خواہش ہے رئیل سٹیٹ ٹائیکون کے بجائے ویلفیئر ٹائیکون کے نام سے یاد رہوں ،ملک ریاض
معزز خواتین و حضرات ۔
اسلامی دنیا میں اسماعیلی نام کا ایک فرقہ ساڑھے بارہ سو سال سے چل رہا ہے، اس فرقے کی بنیادامام اسماعیل بن جعفر نے آٹھویں صدی عیسویں میں رکھی،یہ لوگ ڈیڑھ سو سال تک مصر کے بادشاہ بھی رہے، اسماعیلیوں کے دور کو فاطمی دور کہا جاتاہے، امام المعوذ اسماعیلیوں کے چودھویں امام تھے، امام المعوذ نے ہزار سال قبل اسلامی دنیا میں ایک کارنامہ سر انجام دیا، انہوں نے قاہرہ میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، یہ یونیورسٹی آج بھی قائم ہے ، اس کو آج ایک ہزار تینتالیس سال گزر چکے ہیں، یہ یونیورسٹی الازہر کہلاتی ہے اور یہ اسلامی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے ، یہ یونیورسٹی آج بھی قائم ہے، یہ آج بھی اسلامی دنیا کے تاج کا کوہ نور ہے۔
خواتین و حضرات تعلیم اتنی مقدس، اتنی عظیم چیز ہوتی ہے ، لوگ امام کے نام بھول جاتے ہیں لیکن یونیورسٹیوں کے نام زندہ بھی رہتے ہیں اور یاد بھی ، میں اپنی بات آگے بڑھانے سے قبل یہاں یونیورسٹیوں کاعالمی ڈیٹا آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں،امریکا میں اس وقت 5ہزار7سو اٹھاون بڑی یونیورسٹیاں ہیں،بھارت میں ان کی تعداد8ہزار 4سو ساٹھ ہے، جاپان میں 1223، جبکہ ان ملکوں کے مقابلے میں58اسلامی ملکوں میں صرف500یونیورسٹیاں ہیں،آپ مزید ڈیٹابھی ملاحظہ کیجیے، عیسائی دنیا کی نوے فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے جبکہ صرف 27فیصد مسلمان تعلیم یافتہ ہیں،عیسائی دنیا کے 40فیصد طالب علم یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے صرف دو فیصد نوجوان یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہیں،امریکامیں دس لاکھ شہریوں میں سے 4ہزار اور جاپان کے دس لاکھ میں5ہزار نوجوان سائنس دان بنتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے 21لاکھ لوگوں میں سے صرف230لوگ سائنس کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں،امریکا میں اس وقت 22لاکھ فل ٹائم ریسرچ اسکالرز ہیں جبکہ22ممالک پر مشتمل پوری عرب دنیامیں ان کی تعدادصرف35ہزار ہے،یورپ اپنی آمدنی کا 5فیصد تحقیق اور تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جبکہ اسلامی دنیا تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا صرف اعشائیہ دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے،دنیا کی ان دو سو عظیم یونیورسٹیوں میں دو یونیورسٹیاں اسلامی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں ایک ترکی کی مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے جبکہ دوسری سعودی عرب کی کنگ سعودی یونیورسٹی ہے۔ امریکہ اپنے جی ڈی پی کا دو اعشائیہ چھ فیصد اعلیٰ تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جبکہ پوری اسلامی دنیا صرف اعشائیہ دو فیصد رقم تعلیم پر خرچ کرتی ہے ۔ہم لوگ زندگی بھر اللہ تعالیٰ کو بڑی بڑی عبادتوں اوربڑی بڑی خدمتوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں،ہم اسے مسجدوں میں تلاش کرتے ہیں، ہم اسے قرآن مجید میں کھوجتے ہیں، اور ہم اس تک پہنچنے، اس کو پانے کے لئے بڑے بڑے ہسپتال ، بڑے بڑے خیراتی ادارے اوربڑے بڑے دار الامان بناتے ہیں لیکن ہمارا خدا ہماری زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات،ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیوں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے کاموں میں ہمارا انتظارکرتارہتاہے، وہ خداجس تک پہنچنے کے لئے دنیا کے پرہیزگارپوری زندگی سجدے کرتے ہیں اور جسے پانے کے لئے متقی عمر بھر روزے رکھتے ہیں وہ خدا انسانوں کوپانی کے ایک گلاس، ایک وقت کی روٹی، ایک چادر اور سردیوں کی منجمد راتوں میں ایک رضائی کے بدلے مل سکتاہے وہ صدیوں سے ہمارا انتظارکررہاہے، ہم
اللہ تعالیٰ کی جس رحمت اور جس کرم کو قبلوں اورکعبوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں،اللہ کی وہ رحمت اور وہ کرم اس کے بندوں کی چھوٹی چھوٹی امیدوں اور چھوٹی چھوٹی حسرتوں میں چھپی رہتی ہے،مجھے محسوس ہوا خدا تک پہنچنے کے تمام راستے اس کی مظلوم،بے بس اور نادارمخلوق کے دل سے گزرتے ہیں اور یہ راستے کبھی فقط چند روپے اورکبھی پانی کے ایک گلاس کے عوض کھل جاتے ہیں، مجھے محسوس ہوا خدا ہمیشہ چھوٹے لوگوں کے دلوں میں رہتاہے اور جب تک ہم ان لوگوں کے دلوں پر دستک نہیں دیتے اور جب تک ان لوگوں کا دل ہمارے لئے نہیں کھلتا اس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ پاتے۔میں نے برسوں پہلے اپنے ’’بابے‘‘سے پوچھا تھا ’’لوگ غریب، مسکین، نادار اور بیمار کیوں ہوتے ہیں‘‘میرے بابے نے حیرت سے میری طرف دیکھا تھا، میں نے عرض کیا تھا ، ’’ہم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں،اللہ تعالیٰ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے خلئے میں جنم لینے والی تکلیف تک سے واقف ہوتاہے، وہ یہ جانتا ہے کس شخص میں تکلیف برداشت کرنے کی کتنی ہمت اور سکت ہے اور دنیابھر کے مسکین ، نادار،غریب اوربیماربھی اللہ تعالیٰ کے در پر گڑگڑاتے رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے مسائل حل کیوں نہیں کردیتا،وہ انہیں شفا ء کیوں نہیں دیتا، وہ ان کی غربت اور ناداری دورکیوں نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ ان بے بس لوگوں کاامتحان کیوں لیتاہے؟‘‘میرے بابے نے قہقہہ لگایا تھا اور اس کے بعد فرمایا تھا،‘‘اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا امتحان نہیں لیتا ،وہ ان لوگوں کے ذریعے معاشرے کے صحت مند،صاحب ثروت، بااختیار،بااقتداراورباوسیلہ لوگوں کا امتحان لیتا ہے، اگرکسی محلے میں کوئی بیمارشخص دواکوترستاہوامرجاتاہے تو اس کی موت اس محلے کے تمام با وسیلہ، با اقتدار،بااختیاراوردولت مند لوگوں کا امتحان ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس موت کا ذمہ دار ان تمام لوگوں کوسمجھتاہے اور حشر کے دن ان تمام لوگوں کو اس غفلت، اس کنجوسی اور اس بے حسی کا جواب دینا پڑے گا ’’میرے بابوجی بولے‘‘یہ وہ حقیقت ہے جس سے حضرت عمرؓ واقف تھے چنانچہ انہوں نے فرمایا تھا، اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو قیامت کے دن میں اس کا ذمہ دار ٹھہرایاجاؤں گا،حضرت عمرؓ جانتے تھے ان کی سلطنت کے تمام مساکین،غریب ،ناداراوربیمار حتیٰ کہ جانوروں تک ان کی ذمہ داری اور ان کے اقتدار کا امتحان ہیں، میرے بابے نے کہا تھا ’’اگر اللہ تعالیٰ کے امتحان میں پاس ہونا چاہتے ہو تو آگے پیچھے نظررکھا کرو، لوگوں کی حاجتیں پوری کیا کرو‘‘۔ میں نے واشنگٹن پوسٹ میں بل گیٹس کی آخری تقریر پڑھی تو میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، آپ ذرا سوچئے خیرات ،صدقہ اور فلاح و بہبود اسلام میں عبادت کی حیثیت رکھتی ہے لیکن دنیا کے سب سے بڑے مخیر کا اعزاز کسی مسلمان کو نصیب نہ ہوا، دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں تین مسلمان بھی شامل تھے لیکن لوگوں کی خدمت کرنے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے بل گیٹس کو عطا فرمائی۔ آپ سوچئے دنیا کا پانچواں امیر ترین شخص ایک عرب مسلمان شہزادہ ولید بن طلال ہے، ا س کی دولت جوا خانوں میں خرچ ہو رہی ہے جبکہ بل گیٹس اپنی دولت ایڈز کے علاج پر خرچ کر رہا ہے، وہ مسلمان بچوں کوتعلیم دے رہا ہے،آپ سوچئے کیا یہ بل گیٹس جیسے لوگ نہیں ہیں جنہیں حقیقتاً رول ماڈل سمجھنا چاہیے،ذراسوچئے پوری اسلامی دنیا رئیس لوگوں سے بھری پڑی ہے،اسلامی دنیا میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو ہیروں کی کئی کئی کانوں کے مالک ہیں، جن کی زمینوں
سے سونانکلتاہے اورجو تیل کے درجنوں کنوؤں کے مالک ہیں لیکن انہیں کسی ضرورت مند کو دس روپے دینے کی توفیق نہیں ہوتی جبکہ بل گیٹس اپنی ساری دولت لے کر ضرورت مندوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہے، میں نے سوچا 62اسلامی ممالک کی اس دنیا میں ایک ارب45کروڑمسلمان آباد ہیں لیکن ان ڈیڑھ ارب لوگوں میں ایک بھی بل گیٹس نہیں،ان میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو53سال کی عمر میں اپنی کمپنی کا دروازہ کھولے اور اپنا سارا مال، اپنی ساری زندگی اللہ کے بندوں کے لئے وقف کر دے، جو لوگوں میں دوا اور کتاب بانٹے،جولوگوں کے زخم دھوئے، جو لوگوں کو کھانا کھلائے اور جو لوگوں کے آنسو پونچھے، میں ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھتا تھا عالم اسلام پر یورپ اور امریکہ کیوں غالب ہیں؟ مجھے آج معلوم ہوا امریکہ اور یورپ بل گیٹس جیسے لوگوں کی وجہ سے ہم پر غالب ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے پاس بڑے انسان ہیں جبکہ عالم اسلام بڑے تاجروں،بڑے بیوپاریوں اوربڑے صنعتکار کی غلامی میں زندگی گزار رہا ہے۔ مجھے محسوس ہوا مغرب کے پاس انسان ہیں جبکہ ہم لوگ آدمیوں کی چاکری میں عمر گزاررہے ہیں، کاش پاکستان کے سو ارب پتی تاجر بل گیٹس سے سبق سیکھیں اور آج سے اپنا وقت اور سرمایہ غریب لوگوں کے لئے وقف کر دیں،کاش اللہ تعالیٰ مسلمان تاجروں کو بھی بل گیٹس جیسا ظرف اور توفیق دے ،کاش!میں میٹرک پاس ہوں،مجھ پر بس اللہ کا کرم اور اللہ کا فضل ہے میں آج آپ کے سامنے کھڑا ہوں لیکن میں بھی جب یہ صورتحال دیکھتا تھا تو میرا سر شرم سے جھک جاتا تھا، میں نے اپنے اس جھکے ہوئے سر کو اٹھانے کے لئے ملک میں دو کام کرنے کا فیصلہ کیا ، میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت بحریہ ٹاؤن کے اسکولوں میں22600بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔میں نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی مسجدیں بنانی شروع کردیں،لاہورمیں دنیا کی ساتویں بڑی مسجد بنائی اور کراچی میں ہم اب دنیا کی تیسری مسجد بنا رہے ہیں جس میںآٹھ لاکھ نمازی بر وقت نمازاداکرسکیں گے اورمیں نے اس کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹیاں بناناشروع کر دیں،ہم آج ملک کی اس پہلی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں،یہ یونیورسٹی محترم الطاف حسین کے نام سے شروع ہو رہی ہے،کاش الطاف حسین کی تقلید کرتے ہوئے ملک کے دوسرے لیڈر بھی اپنے اپنے ناموں سے یونیورسٹیاں بنائیں۔خواتین وحضرات میری دلی خواہش ہے میں دنیامیں ڈویلپریارئیل اسٹیٹ ٹائی کون کے بجائے،ویلفیئرٹائیکون کے نام سے یاد رہوں۔