کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کا پُرامن حل

کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کا پُرامن حل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فلسطین کے صدر محمود عباس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے۔انہوں نے اِس مسئلے کے حل کے لئے پاک بھارت مذاکرات کی حمایت کی۔ فلسطینی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے فلسطین کی1967ء سے قبل کی سرحدیں بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر فورم پر فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھے گا۔ مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا، ہم اِس سلسلے میں عالمی برادری کی مخلصانہ کوششوں کے بھی خواہاں ہیں۔ مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر دیرینہ مسئلہ ہے اور یہ عملی حل کا متقاضی ہے۔ قبل ازیں فلسطینی صدر محمود عباس اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات میں اِس امر پر اتفاق کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا منصفانہ اور جلد حل ہی دُنیا میں امن و خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے، دونوں رہنماؤں نے اِس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو فلسطینی حدود کے اندر ناجائز تعمیرات سے ر وکا جائے اور فلسطین کے مسئلے کا حل نکالا جائے۔
فلسطین اور کشمیر کے مسائل کم و بیش ایک ہی وقت میں شروع ہوئے اور اسرائیل اور بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اب تک لاینحل چلے آ رہے ہیں دونوں مسئلے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ستر سال سے موجود ہیں اور عالمی ادارے کی قراردادوں کے باوجود اِن کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا، فلسطینی علاقے میں یہودیوں کو ایک سازش کے تحت آباد کیا گیا اور جب سالہا سال تک جاری رہنے والے اِس عمل کے نتیجے میں یہودی فلسطینیوں کی زمینوں پر قابض ہو گئے تو اِس علاقے میں اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کر دی گئی، جو اپنے قیام سے لے کر اب تک غاصبانہ طریقے سے توسیع پسندی کے راستے پر گامزن ہے، مختلف جنگوں کے دور ان اسرائیل نے فلسطین، شام اور اُردن کے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا وہ آج تک خالی نہیں کئے گئے۔ البتہ مصر نے اسرائیل کے ساتھ الگ سے معاہدہ کر کے اپنے علاقے خالی کرا لئے۔ یہ معاہدہ کیمپ ڈیوڈ میں امریکہ کی کوششوں سے ہوا۔ اس کے نتیجے میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے سفارتی تعلقات قائم کر لئے، اِس کے بعد مصر کی پالیسی دوسرے عرب ممالک سے مختلف ہو گئی۔
شروع شروع میں مغربی طاقتیں اسرائیل کی جا و بے جا حمایت پر کمر بستہ رہتی تھیں،لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن ریاستوں میں بھی یہ فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ آزاد فلسطین کے قیام کے بغیر خطے میں امن کا قیام محال ہے،چنانچہ ان میں سے بیشتر مُلک اب امن کے قیام کی خاطر آزاد فلسطین کے قیام کے حامی ہو گئے ہیں۔ فرانس میں حال ہی میں اِس سلسلے میں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی ہوا، صدر اوباما کے دور تک امریکہ اِس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونی چاہئے، جس کی سرحدیں1967ء میں اسرائیلی علاقوں کی توسیع سے پہلے کے علاقوں پر مشتمل ہوں۔ صدر اوباما اِس مقصد کے لئے بھرپور کوششیں کرتے رہے تاہم اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے امریکہ کو اِس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
سلامتی کونسل نے حال ہی میں ایک قرارداد بھی منظور کی ہے،جس میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقے میں یہودی بستیاں بسانے سے باز رہے،امریکہ چاہتا تو پہلے کی طرح اِس قرارداد کو ویٹو کر سکتا تھا، لیکن طویل عرصے میں پہلی مرتبہ اُس نے ایسا نہیں کیا، جس پر وزیراعظم نیتن یاہو سمیت پوری اسرائیلی قیادت سیخ پا تھی۔ البتہ اوباما انتظامیہ اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور اوباما کے وزیر خارجہ جان کیری نے اپنی ایک طویل پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ فلسطینی ریاست کا قیام امن کے لئے کیوں ضروری ہے اور اسرائیل کو یہ مطالبہ مان لینا چاہئے۔ اس پر نئے امریکی صدر ٹرمپ بھی بہت پریشان تھے اور انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کو پیغام بھیجا کہ وہ اُن کے اقتدار سنبھالنے کا انتظار کریں،چنانچہ اسرائیل ٹرمپ کے عہدہ سنبھالتے ہی فلسطینی علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر شروع کر چکا ہے اور خود ٹرمپ نے اپنے ایک عشرے کے اقتدار کے دوران ایسے ایسے اقدامات اُٹھا دیئے ہیں، جن پر امریکہ کے اندر اور باہر ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔یہ اندازہ بہرحال لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کے پورے عہد میں اسرائیلی کُھل کھیلیں گے اور فلسطینی ریاست کے قیام کو امریکہ کی حمایت حاصل نہیں ہو سکے گی، بلکہ ٹرمپ تو پہلی فرصت میں اپنے مُلک کا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے لئے بے قرار ہیں۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے یہ بھی ایک قوم کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے اور یہ حق خود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر خود لے جا کر عالمی برادری کے روبرو تسلیم کیا تھا،لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اپنے اِس وعدے سے پہلو تہی کرنے لگا اور اب تو بھارت یہ تک کہنے کی جسارت کر رہا ہے کہ کشمیر کا کوئی مسئلہ ہی نہیں، تاہم یہ بھارتی دعویٰ زمینی حقائق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر یہ کوئی مسئلہ نہ ہوتا تو آٹھ لاکھ بھارتی فوج وادئ کشمیر میں جمع نہ ہوتی،مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے بھارت اب کشمیر میں ’’سینک کالونیاں‘‘ بنا رہا ہے جن میں سابق فوجیوں کو بسایا جائے گا، اِس اقدام کے دو مقصد ہیں ایک تو سابق فوجیوں کو کشمیری شہری ظاہر کر کے ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے اور دوسرے انہی سابق فوجیوں کے ذریعے کشمیری عوام کی جاسوسی کی جائے گی،جن کی تحریک آزادی اِس وقت جوبن پر ہے اور گزشتہ چھ ماہ میں کرفیو کے باوجود پوری وادی میں بھارت مخالف جلوسوں اور مظاہروں کو روکا نہیں جا سکا، کشمیری عوام پاکستان کا پرچم بلند کرتے اور آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اس تحریک کو بھارت نے تشدد کے ذریعے دبانے کی پوری کوشش کی،لیکن اس میں اسے ناکامی ہوئی، تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اب بھی یہ تحریک کامیابی سے جاری ہے۔ بھارت نے ایک خصوصی کمیشن بھی کشمیر بھیجا تھا، جس کی رپورٹ بھی بھارتی حکومت کے لئے باعثِ پشیمانی ہے، اس رپورٹ میں اُن عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے، جن کی وجہ سے تحریک آزادئ کشمیر پر قابو پانا بھارتی فوج کے لئے ممکن نہیں ہو رہا، اِس لئے بھارت کا یہ دعویٰ بہرحال باطل ثابت ہو چکا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا۔
فلسطینی صدر محمود عباس اور وزیراعظم نواز شریف نے عالمی امن کی خاطر مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین حل کرنے پر جو زور دیا ہے وہ وقت کی آواز ہے۔ ایک مسئلے کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کا خِرمن امن برباد ہونے کا خدشہ ہے تو دوسرا جنوبی ایشیا میں ایٹمی فلیش پوائنٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ان دونوں خطوں میں اربوں لوگوں کی خوشحالی اسی لئے رکی ہوئی ہے کہ خطے کے وسائل، حرب و ضرب پر خرچ ہو رہے ہیں اگر یہ دونوں مسئلے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو جائیں، تو نہ صرف اِن خطوں، بلکہ عالمی امن کی بھی ضمانت مل سکتی ہے۔ فلسطینی صدر اور وزیراعظم پاکستان نے بروقت ان دونوں مسئلوں کی جانب عالمی توجہ مبذول کرائی ہے۔

مزید :

اداریہ -