فِٹ کی گئی ہے وہ رات کو دیکھنے والی وہ عینک ہے جس کو NVD یا (Night Vision Device)کہا جاتا ہے۔ رات کے گھپ اندھیرے میں بھی آپ کو50میٹر آگے کا ایریا بالکل صاف نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ اپنے ہمراہی سے فون پر بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ جہاں تک انفنٹری کے ذاتی ہتھیاروں کا تعلق ہے تو ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ جی تھری رائفل ہی انفنٹری سولجر کا موثر ترین ذاتی ہتھیار ہے۔میرا اگلا سوال یہ تھا کہ کون کون سے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی اور اس کے نتائج کیا نکلے؟
اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہم نے باقاعدہ Ranges پر جا کر دن کو اور ر ات کو بھی فائرنگ کی اور نتائج نہایت تسلی بخش تھے۔ اس نے بتایا کہ خود مَیں نے جو فائر کیا اُس سے7 انچ کا گروپ بنا۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ جتنے فائر کئے گئے وہ ٹارگٹ کے7 انچ کے دائرے میں لگے (اور یہ رزلٹ واقعی قابلِ ستائش کہا جا سکتا ہے)۔
مَیں نے پوچھا کہ ٹیکٹکس میں کوئی خاص تبدیلی آئی تو اس نے جواب دیا کہ اب ماضی کی نسبت لڑنے والے گروپس میں تعداد کم ہو گئی ہے۔ یعنی اگر پہلے کسی آپریشن میں ایک سیکشن(10افراد) کو بھیجا جاتا تھا تو اب صرف چار پانچ لوگوں کو بھیج کر بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔ یہ موضوع دراصل ایک بسیط موضوع ہے۔ کسی آپریشن میں زیادہ تعداد والے گروپس یا کم تعداد والے گروپس کو کسی مشن پر بھیجنا اور اس کے نتائج کا جائزہ لینا ایک دلچسپ پروفیشنل موضوع ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے (اور جاپانیوں نے بھی) چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ کر آزادانہ اور خود مختارانہ چھاپہ مار کارروائیوں وغیرہ میں جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ حیران کن تھیں۔۔۔ جہاں اتحادی اپنی ایک پلاٹون (30آدمی) بھیجتے تھے، وہاں جرمن اور جاپانی صرف تین آدمی بھیج کر دشمن کی پوری پلاٹون کو ’’صاف‘‘ کر دیتے تھے۔ جرمنوں نے اس ٹیکٹکس کا نام ’’ آفٹر آگس ٹیکٹک‘‘ (Auftragst Taktik) رکھا تھا۔ اس میں کئی خامیاں بھی تھیں۔ اس موضوع پر کسی اور کالم میں تفصیل سے بحث کی جائے گی۔ مطلب یہ تھا کہ آنے والے زمان�ۂ جنگ میں نہ صرف ہتھیاروں اور سازو سامان میں تبدیلیاں آئیں گی بلکہ جنگی حربوں/ چالوں (Tactics) میں بھی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔۔۔۔ اور ہاں یاد آیا اس عزیز نے یہ بھی بتایا کہ یہ سارا سازو سامان پاکستان خود اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تیار کر رہا ہے۔اس کو کسی بیرونی مُلک سے درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مثلاً اگر جدید ہیلمٹ ہی کو دیکھ لیں تو امریکی/ناٹو سولجر کو جو ہیلمٹ ایشو کئے جاتے ہیں، ان میں بہت سے دوسرے جدید سنسر اورGadgetsلگے ہوتے ہیں جو ان مخصوص جنگی سیاروں سے رہنمائی لیتے ہیں جو ان اقوام نے تخصیصاً فوجی مقاصد کے لئے خلا میں بھیج رکھے ہیں، لیکن پاکستان نے یہ دیکھنا ہے کہ اُس کا مقابلہ کس دشمن سے ہے اور اس کے پاس کس قسم کے ہتھیار اور کس طرح کا سازو سامان(Equipment) ہے۔
قارئین گرامی! اس ریزروسٹ ٹریننگ کی ایک اور خوش آئند خبر یہ بھی تھی کہ فوج نے جتنے افسروں/ سولجروں کو ری کال کیا، ان میں87فیصد نے لبیک کہا اور وقتِ مقررہ اور جائے معینہ پر رپورٹ کی۔۔۔۔ یہ ایک بڑی حوصلہ افزا بات ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قوم جب بھی اس ریزرو پول (Reseve Pool) کو آواز دے گی، اس کا87فیصد ہی نہیں، بلکہ اصل جنگ یا ہنگامی حالات کی صورت میں100فیصد حصہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے سربکف ہو گا!

مزید :

کالم -