سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔چوتھی قسط

شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانواد ۂ نوشاہیہ کی خدمات
شاہی پہلوان کے پٹھے بھڑک اٹھے اور رانوں پر ہاتھ مار کر آپؒ کی جانب لپکے’’ پہلے ہم سے دست پنجہ لڑا پھر ہمارے استاد کو مانگنا۔‘‘
شاہی پہلوان جو بدستور آپؒ کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پٹھوں سے کہا ’’اوئے منڈیو۔ صبر کرو۔ آ جا نوجوان میں تری حسرت پوری کرتا ہوں۔ چل جا اور لنگوٹ کس لے‘‘۔
حضرت سیدنوشہ گنج بخش قدس سرہٗ دھیرے سے مسکرائے پھر تحمل سے کہا’’ پہلوان جی۔ کشتی بھی لڑ لیتے ہیں۔ ذرا پہلے دست پنجہ تو ہو جائے‘‘ یہ کہہ کر آپؒ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ شاہی پہلوان احساس تفاخر سے آگے بڑھا۔ اس نے اپنا بھاری اور چوڑا ہاتھ آپؒ کے ہاتھوں میں دیا تو دوسرے ہی لمحے اسے محسوس ہوا جیسے اس کے پورے جسم سے جان نکل گئی ہے۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا اور آپؒ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ قریب تھا کہ شاہی پہلوان کی انگلیوں سے خون جاری ہو جاتا۔وہ چلایا’’مجھے معاف کر دو نوجوان۔ میرا ہاتھ چھوڑ دو۔ ورنہ میری جان نکل جائے گی‘‘۔
آپؒ نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا ’’پہلوان جی! اللہ ربّ العزت نے آپ کو اتنی طاقت دے کر مہان بنایا اور بادشاہ کے دربار تک پہنچا دیا مگر آپ نے اپنی طاقت کو تکبر اور ظلم کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ اتنا زیادہ غصہ نہ کیا کریں۔ اصل پہلوان تو وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پاتا ہے۔‘‘
تیسری قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
اس واقعہ سے آپ کی جرأت، طاقت اور عاجزی ظاہر ہوتی ہے۔ آپؒ روحانی طور پر طاقتور تھے اور جسمانی توانائی سے بھی مالامال تھے لیکن آپؒ ہرگز کسی مظلوم اور عام انسان پر اپنی طاقت ظاہر نہیں کرتے تھے۔
حضرت سید نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ بچپن سے ہی قادریہ سلسلے کے مقبول بزرگ حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ کی شخصیت سے مرعوب تھے۔ آپؒ کی والدہ محترمہ کو حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ نے حضرت نوشہؒ کی پیدائش سے پہلے ہی ایک مادر زاد ولی صاحبزادے کی بشارت دے دی تھی۔آپ ؒ کے والد گرامی اور خاندان کے دوسرے لوگ بھی حضرت سخی سلمان نوریؒ سے عقیدت رکھتے تھے۔ آپؒ جب 29سال کے ہوئے تو مرشد کی تلاش اور لگن نے آپؒ کو بے قرار کر دیا۔ اس سے پہلے آپؒ دریائے چناب اور جنگلوں میں مراقبے بھی کر چکے تھے اور آپؒ کے روز و شب اوراد و وظائف میں بسر ہوتے تھے۔ اس میں بھی مشیّت الٰہی کا دخل ہے کہ آپ کا گوہر مراد اپنے ہی علاقے میں موجود تھا۔ حضرت سخی سلمان شاہ نوریؒ بھلوال میں رہتے تھے۔ بھلوال اور گھوگانوالی کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔اس زمانے میں پیدل یا گھوڑے پر سوار ہو کر بھلوال جانا پڑتا تو ایک دو روز لگ جاتے تھے۔ آپؒ کو کامل وسیلے کی تلاش بھلوال کی طرف کھینچ لے گی۔
راہ حق اور طریقت کی منازل طے کرنے کے لئے آپؒ کو اگرمرشد کی تلاش تھی توادھر مرد حق خود اپنے ہونہار مرید کا منتظر تھا۔ آپؒ ملا کریم الدین کے ساتھ حضرت سخی سلمان نوریؒ کی خانقاہ پر پہنچے تو آپؒ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت سخی سلمان نوریؒ نے آگے بڑھ کر آپؒ کا نہایت خندہ پیشانی سے استقبال کیا ۔ ۔۔۔ملاّ کریم الدین نے آپؒ کا تعارف کرانا چاہا تو حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ نے آپؒ کو روک دیا اور کہا ’’ملاّ جی۔ میں تو برسوں سے اس جوان کا منتظر ہوں۔ اس نے آنے میں بہت دیر لگائی ۔ ہم اس کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہے تھے لیکن یہ نہیں آیا۔ آج آیا ہے تو برسوں کی بے قراری کو قرار مل گیا ہے‘‘ ۔۔۔ حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ نے آپؒ پر انتہائی پدرانہ شفقت کے ساتھ نگاہ ڈالی اورکہا ’’اے میرے فرزند۔ تو نے اتنی دیر کیوں لگا دی‘‘۔ حضرت سیدنوشہ گنج بخش قدس سرہٗ آپؒ کی نگاہوں کی تاب نہ لا سکے اور آپؒ کی حالت تبدیل ہو گئی۔ آپؒ کوئی جواب نہ دے سکے۔ حضرت سخی سلمان نوریؒ نے حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ سے فقیرانہ انداز میں بیعت لی اور کہا’’ امانت با امانتدا رسید‘‘ پھر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔ ’’اے اللہ تیرا شُکر ہے تو نے مجھے یہ امانت اس کے حق دار تک پہنچانے کے لئے حیات ناپائیدار کے چند لمحے مزید عطا کئے ہیں۔ اے اللہ میری اس خدمت کو قبول فرما۔‘‘
حضرت سخی سلمان نوریؒ کی دلآویز اور فقیرانہ شخصیت نے حضرت سیدنوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کی ذہنی کیفیت ہی بدل ڈالی تھی۔ آپؒ نگاہ درویش کی تاب نہ لا کر بے حال ہو گئے اور پھر تین ماہ تک اسی حالت میں رہے۔ آپؒ پر جذب و مستی کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ نہ اٹھ سکتے تھے نہ بیٹھ، نہ کھا سکتے تھے، نہ پی سکتے تھے۔ جذب کی اس حالت میں حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ نے آپؒ کو سلوک کی تمام منازل طے کرا دیں۔ مرشد کی مسلسل نگہداشت جاری رہی اوریوں آپؒ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کی منازل طے کر گئے۔ ربّ القدیر نے آپؒ پر کئی اسرار ظاہرکر دیئے تھے اور یہ سب حضرت سخی سلمان نوریؒ کی پدرانہ، مشفقانہ ،کاملانہ توجہ کا نتیجہ تھا۔
حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ دسویں صدی ہجری کے ممتاز ولی اللہ تھے۔ آپؒ کے توسل سے ہی حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کو قادری سلسلہ کی طریقت منتقل ہوئی اور پھر جب حضرت سیدنوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کو طریقت کی تبلیغ کا اذن ملا تو یہ سلسلہ قادری نوشاہی کہلانے لگا یوں آپؒ کا شجرہ طریقت 26واسطوں سے سرکار دو عالمؐ تک جاپہنچتا ہے۔
مرشد کامل ہو تو اپنے مریدین کا ہمہ وقت خیال رکھتا ہے اور مرید درجہ ولایت پر فائز ہو تو مرشد اپنے ہاتھوں سے اپنے اس مرید کو عزیز جان بنا لیتا ہے۔ حضرت خواجہ شاہ سلمان نوریؒ کو حضرت نوشہؒ سے بے حد لگاؤ تھا اور آپؒ کی آمد پر اٹھ کر انکااستقبال کرتے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کی اہل ولایت میں مقبولیت و احترام حد درجہ زیادہ تھا۔ حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ اپنے مریدین کو حضرت نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ کے کردار اور ان کی پاکبازی کی مثالیں دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ’’ دیکھو اس نوجوان نے کس قدر محنت سے ریاضت کی ہے اور آج یہ ہمارے لئے فخر و انسباط کا باعث ہے‘‘
آپؒ لوگوں کو خوش لباسی اور پاکیزگی کا درس دیتے۔ ایک روز آپؒ نے حضرت نوشہؒ سے کہا’’ نوشہ جی۔ آپؒ کو یاد نہیں ہو گا۔مگر ہم آپ کو بتا دیتے ہیں کہ اولیا اللہ کی پاکیزگی کا دربارالٰہی میں کیا مقام ہے۔ آپؒ نے ابھی گھٹنوں کے بل رینگنا شروع کیا تھا۔ آپؒ کی والدہ محترمہ گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی تھیں تو آپؒ صحن میں رینگنے لگتے۔ آپؒ کے گھر میں بھینسیں بھی تھیں۔ ان کے فضلہ کی وجہ سے صحن ناپاک ہو جاتا تھا۔ اللہ کو ہرگز یہ منظور نہیں ہے کہ اس کے محبوب بندے ناپاک حالت میں ہوں۔ جن دنوں آپؒ صحن میں ہمک ہمک کر رینگتے تو ان دنوں ہی آپ کی بھینسیں مرنے لگیں۔ میں آپؒ کے دیدار کے لئے آپؒ کے گھر گیا تو آپؒ کی والدہ محترمہ نے بتایا کہ ان کی بھینسیں ناگہانی آفت میں مبتلا ہو کر مرنے لگی ہیں۔ اللہ کریم نے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا اور میں نے کہا کہ بی بی محترمہ آپؒ کے گھر کے صحن میں جو ولی اللہ بیٹھا ہوا ہے اس جگہ پر بھینسوں کا گوبر وغیرہ پڑا ہے جس وجہ سے یہ صحن ناپاک ہو گیا ہے ۔اس ناپاکی کے چھینٹے حاجی محمد پر گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا جب حاجی محمد صحن میں موجود ہوں تو اللہ اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ اللہ کی فرستادہ مخلوق حاجی محمد کے آس پاس ہونے کی وجہ سے بھینسیں مر جاتی ہیں۔ میری بات مانو اور بھینسوں کو باہر باڑے میں باندھا کرو۔ حاجی نوشہؒ ۔۔۔اس کے بعد جب آپؒ کی والدہ نے بھینسوں کو باڑے میں منتقل کر دیا تو وہ ناگہانی موت سے بچ گئیں‘‘ حضرت سخی سلمان نوریؒ نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعداپنے مریدین کی طرف توجہ فرمائی اورکہا۔ ’’میری بات یاد رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ لہٰذا طریقت پر چلنے والو اپنی نگاہوں، زبانوں، خیالوں ،شکموں اور بدن و لباس کو ہمہ وقت ناپاکی سے بچایا کرو۔ اگر تم یہ نہیں کرو گے تو اللہ کی رضا و قربت کی تمنا پوری ہونے میں دیر ہو سکتی ہے۔ بے شک اللہ غفورورحیم و کریم ہے۔ وہ نگاہ کے فتنے کی بھی خبر رکھتا اور دلوں کی کدورتوں سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ بندے کے خیالات اس سے پوشیدہ نہیں ہوتے۔ پس تزکیہ نفس کے لئے مجاہدہ کرو اور اپنے آپ کو ہر طرح کی برائی سے بچائے رکھو۔ یہ نوشہ جی آپ کے سامنے ہیں۔ ان سے طریقت کے انداز سیکھو، محبوبیت کی چاہ ہے تو ان کی تمناؤں اور رغبتوں کو دیکھو۔ میرا سوہنا اللہ تم سب پر بھی مہربان ہو گا۔‘‘
حسد اور رقابت انسانی فطرت میں شامل ہے۔ جب نیک و پاکباز اور راہ طریقت پر چلنے والوں میں حسد، بغض پیدا ہوتا ہے تو وہ برسوں کی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ کی دولت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔حضرت سیدنوشہ گنج بخش قدس سرہٗؒ پر آپؒ کی نگاہ التفات بڑھتی چلی گئی اور یہ بات آپؒ کے کئی مقبول مریدوں کو بھی ناگوار محسوس ہونے لگی تھی۔
اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ حضرت سخی سلمان نوریؒ جُوں جُوں حضرت نوشہ گنج بخشؒ کے اعمال کی وجہ سے ان کے گرویدہ ہوتے گئے تُوں تُوں ملاّ کریم الدین اور کئی دوسرے مریدوں کو یہ بات ناگوار لگنے لگی۔ حالانکہ اس زمانے میں حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ نے ملاّ کریم الدین کو امامت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اور ان کی اقتدا میں نماز بھی بڑھتے تھے۔ ملاّ کریم الدین یہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ جس کل کے لڑکے کو حضرت سخی شاہ سلمان نوریؒ سے بیعت کرانے لائے تھے آج وہ ان سے زیادہ مقبول، عزیز اور چہیتا ہو گیا ہے ۔ حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ جب اپنے پیر و مرشد اور مربّی حضرت سخی سلمان نوریؒ کی زیارت کے لئے آتے تو قبلہ سخی سرکار نوشہ گنجؒ بخش کے لئے چارپائی پر چادر خود بچھاتے اور انہیں نہایت عزت و تکریم کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا کر لگاوٹ سے باتیں کرتے تھے۔ پھر جب حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ واپس جانے لگتے تو حضرت سخی شاہ سلیمان نوریؒ دل گرفتہ ہو جاتے اور انہیں گاؤں سے باہر چھوڑ کر آتے اور پوچھتے کہ اب کب آؤ گے۔ وہ اپنے مرشد کریم کا بے حد احترام کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ روحانی مقامات میں دوسروں سے بلند تر ہو گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ اپنے گاؤں سے پیدل اپنے مرشد و مربّی کی زیارت کے لئے بھلوال آتے۔ حضرت سخی سلمان نوریؒ آپؒ کے استقبال کے لئے شہر سے باہر نکل آتے اور جب آپؒ دیکھتے کہ حضرت نوشہ راستے کے پتھروں، کانٹوں اور موسم کی شدت سے بے پرواہ ننگے پاؤں اپنے مرشد سے ملنے آرہے ہیں تو وہ بے تابی سے ان کا ماتھا چومتے اور پھر شفقت آمیز سختی سے ڈانٹتے ’’نوشہ جی آئندہ آپ ننگے پاؤں نہ آیا کریں۔ یہ گھوڑے کس کام کے ہیں‘‘۔ مرشد ومربیّ کے احترام اور عقیدت میں کبھی کبھار گھوڑے پر سوار ہوکر بھی آنے لگے تاکہ مرشد کی ہدایت کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔
جاری ہے، اگلی یعنی پانچویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔