ٹرمپ کے خلاف وزارت خارجہ میں بغاوت ، 4ریاستیں عدالت پہنچ گئیں

ٹرمپ کے خلاف وزارت خارجہ میں بغاوت ، 4ریاستیں عدالت پہنچ گئیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن( مانیٹرنگ ڈیسک228اے این این) امریکی وزارت خارجہ کے ایک ہزار سے زائد ہلکاروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان ممالک کے شہریوں اور پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے ایگزیکٹو آرڈر کی مخالفت کر دی ہے اور اس کے خلاف اختلافی نوٹ پر دستخط کر دئیے ہیں۔دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ صدارتی حکم نامے کے خلاف ناصرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ مسلسل ’’سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ کا راگ الاپنے میں مصروف ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے اور برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرزکاکہنا ہے کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینئر اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اختلافی نوٹ قائم مقام سیکریٹری آف سٹیٹ ٹام شینن کو ڈیپارٹمنٹ کے ’’ڈسنٹ چینل‘‘کے ذریعے جمع کرا دئیے گئے ہیں۔اختلافی نوٹ اس صورت میں جمع کرایا جاتا ہے جب اہلکاروں کو کسی پالیسی سے اختلاف ہوتا ہے۔اس اختلافی نوٹ کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ اس نئی پالیسی سے امریکہ کا ان سات متاثرہ ملکوں سے تعلقات بگڑ جائیں گے اور امریکہ مخالف خیالات کو ہوا ملے گی۔ ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ پالیسی غیر امتیازی سلوک اور انصاف پسندی جیسے امریکی اقدار کے منافی ہے ۔اختلاف رائے پر مبنی یہ مراسلہ جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کا اقدام اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوگا، اور ممکنہ طور پر خلافِ منشا ثابت ہوگا۔ محکمہ خارجہ کے مطابق، ابھی اسے باضابطہ طور پر پیش نہیں کیا گیا، اس لیے، اس پر کوئی بیان نہیں دیا جا سکتا، آیا کتنے اہل کاروں نے دستخط کیے ہیں وہ کن عہدوں پر فائز ہیں۔شام میں سابق امریکی سفیر رابرٹ فورڈ نے بتایا ہے کہ اگر دستخطوں کی تعداد 1000 تک کا معاملہ ہے تو یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اوباما انتظامیہ کی شام سے متعلق پالیسی پر گذشتہ سال کئی سفارت کاروں نے سخت نکتہ چینی کی تھی اور ایک مخالفانہ مراسلے پر دستخط کیے تھے، جو تعداد اس سے تقریبا 20 گنا کم تھی۔ایک سابق اہل کار کے مطابق، امیگریشن کے حکم نامے سے اختلاف کرنے والوں کی یہ بڑی تعداد اور اس کے فوری افشا کا معاملہ اس بات کا مظہر ہے کہ محکمے کے اندر اس پالیسی موقف اور بیرونی پالیسی کی وسیع تر سمت پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ بات لورا کنیڈی نے کہی ہے جو سابق معاون وزیر خارجہ برائے یورپی اور یورو ایشین امور رہ چکی ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ غیر معمولی لمحہ ہے۔اس سے پہلے پیر کے روز وائٹ ہاؤس کے ترجمان شون سپائسر نے کہا تھا کہ انھیں اس اختلافی نوٹ کے بارے میں علم ہے لیکن وہ تمام افسران جنھیں اعتراضات ہیں وہ یا تو اس پالیسی پر عمل کریں یا اپنا استعفی جمع کرا دیں۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے بعد ایران، عراق، شام، یمن، سوڈان، لیبیا اور صومالیہ کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اس ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط سے پہلے بھی صدر ٹرمپ کے متوقع فیصلوں سیسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں بے یقینی کی کیفیت تھی کہ وہ روس کے خلاف لگائی گئی پابندیوں کو کم کر دیں گے۔

اختلافی نوٹ

واشنگٹن(خصوصی رپورٹ) 4 امریکی ریاستوں نے 7 مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی سے متعلق صدارتی حکم نامے کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔واشنگٹن کی تقلید کرتے ہوئے مزید 3 ریاستیں نیویارک، ورجینیا اور میساچیوسٹس بھی اس صدارتی حکم کے خلاف امریکی سپریم کورٹ جا پہنچی ہیں۔خانہ جنگی کے شکار 7 ممالک کے شہریوں پر امریکا کے دروازے بند کرنے کا صدارتی حکم نامہ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے مصیبت بنتا جارہا ہے، انسانی حقوق اور تارکین وطن کے تحفظ کی تنظیموں نے حکم نامہ جاری ہونے کے فوراً بعد ہی اس کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات دائر کرنا شروع کردیئے تھے اور اس کے بعد امریکی ریاست واشنگٹن نے بھی اسے غیرقانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔مقدمات واشنگٹن ،نیویارک، ورجینیا اور میساچیوسٹس کے اٹارنی جنرلز کی طرف سے دائر کئے گئے ہیں جنہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پابندی کا صدارتی حکم امتیازی، غیرآئینی اور ’’امریکی اقدار کے منافی‘‘ ہے کیونکہ یہ مذہب اوررنگ و نسل کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہے۔دریں اثناء ٹرمپ نے کولوراڈو کے ایپلیٹ جج نیل گورشیک کو ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج نامزد کردیا ہے۔ واشنگٹن میں نیل گورشیک کی تقریب نامزدگی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہترین جج کا انتخاب کرکے امریکی عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا ہے۔ٹرمپ کی متشدد سوچ اور متنازع احکامات کی وجہ سے امریکی میڈیا بھی ان پر مسلسل تنقید کررہا ہے جس کا مؤقف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک ہر وہ شخص اور ادارہ امریکا کا دشمن اور غدار ہے جو ان کی ذاتی رائے سے اختلاف کرتا ہے۔
عدالت سے رجوع

واشنگٹن(اے این این)امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے امیگریشن کو محدود کرنے سے متعلق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے پر عملدرآمد میں خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکی شہریوں کی زندگیاں داؤ پر نہیں لگا سکتے ۔ کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے سربراہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر جان کیلی نے کہا ہے کہ یہ سفری پابندی کا معاملہ نہیں ہے، یہ عارضی بندش ہے جس سے مہاجرین سے متعلق مروجہ ضوابط اور ویزا کے نظام کی کڑی نگرانی کا جائزہ لینے میں مدد ملتی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ نئے حکم نامے کا مقصد دہشت گردوں کو ملک سے دور رکھنا ہے۔ لیکن، اس بات پر زور دیا کہ یہ مسلمانوں پر بندش کا معاملہ نہیں ہے۔جان کیلی نے تسلیم کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات ممالک کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم پر عمل درآمد میں کچھ خامیاں موجود ہیں۔ہوم لینڈ سکیورٹی چیف جان کیلی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ صدر کی جانب سے ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن پر عائد اس پابندی کا نشانہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی دنیا بھر سے مسلمانوں کی اکثریت کو امریکہ تک رسائی حاصل ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس 90 دن کے وقت میں حکام کو امریکہ کے امیگریشن نظام کی خامیاں اور خوبیاں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اور یہ کام کافی تاخیر کا شکار ہوا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایسے ممالک جن کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر امریکہ کو اعتماد کم ہے وہاں کے ویزے کے درخواست دہندگان کی انٹرنیٹ پر تلاش کی ہسٹری، موبائل فون کے کانٹیکٹس اور سماجی رابطوں کی سائٹس پر موجود پروفائلز کا امریکہ خود جائزہ لینے کے بارے میں غور کر رہا ہے۔اعلی رپبلکن اہلکار پال ریان کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس ہے کہ مصدقہ کاغذات رکھنے والے بعض لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے۔ایک نیوز کانفرنس سے بات کرتے ہوئے ہوم لینڈ سکیورٹی اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے اداروں کے سربراہان کا کہنا تھا کہ صدر کے حکم نامے کے بعد سے 720 افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان سے اچھا سلوک کیا گیا۔سی بی پی کے سربراہ کیون مک ایلینن نے تسلیم کیا کہ نئی پالیسی کے آنے کے بعد عوام اور حکومت کے درمیان کمیونیکیشن بہترین نہیں تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکہ کا پناہ گزین پروگرام اب معطل ہے تاہم 872 پناہ گزینوں کو چھوٹ دی گئی ہے اور وہ رواں ہفتے امریکہ آئیں گے کیونکہ ان کی سفر کی تیاریاں مکمل ہیں اور اب اس موقع پر انہیں روکنا ان کی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
جا ن کیلی