مولانا بخش چانڈیو اور سعید غنی نے تسلسل کے ساتھ وفاقی حکومت کو ہدف بنائے رکھا
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ہے کہ مولا بخش چانڈیو، سینیٹر سعید غنی اور اصغر جونیجو کو عہدوں سے ہٹا کر دو روز میں عدالت کو بتایا جائے کہ ان مشیروں کو کتنی تنخواہیں، مراعات اور اختیارات دئیے گئے ہیں، چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے مرتضیٰ وہاب سے مشیر قانون کی حیثیت سے قلمدان واپس لینے کے سلسلے میں کیس کی سماعت کی، دوران سماعت عدالت میں نوٹیفکیشن جمع کرا دیا گیا جس میں مرتضیٰ وہاب سے مشیر قانون کا عہدہ واپس لیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تین دیگر مشیر مولا بخش چانڈیو، سینیٹر سعید غنی اور اصغر جونیجو بھی مختلف محکمے چلا رہے ہیں۔ ان کو بھی عہدوں سے ہٹایا جائے، عدالت کا کہنا تھا کہ ایک مشیر جو سندھ میں وزارتیں چلا رہا ہے، وہ بارہ لاکھ اسی ہزار روپے تنخواہ اور مراعات کی مد میں لے رہا ہے۔ یہ تمام پیسہ ہمارا اور عوام کا پیسہ ہے، لیکن حکومت نے اپنے من پسند لوگوں کو وزارتیں دے رکھی ہیں۔ لہٰذا ان سے یہ وزارتیں واپس لی جائیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ دو ماہ قبل یہ لکھ دیا تھا کہ کوئی بھی مشیر عوامی عہدہ، وزارت یا مراعات وصول نہیں کرسکتا، اس لئے سندھ حکومت کے تمام مشیروں کی تنخواہیں اور مراعات واپس لی جائیں۔
سندھ حکومت کے مشیروں کو ہٹانے کے سلسلے میں فاضل چیف جسٹس کا حکم تو اپنی جگہ ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے اندر گڈ گورننس ہے؟ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں اور مسلسل وفاقی حکومت کے لتے بھی لئے جاتے ہیں لیکن اس کا اپنا دامن اس سلسلے میں خاصا تہی ہے۔ مولا بخش چانڈیو اور سینیٹر سعید غنی روزانہ کسی نہ کسی چینل پر بیٹھ کر وفاقی حکومت کی کارکردگی کو ہی ہدف تنقید بناتے ہیں، لیکن غالباً انہوں نے اس حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی کبھی کوشش نہیں کی جس کی مشاورت کے منصب پر وہ فائز ہیں اور اگر فاضل چیف جسٹس انہیں ہٹانے کا حکم نہ دیتے تو انہیں کوئی ہٹانے والا نہیں تھا، کیونکہ انہیں یہ منصب کسی عوامی خدمت کے لئے تو نہیں دیا گیا تھا جو کام انہیں سونپا گیا تھا، وہ بطریق احسن ادا کر رہے تھے۔ وفاقی حکومت پر نکتہ چینی کا فریضہ تو وہ اب بھی ادا کرتے رہیں گے لیکن اب انہیں یہ کام رضاکارانہ طور پر کرنا پڑے گا اور پہلے کی طرح تنخواہ اور مراعات نہیں ملیں گی۔
صوبائی دارالحکومت کراچی کی جو حالت ہے اس پر بہت لے دے ہو رہی ہے لیکن اصلاح احوال کی جانب بظاہر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صفائی کا کام کرنے کے لئے جو مشینری چین سے درآمد کی گئی ہے وہ ابھی تک بندرگاہ پر پڑی ہے اور کلیئر نہیں کرائی گئی، میئر کراچی وسیم اختر جب سے جیل سے رہا ہوکر اپنے منصب پر فائز ہوئے ہیں، یہ شکایت کر رہے ہیں کہ انہیں اختیارات نہیں دئے گئے۔ بہتر تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ان کی شکایات سن کر جائز طریقے سے ان کا ازالہ کر دیں، شہر کی حالت بہتر بنانے کے لئے میئر کے پاس جو اختیارات ہونے چاہئیں، وہ انہیں ملنے چاہئیں۔ کراچی کاسمو پولیٹن شہر ہے اور اس کا حق ہے کہ اسے دنیا کے بہترین شہروں کے ہم پلہ بنایا جائے، قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک کراچی خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا، صبح و شام کے اوقات میں سڑکیں دھوئی جاتی تھیں لیکن اب جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور سڑکوں کو دھونا تو رہا ایک طرف کچرا بھی باقاعدہ اٹھایا نہیں جاتا، اس کے برعکس لاہور میں صفائی کا کام ایک ترکی کمپنی کے سپرد کیا گیا ہے، جس نے شہر کی صفائی کی حالت کافی بہتر بنا دی ہے اس سلسلے میں پنجاب حکومت کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا لیکن سندھ کی حکومت شاید اس سلسلے میں مشاورت کو اپنی ہتک تصور کرتی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے دور میں تو اکثر کہا جاتا تھا کہ وہ عمر رسیدہ ہوگئے ہیں اور وزارت علیا کی ذمے داریاں نبھانے کے قابل نہیں رہے، چنانچہ انہیں ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ عہدہ جواں سال مراد علی شاہ نے سنبھال لیا، وہ اگرچہ متحرک شخصیت کے مالک ہیں، اپنی گاڑی سے اتر کر پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیر عوام میں گھل مل جاتے ہیں، عوامی مقامات پر لوگوں سے ان کی مشکلات کے بارے میں بھی معلوم کرلیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے اوپر بھی کچھ ’’سپروزرائے اعلیٰ‘‘ بیٹھے ہیں، جو اپنا حکم چلاتے ہیں۔
کراچی شہر سے ایم کیو ایم کے ارکان منتخب ہوتے ہیں، میئر کا تعلق بھی ان سے ہے اس لئے عین ممکن ہے مراد علی شاہ کراچی کے حالات کی ذمے داری قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں، لیکن صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے کراچی کی تعمیر و ترقی صوبائی حکومت کی بھی ذمے داری ہے اور اگر اس سلسلے میں مدد درکار ہو تو وفاقی حکومت سے بھی لی جاسکتی ہے لیکن کراچی سے باہر اندرون سندھ کے شہروں کی حالت بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ لاڑکانہ کی حالت بھی دگر گوں ہے اور کہا جاتا ہے کہ شہر کے ترقیاتی کاموں کا اربوں روپیہ خورد برد کرلیا گیا۔
سینیٹر سعید غنی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ انہوں نے وزارت محنت میں کرپشن ختم کرنے میں بڑی محنت کی تھی اور جب سے وہ مشیر کے عہدے سے ہٹے ہیں کرپشن دوبارہ شروع ہوگئی ہے اور مافیا بہت خوش ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اکیلے سعید غنی تو بہت اچھا کام کر رہے تھے اور ان کے ہٹتے ہی اگر سب کھل کر کھیلنے لگے ہیں تو سندھ کی حکومت کیا کر رہی ہے؟ انہوں نے تو بالواسطہ طور پر بری حکومت کا ذمہ دار وزیراعلیٰ سندھ کو ہی قرار دے دیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں زیادہ تر نمائندے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اور چیئرمینوں اور ڈپٹی چیئرمینوں کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے، اس لئے اگر سندھ میں شہری سہولتوں کا فقدان ہے تو اس کی ذمہ دار بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مراد علی شاہ بھی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔
ہدف