بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔چوتھی قسط

Feb 02, 2017 | 01:10 PM

فولادی پنجہ:
دہشت گردی کا لفظ امریکیوں کے لیے ا یک فولادی پنجہ ہے جسے چاہتے ہیں وہ اس سے اس کا سر دے مارتے ہیں اور ان کی گرفتاری اور رہائی عمل میں لاتے اور ان کا یہ مکرہ و فریب دوسرے تمام ملکوں پر آشکار ہو چکا ہے۔ چار پانچ دن تک یومیہ تفتیش دو مرتبہ مکرر ہوتی رہی اور وہی پرانے سوالات پوچھے جاتے رہے لیکن میرے لیے یہاں اچھی بات یہ تھی کہ یہاں کوئی سختی، مار پیٹ اور سزا نہ تھی لیکن طبعی طور پر ایسے تنگ مکان میں زندہ رہنے کے باوجود زندگی بڑی مشکل سے بسر ہوتی ہے۔
’’باتیں مت کرو اور ہلو مت‘‘
پانچ چھ دن کے بعد صبح ناشتے پر مجھے خاکی رنگ کا یونیفارم دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ پرانے یونیفارم کی جگہ اسے پہن لو، یونیفارم تبدیل کرنے کے فوراً بعد منتقلی کا کام شروع ہوگیا۔ تمام قیدیوں کے ہاتھوں کو پلاسٹک کی رسی سے باندھا گیا اور ان کے سروں پر تھیلے چڑھائے گئے۔ تھیلوں کے تسموں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھا گیا۔ آخری باری میری تھی۔ میرے ہاتھوں کو بھی رسیوں سے باندھا گیا، سر پر تھیلی چڑھائی گئی اور تہہ خانے سے اوپر لا کر ان قیدی بھائیوں کے ساتھ بٹھایا گیا جنہیں مجھ سے پہلے لایا گیا تھا۔ قیدیوں میں پانچ افغان تھے جن کے نام میں نے پہلے ذکر کر دیئے۔دو عرب، اور ایک امریکی مسلمان تھا اور نواں میں تھا۔
یاد رہے کہ میرے اور ان کے یونیفارم میں فرق تھا۔ میرا یونیفارم خاکی اور ان کا آسمانی کلر کا تھا۔ کافی دیر تک ہمیں وہاں اس بند حالت میں بٹھایا گیا ۔سخت رسی سے باندھنے اور دم گھنٹے کی شکایت کی وجہ سے ساتھیوں کی مسلسل چیخیں نکل رہی تھیں۔ کوئی قیدی پانی مانگ رہا تھا تو کوئی ہاتھوں کے درد کی شکایت کر رہا تھا۔ کوئی چیختا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے لیکن انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی جو ہماری آوازوں کو سنتے اور ہمیں درد و قید سے چھڑا کر پانی پلاتے اور سروں سے تھیلے ہٹا کر ہمیں سانس لینے دیا جاتا۔ خالی فوجیوں کی آوازیں اور نعرے تھے جو ہمیں انگریزی زبان میں لتاڑتے تھے اور کہتے تھے (Shut up and Stop Movement)(باتیں مت کرو اور ہلو مت)

اس سے پہلے کیا کچھ ہوتا رہا، تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
یہاں مسلسل ہیلی کاپٹروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ دو تین گھنٹے ہمیں یہاں رکھا گیا اور پھر ہیلی کاپٹروں کے اندر ڈال کر باندھا گیا۔ تقریبا 25منٹ سفر کے بعد ہمیں ایک اور جگہ منتقل کیا گیا ہمیں ہیلی کاپٹر سے نیچے زمین پر گرایا گیا اور وہاں موجود فوجیوں نے ہمارے جسموں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔
لاتیں اور گھونسے:
مختلف فوجی آتے رہے اور ہمیں لاتوں اور گھونسوں سے سخت مارتے رہے ۔یہاں تک کہ فوجی اپنے بوٹوں سے ہماری انگلیاں زمین کے ساتھ روندتے رہے اور ہماری چیخیں بلند ہوتی رہیں ۔اسی اثناء میں ایک فوجی مجھے تلاش کرنے کے سلسلے میں میرے پاس آیا، میرے سر سے تھیلا اٹھایا اور پھر دوبارہ پہنا کر شناخت کے بعد چپ چاپ چلا گیا ۔میں نے اس وقت اپنے دوسرے قیدی بھائیوں کو دیکھا کہ وہ سخت تکلیف میں تھے۔امریکی فوجی ان کے جسموں سے لاتوں اور گھونسوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور ان کی چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہاں ہم اتنے سخت عذاب میں تھے کہ وضو اور نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اشارے سے نماز پڑھ سکتے تھے۔ اس لیے کہ ہماری تھوڑی سی حرکت پر وہ ہم پر لاتوں کی بارش کرتے۔ ایک لمحہ لیے ہمیں چھوٹے پیشاب کے لیے اٹھایا گیا جس سے ہماری طبیعت قدرے سنبھل گئی۔کئی بار ہیلی کاپٹر لینڈنگ کرتے رہے اور بار بار پرواز کرتے رہے بالآخر رات کے شروع ہوتے ہی ایک ہیلی کاپٹر ہمارے بہت قریب آیا اور ہمیں اس کے اندر ڈال دیا گیا۔
پل صراط اور حالت نزع:
ہیلی کاپٹر کی منتقلی پل صراط کا پل اور حالت نزع کے برابر ہوتا تھا ۔اتنا سخت عذاب تھا کہ جسے میں آج بھی تصور نہیں کر سکتا۔ گوانتاناموبے میں ہمیں ہمیشہ اپنی منتقلی کی فکر ہوتی تھی کہ وہ خدانخواستہ دوسری جگہ منتقل کس طرح ہوگی۔
ہمیں ہیلی کاپٹر کے اندر ہاتھ پاؤں سے مضبوط باندھا گیا ۔اس طرح کے ڈبل پٹے ہمارے سینے اور رانوں کے اوپر لپیٹ کر جہاز کے دوسرے حصوں سے مضبوط باندھ دیا گیا۔ ایسے میں نیم لیٹے اور نیم بیٹھے ہوتے تھے نہ صحیح طرح لیٹ سکتے تھے اور نہ ہی صحیح طرح بیٹھ سکتے تھے۔
بگرام ائیرپورٹ:
ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف ہو رہی تھی اور سانس گھٹ رہا تھا لیکن صبر کے سوا کوئی راستہ نہ تھا ۔ہم ایک دوسرے کے ساتھ سہارا لینے لگ جاتے تو فوجی وحشی بوٹ سے سخت مارتے، ساتھیوں کو پیشاب اور پیاس کے تقاضے کے باوجود اجازت نہیں ملتی تھی اور ترجمان بھی نہ تھا یا پھر وہ بھی فوجیوں کے ساتھ ملا ہوتا تھا۔ راستے میں دو جگہ ہیلی کاپٹر اترا اور پھر اڑان بھری کافی دیر بعد ہیلی کاپٹر ایک جگہ اترا اور یہ بگرام ائیرپورٹ تھا۔
’’امریکا عدل و انصاف کا گھر ہے‘‘
مجھے فوجیوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ نیچے پکی زمین پر پھینکا۔ چند فوجی یہ نعرے لگا رہے تھے (This is the big one)یہ ان کا بڑا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش شروع کر دی دی۔ میں نے تو کلاشنکوف کے بٹ بھی محسوس کئے میرے جسم سے کپڑے الگ ہوگئے خالی سر پر تھیلا اور ہاتھ پاؤں میں بیڑی لگی ہوئی تھی۔ تازہ تازہ برف باری ہو چکی تھی چند گھنٹوں کی مار پیٹ کے بعد انہوں نے مجھے ننگا برف پر پھینک دیا۔ فوجیوں کی موجودگی میں ایک خاتون مسلسل غزل پڑھ رہی تھی اور فوجی لوگ میرے جسم کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ غزلوں کا ایک ٹکڑا ابھی تک مجھے یاد ہے وہ گا رہی تھی:
’’امریکا عدل و انصاف کا گھر ہے اور عدل و انصاف کا خواہاں ہے ، ہر آدمی کے لیے انصاف چاہتا ہے۔‘‘
(بشرطیکہ مسلمان نہ ہو کیونکہ مسلمان ان کے نزدیک انصاف کا کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا) اس وجہ سے وہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا وحشی طریقہ روا رکھتے ہیں اور اس طرح کی غزل گاتے رہتے ہیں۔ ایسا وحشی طریقہ کہ جس کا نہ تو عدل و انصاف سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اسے عدل و انصاف کہہ سکتا ہے۔
برف پر شدید سردی تھی جسم بالکل شل ہو کر کانپتا تھا اور فوجی مسلسل چیختے تھے Stop Movement(حرکت مت کرو، مت ہلو) لیکن شدید سردی کی وجہ سے جسم کی لرزش اور کپکپاہٹ روکنا میرے بس میں نہ تھا آخر کار تین چار گھنٹے بعد شدید سردی کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگیا اور پھر مجھے اپنا پتہ نہ چل سکا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک ایسے بڑے کمرے میں پڑا ہوا تھا جس میں دھوپ پڑتی تھی۔ تقریبا یہ دن کے نو دس بجے کا وقت تھا میرے جسم میں شدید درد تھا جو میرے لیے بالکل ناقابل برداشت تھا۔
جاری ہے، پھر کیا ہوا؟ اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے)۔ 

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔

مزیدخبریں