شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . پہلی قسط

شہنشاہ بالی ووڈ کی زبانی انکی کہانی ’’ڈیلی پاکستان ‘‘ میں میں قسط وار۔انتہائی دلچسپ،حیران کن.ترجمہ۔راحیلہ خالد۔
سہانے بچپن کو یاد کرتا ہوں تو بے ساختہ کوہساروں کی سرزمین پر سپنے آنکھ کھول لیتے ہیں۔میرا جنم پشاور میں ہواتھا۔شمال مغربی سرحدی صوبے کے اہم اور مشہور شہر پشاور کی تاریخ بہت سی نامور شخصیات کے ناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے،جہاں میں پیدا ہوا۔ پشاور،پھولوں کے شہر،اناج کے شہر اور کنول کی سرزمین جیسے ناموں سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ میرے لئے پشاور انڈیا کا ایک حصہ تھا جہاں میں نے جنم لیا۔ میری طرح،میرے کئی دوست،جو مختلف مکتبۂ فکر اور مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں،تقسیم ہند سے پہلے والے پشاور میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند سے پہلے پشاور وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان واقع تھا اور انڈیا کیلئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا تھا،اسی لئے مجھے اپنی قومیت پر فخر ہے۔
مجھے اپنے وطن کے موسم،خوشبوئیں اور شوخ رنگ یاد ہیں۔ آنگنوں میں موسم خزاں کی آمد،خوبانی کے درختوں کے شوخ سرخ اور نارنجی پتوں میں دکھائی دیتی تھی۔ شام میں جیسے ہی اندھیرا چھانے لگتا تو پہاڑ قدرے لمبے دکھائی دینے لگتے اور ایسا لگتا جیسے وہ مجھے دھمکا رہے ہیں۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ کیسے میں اپنے ننھے ننھے پاؤں سے اپنے گھر کی طرف قدم بڑھاتا تھا۔ اور تب وہاں گھنی داڑھیوں والے خوبصورت مرد حضرات،جو کناروں سے مڑی ہوئی ٹوپیاں،روایتی ٹوپیاں اور پگڑیاں پہنے ہوئے ہوتے تھے،آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ میرے والدین کو جانتے تھے۔ اور مجھے اس طرح بھاگتے دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ میں اس طرح کیوں بھاگا جا رہا ہوں؟
ہمارا گھر شہر کے درمیان میں واقع قصہ خوانی بازار میں تھا۔ اس بازار کا نام قصہ خوانی بازار اس لئے پڑا کیونکہ بھٹکے ہوئے تاجر یا تو اپنی کہانیاں سنانے یا وہاں رہنے والے باسیوں سے ان کی کہانیاں سننے کیلئے وہاں رکتے تھے۔ جب میں سوچ بچار کے موڈ میں ہوتا ہوں تو اکثر میری آنکھوں کے سامنے مہابت خان مسجد،چھاؤنی کا علاقہ،بازار جہاں میں اپنے گھر کی عورتوں کیساتھ گھومتا تھا اور گلیاں جہاں برطانوی نوجوانوں کو گلابی اور سرخ رنگوں کے گلاب بیچے جاتے تھے جو وہ شاید،بہادری کے ساتھ اپنی بیگمات کیلئے لے جاتے تھے،جیسے مناظر کسی متحرک تصویر کی مانند نمودار ہوتے ہیں۔
پشاور کے شمال مغربی سرحدی علاقے کے باشندوں کیلئے سردیاں با قابل برداشت ہوتی تھیں۔ تاہم وہ سخت جان اور مضبوط لوگ اس موسم کی سختی اور شدت کے عادی تھے۔ سردیوں میں زیادہ تر دنوں کا آغاز سورج کی روشنی کے بغیر ہی ہوتا تھا۔ اور کوئی بھی شخص گھڑی پہ ٹائم دیکھے بغیر دن یا رات کا تعین نہیں کر سکتا تھا۔ پہاڑ اور پہاڑیاں،جو اس حسین منظر کا حصہ تھے،صبح کا زیادہ تر حصہ گزر جانے کے بعد ہی دکھائی دیتے تھے۔
سردیوں کے مہینوں میں جو لوگ نماز فجر کیلئے بیدار ہوتے تھے انہیں مسجد کے قریب وضو کیلئے رکھے ٹینکوں کے پانی کی سطح پر جمی برف کی چادروں کو توڑنے کی آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا۔ برف جیسا ٹھنڈا پانی اور اس کا جسم کے چھلے ہوئے حصے پر پڑتے ہی درد کی چبھن،میری یادوں میں آج بھی تازہ ہیں۔ چاہے وہ موسم سرما کی سختی ہو یا پھر موسم گرما میں میدانی علاقوں میں تواتر سے چلنے والے مٹی کے طوفان،کھیتوں اور باغات میں محنت مشقت کرنے والوں کیلئے زندگی آسان نہیں تھی۔
چاچا عمر مجھے بہت اچھی طرح یاد ہیں۔وہ ہمارے گھر کے پاس ہی رہتے تھے لیکن ان کے دن کا زیادہ تر حصہ ہمارے گھر میں ہی گزرتا تھا۔ وہ،ہمارے والد آغا جی کے ساتھ ہمارے باغات سے پھل لینے جاتے تھے۔ وہ سردیوں میں سردی اور گرمیوں میں گرمی کی شکایت کرتے نظر آتے تھے۔ وہ زیادہ تر گھر میں رہنا پسند کرتے تھے لیکن ایسا کرنا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ بلاشبہ وہ ایک ایسے انسان تھے جو ہر قسم کے موسم کا مقابلہ کرتے تھے اور میرے والدین اور دادا،دادی ہر مشکل وقت میں اور اس کے علاوہ اگر انہیں کبھی بھی کسی بھی وقت کوئی چیز منگوانی ہوتی تھی تو وہ چاچا عمر سے ہی کہتے تھے۔ وہ آغا جی کے کزن تھے۔ اور میرے خیال میں وہ بھی ہمارے گھر میں انہیں دی جانے والی ہر فن مولا کی حیثیت کا خاموشی سے لطف اٹھاتے تھے۔
چاچا عمر اس رات کا ذکر کثرت سے کرتے تھے جس رات میری پیدائش ہوئی تھی اور سناروں کی گلی میں جہاں ان کی دکانیں اور ورکشاپیں تھیں،آگ بھڑک اٹھی۔ ہمارے گھر کی گلی کا شمارقصہ خوانی بازار کی مصروف ترین گلیوں میں ہوتا تھا۔ وہاں سناروں کے گھر تھے اور ورکشاپیں بھی۔ اس گلی میں دن رات لوگوں کا کاروباری یا ذاتی سرگرمیوں کے حوالے سے رش لگا رہتا تھا۔ حتیٰ کہ تب بھی جب باقی ساری دکانیں بند ہو چکی ہوتی تھیں۔
جس رات میں پیدا ہوا ،اس رات آگ کا بھڑکنابھی ایک داستان بن گیا تھا۔ اس رات دکاندار اپنی دکانیں بند کر رہے تھے تو ان میں سے ایک دکان میں آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کی مدد سے وہ آگ بڑی تیزی سے شعلوں کی شکل اختیار کر گئی۔ اور اس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خوف اور گھبراہٹ کا ایک عالم تھا اور بہت سے مرد آگ بجھانے کیلئے پانی کی بالٹیاں بھر کر لانے کیلئے وہاں اکٹھے ہو گئے۔ یہ کام بہت کٹھن اور محنت طلب تھا کیونکہ سردی کی وجہ سے پانی کے ٹینکوں کے اوپری حصوں میں برف جم چکی تھی۔ لیکن سخت جان اور مضبوط جسم کے مالک پٹھان اپنے طاقتور مکوں کی مدد سے اوپری برف کی تہوں کو توڑ کر ٹینکوں کے نیچے سے پانی کی بالٹیاں بھر کر لا رہے تھے۔
جاری ہے. دوسری قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
۔
دوصدیوں سے دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار کا اصل نام یوسف خان ہے۔ وہ ٹریجیڈی کنگ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1944 ء سے لیکر 1998 ء تک 60 سے زائد بھارتی فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے اور اپنا لوہا منوایا۔ ان کی سب سے پہلی فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ تھی جو 1944 ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر نامور فلموں میں انداز،آن،دیوداس،آزاد،مغل اعظم،کنگا جمنا،شکتی،کرما،کرانتی،سوداگر شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم ’’قلعہ‘‘ تھی جو 1998 ء میں پردۂ اسکرین پر نمودار ہوئی۔ انہیں 9 فلم فئیر ایوارڈ کے علاوہ بھارتی حکومت کی طرف سے ’’ پدما بھوشن ایوارڈ‘‘،’’دادا صاحب پھالکی ایوارڈ‘‘ اور پدما ویبھوشن ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ اور 2015 ء میں انہیں راجے سبھا میں اعزازی سیٹ بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ 1997 ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں سینئیر فوجی اعزاز ’’ نشانِ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ دلیپ کمار کی زندگی کھلی کتاب کی طرح نہیں ہے ۔انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بہت کم کسی کو بتایا ہے لیکن دوستوں کے اصرار پر انہوں نے اپنی کہانی خود پر شائع ہونے والی کتاب میں بیان کی ۔انکی داستان حیات دو تہذیبوں اور دو سرزمینوں پر پھیلی ہوئی ہے،ماضی کی شاندار روایات اور دور حاضر کی حشرسامانیوں کے باوجود دلیپ کمار نے اپنا انداز نہیں بدلا ۔یہ داستان کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔روزنامہ پاکستان آن لائن کے قارئین کو یہاں دلیپ کمار کی داستان حیات انہی کی زبانی سنائی جارہی ہے۔ )