حافظ سعید کی نظربندی کا فیصلہ!

حافظ سعید کی نظربندی کا فیصلہ!
 حافظ سعید کی نظربندی کا فیصلہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حافظ سعید اور ان کے چار رفقائے کار کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے اور جماعت الدعوٰۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس موضوع پر منگل کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کھل کر بات کی اور میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے کئی چبھتے ہوئے سوالوں کا بھرپور اور تسلی بخش جواب دیا۔اس سے ایک روز پہلے وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی ہوئی جس میں اندرونی، سلامتی اور بین الاقوامی سطوح پر پاکستان کو لاحق سیکیورٹی خدشات پر بات چیت ہوئی۔31 جنوری (منگل وار) کی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے حافظ سعید اور ان کے زیر سایہ چلنے والی تنظیموں پر پابندی کو علاقائی عینک کی نظر سے زیادہ اور بین الاقوامی عینک کی نظر سے کم دیکھنے کی کوشش کی ہے حالانکہ بنگاہِ غائر دیکھا جائے تو یہ ترتیب الٹ ہوگی یعنی موخر الذکر موضوع کو مقدم الذکر پر ترجیح ہوگی۔ اگر حکومت کے اس اقدام کو علاقائی (ریجنل) تناظر میں دیکھا جائے تو بادی النظر میں اس پابندی کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ انڈیا نے پاکستان پر کون سا نیا دباؤ ڈالا تھا اور پاکستان نے کون سا دباؤ قبول کرنے کا عندیہ دیا تھا کہ جماعت الدعوٰۃ اور اس کے امیر پر اچانک یہ قدغن عائد کی گئی۔ ہاں بین الاقوامی تناظر میں ایک نئی ڈویلپ منٹ ضرور ہوئی ہے اور شائد اسی حوالے سے جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ حافظ سعید کی نظر بندی کا فیصلہ ایک پالیسی فیصلہ ہے۔۔۔ یہ پالیسی فیصلہ کیا ہوتا ہے اور اس کی تشریح و توضیح کیا ہے تو اس پر کسی زیادہ گہرے غوروخوض کی ضرورت نہیں۔ حکومت، عدلیہ اورملٹری اگر کوئی فیصلہ اتفاق رائے سے کریں تو یہ پالیسی فیصلہ کہلاتا ہے۔ عدلیہ چونکہ فوری طور پر اس پراسس کا حصہ نہیں بنتی اور اس کے فیصلے کے اثرات کسی ایکشن کے بعد ہی سامنے آتے ہیں اس لئے پارلیمانی حکومت اور ملٹری دو ایسے ادارے ہیں جن کو کسی بڑے ایشو پر ایک ہی صفحہ پر ہونا چاہیے۔ جب یہ ادارے اس حیثیت میں کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو یہ پالیسی فیصلہ کہلاتا ہے۔


پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے ماضی و حال پر نظر ڈالی جائے تو یہ روزِ اول سے ہی ہمسائیگانہ نہیں، دشمنانہ رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین کی پالیسی یہ تھی کہ ایک دوسرے کے نقطہ ء نظر کو ’’تعاون‘‘ کے بجائے ’’تصادم‘‘ کی نظر سے دیکھنا ہے۔ عین مین یہی بات اگست 1947ء سے لے کر آج تک پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ اور جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کا سوال ہے تو اس مسئلے پر مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات ’’باری باری‘‘ نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ امریکہ کا ایک رخ تو یہ تھا کہ کبھی پاکستان کو ناٹو سے باہر ایک فطری اتحادی کہا گیا اور کبھی امریکی فارن پالیسی کے تناظر میں پاکستان کو ایک بنیادی پتھر (کارنر سٹون) کے خطاب سے یاد کیا جاتا رہا۔۔۔ اوردوسرا رخ ہمیں پاک بھارت جنگوں کے فوراً پہلے اور فوراً بعد امریکی اقدامات کی صورت میں دیکھنے کو ملتا رہا۔ کبھی یہ کہا گیا کہ ہم پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے ،کبھی پاک افغان سرحد پر ہماری آؤٹ پوسٹ پر حملہ کرکے درجنوں ٹروپس کو شہید کر دیا گیا، کبھی ایبٹ آباد پر شب خون مارا گیا، کبھی ڈومور (Do More) کی رٹ لگائی گئی اور کبھی ڈرون حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں ہزاروں پاکستانی سویلین عورتوں، مردوں، بزرگوں، نوجوانوں اور معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا۔۔۔گاجر اور چھڑی کی اصطلاح میں چھڑی موٹی بھی تھی اور سخت بھی جبکہ گاجر نہائت باریک اور کبھی کبھار ہی دیکھنے اور چکھنے کو ملتی تھی۔
اگر پاک امریکہ تعلقات کو آج کے سٹرٹیجک ترازو میں تولنا ہو تو امریکہ اور انڈیا ایک پلڑے میں ہوں گے اور پاکستان دوسرے پلڑے میں ہوگا۔ ایسے میں نئے صدر امریکہ کی حالیہ ’’تاجپوشی‘‘ نے ایک نئی ہل چل مچا دی ہے جس کے گوناگوں اثرات مستقبل قریب میں دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔


آج امریکہ اور پاکستان کے درمیان جن امور پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے ان کی بہت سی جہتیں ہیں جن کی گہرائی اور گیرائی مختلف ہے۔ مثلاً (1) پاک چین تعلقات۔۔۔ (2) پاک بھارت تعلقات۔۔۔ (3) پاک افغان تعلقات ۔۔۔(4) پاکستان کی مبینہ دہشت گرد تنظیمیں جو پابندی لگنے کے بعد بھی فعال کہی جاتی ہیں۔۔۔(5) مولانا مسعود اظہر کا کیس جو جیشِ محمد کے سربراہ ہیں۔۔۔(6) ڈاکٹر شاہد آفریدی کا مقدمہ جس نے اسامہ بن لادن کی نشاندہی میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔۔۔اور (7)حقانی نیٹ ورک کی موجودگی یا عدم موجودگی اور فعالیت یا عدم فعالیت کا افسانہ!


میرے اندازے کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا جرم چین (اور روس) کو بحرہند تک لانا ہے۔ سی پیک (CPEC) منصوبے کا لب لباب ، گوادر کی بندرگاہ کو مستقبل میں ایک مضبوط کمرشل گڑھ اور قوی تر بحری مستقر (Navel Base) کی شکل میں ابھرتا ہوا دیکھنا ہے۔ اس منصوبے کے سٹرٹیجک اثرات یہ نظر آ رہے ہیں کہ یا تو امریکہ کی طرف سے بحرہند کو بحرالکاہل کی طرح ایک امریکی بحر بنا دینے کی کوشش کی جائے گی جس میں امریکہ کا مد مقابل چین ہوگا کہ چین کی تیل اور دوسری درآمدات و برآمدات کا بیشتر انحصار بحرہند کے پانیوں پر ہوگا۔ بحرہند کو دنیا کے باقی دوبحور (Oceans) یعنی بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کی طرح ملٹرائز کرنا پڑے گا جس کے اخراجات امریکہ کے لئے ایک نیا دردِ سر بن رہے ہیں۔ اسے کم از کم تین چار مزید طیارہ بردار گروپس تشکیل دینے پڑیں گے، مزید میرین ٹروپس کھڑے (Raise) کرنے پڑیں گے اور اس عظیم آبی گزرگاہ کو چین اور روس کی کمرشل گزرگاہ بننے سے روکنے کے لئے بہت سے اضافی سیکیورٹی اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔ یہ اقدامات اگر چہ مستقبل کا حصہ ہوں گے لیکن اسے مستقبل بعید کی بجائے مستقبل قریب میں برؤے عمل لانے کا چیلنج امریکہ کو درپیش ہوگا جس میں پاکستان اور اس کی لوکیشن ایک اہم رول ادا کرے گی!


لیکن جس طرح صدر ٹرمپ کو ’’امریکہ پہلے‘‘ کی فکر ہے اسی طرح پاکستانی قیادت کو بھی ’’پاکستان پہلے‘‘ کی تشویش ہے۔ امریکہ نے سات مسلم ممالک پر داخلے کی جو پابندیاں لگائی ہیں ان کے رد عمل کے طور پر پاکستان کے پاس کوئی ایسا جوابی رد عمل نہیں ہوگا جو امریکہ کو بھی اسی طرح مجروح (Hurt) کرسکے جس طرح پاکستان کے مجروح ہونے کے امکانات ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کی مساوات میں پاکستان بری طرح امریکہ سے پیچھے ہے۔ بہت سے پاکستانی مفادات ایسے ہیں جو زیادہ تر براہ راست یا کمتر سکیل پر بالواسطہ امریکہ سے وابستہ ہیں۔ امریکہ اگر آج پاکستانیوں پر ویزے کی پابندیاں لگا دیتا ہے اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو ’’ٹرمپ دور‘‘ کی عاجلانہ شروعات دیکھ کر یہ توقع کرنے میں کوئی ’’ہرج‘‘ نہیں کہ اس دھمکی کو عملی شکل اختیار کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی شہری بے شک اپنے آپ کو ’’امریکی‘‘ سمجھتے ہوں گے لیکن امریکی صدر ان کو ’’ٹرمپ‘‘ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے!


سوال یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد کتنی ہے، پاکستانی طلباوطالبات جو ہر سال امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کا رخ کرتے ہیں، ان کی تعداد کیا ہے، کتنے لوگ ہیں جو وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں Settle ہونے کی ترجیح دیتے ہیں، کتنے ہیں جو ازراہِ مجبوری واپس آتے ہیں اور چونکہ ان کو پاکستان آنے کے بعد کام کاج کا وہ ماحول میسر نہیں ہوتا جو امریکہ میں ہوتا تھا تو ان کو اس سے جو نفسیاتی جھٹکا لگتا ہے اس کا کیف و کم کیا ہے، جو طلبا امریکہ سے واپس نہیں آتے تو اس برین ڈرین کا پاکستان کو کیا نقصان ہوتا ہے اور آیا ہم اس نقصان کا کچھ احساس وادراک بھی رکھتے ہیں یا نہیں، وہ شعبے کون کون سے ہیں جن میں پاکستانیوں کی زیادہ تعداد وہاں جاتی ہے ، یہ پاکستانی جب وہاں جا کر انڈیا کے زیر تعلیم طلبا و طالبات سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کیا ہوتی ہے اور ان کو واپس پاکستان جا کر اپنے جذبۂ حب الوطنی کو نئے سرے سے استوار کرنے میں کس جذباتی کرب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ یہ تمام موضوعات ہم پاکستانیوں کی گہری اور سنجیدہ توجہ مانگتے ہیں اور ان پر کالموں کا ایک سلسلہ لکھنے کی ضرورت ہے۔


میرے کئی عزیز آج کل امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔ (آپ کے بھی ہوں گے)۔وہ جب بھی واپس آتے ہیں تو میں ان سے ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا کرتا ہوں اور یہ جان کر دل گرفتہ ہو جاتا ہوں کہ ہماری قوم کے نوجوانوں کی اپروچ پر بھارتی طلبا و طالبات کی اپروچ کیسے کیسے منفی اثرات ڈالتی ہے۔ میں اگرچہ ان کو قومی تقاضوں اور حب الوطنی کا درس دینے کی لاکھ کوشش کرتا ہوں لیکن ان کا استدلال اتنا قوی ہوتا ہے کہ میں بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
آپ انٹر نیٹ پر جاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آج امریکہ کے طول و عرض میں غیر ملکی طلبا و طالبات کی کل تعداد تقریباً دس لاکھ ہے، امریکہ کی کل آبادی تقر یباً 30کروڑ ہے۔ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ تعداد دنیا بھر میں کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ ایسا کیوں ہے اس کا جواب جاننے کے لئے امریکہ میں علم و ہنر (سائنس اور ٹیکنالوجی) کی برتری تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ امریکہ کے بعد انگلستان اور اس کے بعد آسٹریلیا کانمبر آتا ہے۔ امریکہ میں 23فیصد، انگلستان (UK) میں 10فی صد اور آسٹریلیا میں دنیا کے 6فیصد طلبا اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر کوئی حیرانی نہ ہوئی کہ امریکہ میں باہر کے ممالک سے آکر تعلیم پانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد چین سے آتی ہے جن کی تعداد (10لاکھ کی کل تعداد میں) تین لاکھ ہے۔ اس کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے جس کے ایک لاکھ 33ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں۔ حیرانی اگر ہے تو اس بات پر ہے کہ جنوبی کوریا اور سعودی عرب سے 60,60ہزار طلبا آکر تعلیم پا رہے ہیں۔ اور اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ پاکستانی طلباء کی کل تعداد جو آج امریکہ میں زیر تعلیم ہے وہ صرف 5354ہے تو کیا آپ کو حیرانی نہ ہوگی؟۔۔۔ امریکہ نے جن سات مسلم ممالک کے تارکین وطن پر پابندی لگائی ہے اسی میں ایران بھی شامل ہے جس کے 14ہزار سٹوڈنٹ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر امریکہ پاکستان پر بھی کوئی پابندی عائد کرتا ہے تو دیکھنا پڑے گا کہ ہم من حیث القوم اس پابندی سے کتنے متاثر ہوں گے!


حافظ سعید اور ان کی تنظیموں پر پابندی لگانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس میں ٹرمپ اور ان کی ایڈمنسٹریشن کا یہ قیاس کہ پاکستان میں ریڈیکل اسلامائزیشن کی ایک ساز گار فضا موجود ہے برحق ہے یا ناحق ہے اس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں ۔ لیکن اگر ہم پاکستانی اپنے موقف کو درست بھی سمجھتے ہوں تو بھی پاکستان کے غالب مفادات (Larger Interests) کی خاطر ہمیں اس پابندی کو موضوعِ تنقید نہیں بنانا چاہئے اور حکومت کے اس ’’پالیسی فیصلے‘‘ پر صادر کرنا چاہئے!

مزید :

کالم -