سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔دسویں قسط

سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔دسویں قسط
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔دسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانوادۂنوشاہیہ کی خدمات


افغانستان میں حضرت خواجہ محمد فضیل وحی نوراللہ ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں اور آج بھی آپؒ کامزارشریف وہاں مرجع خاص ہے۔ایک بار انہیں حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کی نوشہر ہ میں آمد کا حال معلوم ہوا تو وہ آپؒ کی زیارت کے لئے کابل سے نوشہرہ پہنچ گئے اور عقیدت مندوں کے حلقے میں بیٹھ کر آپؒ کی زیارت سے مستفید ہونے لگے۔ اس دوران حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کی کیمیا اثرنگاہ آپؒ پر پڑی تو خواجہ محمد فضیل ؒ کی حالت غیر ہوگئی۔آپ واردات قلبی کے ہاتھوں بے ہوش ہوگئے۔آپؒ ان کی حالت دیکھ کر متبّسم ہوئے اور انہیں ہوش میں لے آئے اور فرمایا’’اللہ والیو،ہمیں آپؒ کی تلاش تھی اور آپؒ کو ہماری۔اب اپنا حصہ سنبھالو اور افغانوں کو جا کر تقسیم کرو‘‘آپؒ نے خواجہ صاحب کو خرقہ خلافت عطا کیا اورانہیں مخلوق خدا میں فیض رسانی کا حکم دے کر کابل روانہ کردیا۔گویاافغانستان میں اشاعت اسلام کو تیز تر کرنے میں حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کا نمایاں کردار ہے۔حضرت خواجہ صاحب کے ہاتھوں پر ہزاروں افغانوں نے بیعت کی اور اسلام قبول کیا۔

حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ ۔۔۔ نویں یعنی پچھلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ایک جانب آپؒ کے روحانی فیوض اور تصرفات کا یہ عالم تھا تو دوسری جانب آپؒ عام وخاص کو شرعی معاملات میں احتیاط کا درس دیتے اور ان پر سختی سے عمل کراتے۔آپؒ نے اپنے پنجابی صوٖفیانہ کلام میں شرع پر نہ چلنے والے پیر کی باربارسرزنش بھی کی ہے اور مریدین کو بھی ایسے پیر کو تسلیم کرنے سے منع فرمایا ہے۔نعوذ باللہ آج ہمارے ہاں خانقاہوں سے وابستہ پیران کرام نے اپنے آباء کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے اور درگاہوں کو وسیلہ روزگار بنارکھا ہے جبکہ انہیں اپنے آباء کی روحانی و شرعی تعلیمات کی پابندی کرنی چاہئے۔ حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ فرماتے ہیں:
غیرشرع جو پیر ہے سو پیر نہ کہئے
غیرشرع فقیر تھیں ہک پل نہ بہیئے
فقہ باہجھ فقیری ناقص سن سچیار
باجھ فقیری فقہ معطل نوشہ کہے پُکار
جہڑا قائم شرع تے سوئی مرد فقیر
آکھے نوشہ قادری غیرشرع ہے بے پیر
آپؒ نے اپنے دور میں ایسے پیروں ،علماء اور فقراء کی اصلاح کے لئے امربالمعروف کی تحریک چلائی اور خانقاہ وحجرے تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اسلامی اور انسانی خدمات کا دائرہ برصغیر سے باہر تک لے گئے اور روحانی فیوض و فلاح عامہ کی بہبود سے لوگوں کے دلوں کو بدل دیا۔آپؒ کی تعلیمات سے ہی اس خطہ میں اسلام کا بول بالا ہوا اور دو لاکھ ہندو آپؒ کے دست مبارک پر کلمہ طیبہ پڑھنے پر مائل ہوئے۔
***
شریعت وطریقت کی راہیں بڑی کٹھن اور آزمائشوں سے اٹی ہوتی ہیں۔اس راہ کے مسافروں اور راہبروں کو ہر لحظہ اسوۂ محمدیﷺ پر چلنا پڑتا اور عشق الٰہی کے تمام تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں ۔تب جا کر گوہر مراد ہاتھ آتا ہے لیکن یہ بھی اُس بے نیاز پروردگار کی منشا پر ہے کہ وہ چاہے تو نواز دے اور چاہے تو مزید امتحانوں سے دوچار کردے۔نسبتوں سے نوازنے کا اختیار بھی اسی مختارکل کو ہے۔چاہے تو اپنے محبوب بندوں کی نسلوں کو بھی فیض وبرکات سے مالا مال کردے ،نہ چاہے تو اس سے کوئی گلہ نہیں کیا جاسکتا ۔
ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔خانقاہوں،درگاہوں ،آستانوں والی بہت سی ہستیوں کو دیکھا ہے ہم نے،ان میں ایسے بھی ہیں جو صرف بزرگوں کے فیض اور نسبتوں کی آڑ لیکر سائلیں ،مریدین کو لوٹتے ہیں حتٰی کہ وہ اپنے قدموں پر جھکانے،پیرپرستی کرانے کے لئے شریعت کو پیچھے کرنے سے نہیں چوکتے ۔۔۔دنیا پرستی ،جاہ وحشم،دھن دولت کے یہ پجاری اپنے آباء کے طریق کو چھوڑ کر روحانیت کو تماشا بنا دیتے اور پھر مریدین کو مجبور کرتے ہیں کہ ان کی راہ پرہی چلا جائے ورنہ پیر موصوف ناراض ہوکر مریدین و سائلین کو بھسم کردیں گے۔یہ بدعقیدہ اور جاہل بھول جاتے ہیں کہ جن کے طفیل وہ خانقاہوں میں براجماں ہیں وہ اپنے وقت کے عظیم المرتب ،شریعت طریقت، علم وحکمت کے تاجدار ہوتے تھے۔وہ سائلین کی اپنے ہاتھوں سے تواضع کرتے ،محنت کرتے اور انسانیت کی خدمت کرکے اللہ سے انعام کے طلب گار ہوتے تھے۔
۔۔۔ہاں خانقاہوں،درگاہوں ،آستانوں میں ابھی بھی قابل قدر شخصیات موجود ہیں جو اپنے آباء کی تعلیمات سے غافل نہیں اور مسجود الملائکہ کو مسجود القبور نہیں بننے دیتیں۔ مگر ایسے بہت کم ہیں۔تاہم دنیائے روحانیت کے چراغ ان سے ہی روشن ہیں۔
حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ نے اپنی نسبت سے جڑی نسلوں کے لئے تبلیغ دین کی میراث بطورنمونہ چھوڑی تھی اور فرمایا تھا کہ میری طرز میں پیری تبلیغ و اشاعت دین میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج جب برطانیہ ،ہالینڈ، جرمنی سمیت یورپ کے دوسرے ملکوں میں اشاعت دین کی سرگرمئ محبت کا منظر دیکھتے ہیں تو نظریں حضرت سید معروف حسین نوشاہی کی طرف اٹھ جاتی ہیں ۔آپ حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کے مشن کے موجودہ علم برداراوروارث ہیں، روحانی تربیت،شریعت وطریقت کی مروّجہ تعلیمات ،صوفیانہ شاعری، پرہیزگاری، پاکیزگی، انسانی خدمت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔آپ کے بڑے بھائی حضرت پیر سید ابوالکمال برقؒ نوشاہی قادری اپنے دور کے قطب الارشاد تھے۔آپ کی تبلیغ پر ہالینڈ میں آباد قادیانیوں کی بڑی جماعت نے اسلام قبول کیا تھا۔حضرت سید ابوالکمالؒ نے بھی اپنے آباء کی طرح علم وادب کی وراثت حاصل کی تھی۔آپؒ نے اپنی چالیس سالہ تصنیفی زندگی میں پانچ سو سے زائد کتب تحریر کیں۔آپؒ کے علم کی وسعت کااندازہ کیجئے، فقہ، حدیث، حکمت، مناظرہ، تنقیدات،انساب،علم نحو،علم صرف،احوال و سوانح، سفرنامے، سیرت،مناقب وفضائل،عملیات،علم الرویا،مکتوبات،فن تاریخ گوئی ایسے بے شمار موضوعات پر تصانیف لکھیں اور یہی علمی وقلمی ورثہ حضرت معروف حسین شاہ نوشاہی تک بھی منتقل ہوا۔آپ فارسی کے قادرالکلام صوفی شاعر بھی ہیں۔ آپ نے روحانی ودینی و مروّجہ تعلیم کے باوجودیورپ کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک مل مزدور کی حیثیت میں مشقت کی،راتوں کو آپ نوکری کرتے اور صبح ہوتے ہی دینی کاموں میں مصروف ہوجاتے۔آپ نے دین کی خدمت کے لئے یورپ بھر میں تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے ہوئے حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کی میراث کا حق ادا کردیا۔علم وادب سے لبریز اس جلیل القدر اور عہد حاضر کے عارف کی درویشانہ زندگی نے اہل یورپ کے دلوں کو اسلام کی روشنی سے منور کردیا ہے ۔ جب سے آپ برطانیہ میں اشاعت دین و طریقت کا فریضہ ادا کررہے ہیں تب سے یورپ میں اسلام کا سافٹ امیج منشۂ شہود پر آیا ہے۔ آپ ؒ نے حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کی زندگی کے مبلغانہ پہلو اور جہد مسلسل پر کام کیا اور غیر مسلموں کے تعلیمی اداروں ،انکی عبادت گاہوں میں جاکر انہیں حقیقی اسلام سے روشناس کیا۔آپؒ کے ہاتھوں میں پھول اور لبوں پر تبسم دیکھ کر غیرمسلموں کو دین اسلام کو سمجھنے میں وہی سکون واطمینان اور قلبی یکسوئی اور روشنی ملی جو حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ اور انکی اولاد پاک کا طریق رہا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کے عہد مبارک سے اب تک ساڑھے چارسوسال کے دوران، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، برما،افغانستان،ایران وعراق اور یورپ سمیت کئی ملکوں میں اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ اور آپؒ کی اولاد کا کردار رہاہے۔
حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کی تبلیغی خدمات پر ہی آپؒ کو مجدداعظم کہا جاتا ہے،آپ نے اس وقت جب اکبر کے دین الٰہی کا پرچار عام تھا اور اسلام کے چراغ اسکی طاغوتیت کے سامنے پھڑپھڑا رہے تھے تو برصغیر میں اللہ کے بہت سے اولیا کرام اکبر کے دین الٰہی کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔ حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ نے دین الٰہی کی طاغوتیت کا خاتمہ کیا اور برصغیر کے دوردراز علاقوں میں جاکر اسلامی عقائد اورشعائر اسلام کی تعلیمات عام کیں ۔دین الٰہی کا پرچار کرنے والوں نے مساجد کو گرا کرمندروں میں تبدیل کردیا تھا۔آپؒ جہاں جاتے وہاں نئی مساجد تعمیر کراتے،حضرت سید معروف حسین شاہ عارف نوشاہی کا مبلغانہ طرز بھی یہی رہاہے ۔آپ نے برطانیہ میں اس وقت جب مسلمانوں پر مساجد کے دروازے بند تھے ،مسجد تعمیرکی اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
حضرت سیّد معروف حسین نوشاہی1961 میں برطانیہ پہنچے تھے، اس دور میں یہاں مقیم مسلمانوں کی حالت دین اکبری کے پیروکاروں سے بھی بدتر ہوچکی تھی،شراب،زنا،جوا،عریانی فحاشی، کیا کیا ایسی لت نہ ہوگی جو مسلمانوں بالخصوص کسب معاش کے لئے آنے والوں اور انکی نسلوں میں موجود نہ تھی۔آپ یہاں پہنچے تو مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر آزردہ ہوگئے ۔ آپ نے 1963ء اپنے چند احباب کو اکٹھا کرکے مسلمانوں میں بیداری اور شعائر اسلامی کی مہم چلانے کا اعلان کردیا۔اورجمعیت تبلیغ الاسلام کے نام سے تنظیم بناڈالی۔حقیقت یہ ہے کہ سپین میں اسلام کے چراغ گل ہونے کے بعد صدیوں بعد یہ پہلی اسلامی تنظیم تھی جس نے یورپ میں اسلام کے چراغ روشن کرنے کا عہد قائم کیا اور پھر اس میں جت گئی۔اس دور میں برطانیہ میں سرے کاؤنٹی کے قصبے ووکنگ میں صرف ایک مسجد تھی جسے شاہجہانی مسجد کہاجاتا تھا۔یہ مسجد1889 میں بھوپال کی ملکہ شاہجہاں بیگم نے رقم ادا کرکے تعمیر کرائی تھی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں برطانیہ میں حصول تعلیم کے لئے آنے والے مسلمانوں کو عبادت کے لئے جگہ میسر نہیں تھی لہذا شاہجہاں بیگم کی جدوجہد کے بعد ڈاکٹر لائٹ نر نے یہ مسجد تعمیر کرائی جو انکی وفات کے بعد بند کردی گئی اور بارہ سال تک اس پر قفل پڑے رہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے پاکستانی حکومت اس مسجد کو فنڈز مہیا کررہی ہے۔

عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ مجدد اعظم حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ کے صرف بائیس خلفا تھے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ سلسلہ کی کتابوں میں آپ کے خلفاء کے جو نام دستیاب ہوئے ہیں ان کی تعداد تین سو سے زائد ہے لیکن حضرت نوشہ گنج بخشؒ کے کثرت فیض اور قبولیت عامہ کے پیشِ نظر یہ تعداد بھی بہت تھوڑی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت سیدنا برقؒ نے اس حوالے سے ایک کتاب تحریر کرکے آپؒ کے خلفا کا ذکر کچھ یوں کیا ہے۔
اصل میں حضور کے خلفاء کی کوئی فہرست آپ کے قریبی دور میں مرتب نہیں ہوئی۔ حضرت سید محمد سعید شاہ دولاؒ نوشہ ثانی کے عہد خلافت میں مرزا احمد بیگؒ نے رسالہ الاعجاز مرتب کیا ۔اس میں مرزا موصوف نے حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ کے حالات زندگی کے علاوہ آپؒ کے چند خلفاء کا بھی ذکر کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
’’حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ کے حالاتِ زندگی اگر میں عمر بھر لکھتا رہوں تو بھی ختم نہیں ہو سکتے محض سعادت حاصل کرنے کیلئے بطور یادگار (الاعجاز میں) میں نے صرف چند احوال اور مناقب بیان کئے ہیں‘‘
’’حضرت نوشہ گنج بخش کے مریدوں کی تعداد اس قدر ہے جسے قلمبند کرنا محال ہے‘‘۔
یہاں پر آپ کے چند مشہور خلفا کے اسمائے گرامی درج کئے جاتے ہیں۔
1۔ حضرت سید محمد قاسم شاہؒ دریا دل محدث اعظم فرزند اصغر و خلیفہ اوّل، حضرت نوشہ گنج بخشؒ المتوفی 1092ء مدفون مقبرہ نوشاہیہ نمل شریف۔
2۔ شیخ رحیم داد بن حضرت سخی شاہ سلیمانؒ نوری 1115ء بھلوال شریف ضلع سرگودھا۔
3۔ شیخ تاج محمود بن حضرت سخی شاہ سلیمانؒ نوری (1130ھ
4۔ حضرت حافظ سید محمد برخودارؒ بحر العشق فرزند اکبر حضرت نوشہ گنج بخش نمل شریف۔
5۔ حضرت حافظ محمد معموریؒ 1145ھ ہیلاں ضلع گجرات۔
6۔ حضرت پیر محمد سچیارؒ 1119 ھ نوشہرہ شریف ضلع گجرات۔
7۔ حضرت شاہ عبد الرحمٰن پاک 1153ھ بھڑی پاک رحمٰن ضلع گوجرانوالہ۔
8۔ امام اولیاء حضرت صالح محمد 1117ھ چک سادہ ضلع گجرات۔
9۔ حضرت خواجہ سید محمد فضیل وحی 1112ھ علاقہ کابل
10۔ حضرت حافظ محمد طاہر مجذوب 1136ھ کشمیر۔
11۔ حضرت علامہ قاضی خوشی محمد 1127ھ کنجاہ ضلع گجرات۔
12۔ حضرت شاہ صدر دیوان 1125 ھ رکھ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ۔
13۔ حضرت سید عبد اللہ مجذوب بخاری 1131 ھ لاہور۔
14۔ حضرت شیخ نانک عرف نانو مجذوب 1135ھ کلاسکے چیمہ ضلع گوجرانوالہ۔
15۔ حضرت شیخ مٹھاؒ مجذوب 1135ھ کنجاہ ضلع گجرات۔
16۔ حضرت شیخ محمد تقی مجذوب1133 ھ نوشہرہ شریف ضلع گجرات۔
17۔ حضرت فتح محمد قلندر عرف شاہ فتح دیوان 1158 ھ ساگری ضلع جہلم۔
18۔ حضرت شیخ عبدالحمیدؒ 1125ھ
19۔ حضرت علامہ ابو البقاؒ مدفون کنجاہ متوطن ملک شام۔
20۔ مفتی نذر محمد متوطن ملک شام۔
21۔ شیخ محمد اسماعیل کوٹلی جلال ضلع سیالکوٹ۔
22۔ حضرت علامہ رضی الدین کنجاہی، کنجاہ ضلع گجرات۔
23۔ حضرت سید شاہ محمد شہیدؒ رہتاس ضلع جہلم۔
24۔ حضرت حافظ نور محمدؒ رنگپور سیالکوٹ۔
25۔ حضرت سید شاہ عبد اللہ چومکہی عرف لڑشاب گہنوئی ضلع میرپور۔
26۔ حضرت شیخ محمد امینؒ لاہور
27۔ حضرت شیخ اللہ دادؒ بھڑی شریف ضلع گوجرانوالہ۔
28۔ علامہ حاجی مکتب دار سیالکوٹ۔
29۔ علامہ عبدالحکیمؒ سیالکوٹ۔
30۔ علامہ محمد اخوند عرف کمال الدین کشمیری سیالکوٹ۔
31۔ حضرت معروف چشتی سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ۔
32۔ حضرت رحمت اللہ گوجر، نون ضلع گجرات۔
33۔ حضرت محمد صادق چٹھہ۔
34۔ حضرت شیخ شاہ محمد، قطب قندھار
35۔ حضرت شیخ محسنؒ رہتاس ضلع جہلم۔
36۔ حضرت عاشق محمدؒ ، بن باجوہ ضلع سیالکوٹ۔
37۔ حضرت میاں شادیؒ ، رہتاس ضلع جہلم۔
38۔ حضرت سید عبدالقادرؒ ملکوال۔
39۔ حضرت میاں مست محمدؒ نورپور چاہلاں ضلع گوجرانوالہ۔
40۔ حضرت سید محمد اسماعیل شاہؒ ۔

(جاری ہے۔ گیارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)