شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . چوتھی قسط

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز.... روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ ترجمہ : راحیلہ خالد
دادی لمبے قد کی،چوڑے کندھوں والی خاتون تھیں۔ جب وہ اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھتیں تو اس میں بالکل فٹ آتی تھیں۔ وہ پٹھانوں والی کھلی شلواریں اور گھیر والی قمیضیں پہنتی تھیں جس میں وہ زنانہ سے زیادہ مردانہ شباہت دیتی تھیں۔ ان کا سر ہمیشہ دوپٹے سے ڈھکا رہتا۔ اور کسی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے گرد ایک چادر لپیٹے رکھتیں جو ایک بستر کی چادر کے برابر ہوتی۔ جب میں کوئی شرارت کرنے کے بعد آغا جی اور اماں سے چھپنا چاہتا تو مجھے دادی کی چادر میں ہی پناہ ملتی۔ وہ میرے لئے اپنی بڑی سی چادر کو ایک تنبو کی طرح کھول دیتیں اور مجھے ڈھونڈنے والوں کی نظروں سے چھپا لیتیں۔
تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چھوٹے یوسف کے گم ہونے پر گھر میں جو تجسس و اسرار بھری مشق شروع ہوتی،میں اس سے بہت لطف اندوز ہوتا۔ گھر کے کچھ لوگ ہی یہ اندازہ لگا پاتے تھے کہ میں دادی کی گود میں سر دبائے،انکی چادر میں چھپا ہوا ہوتا تھا۔ اماں اور پھوپھی بابجان یہ بڑبڑاتے ہوئے کہ یوسف پتہ نہیں کہاں ہے،اس کمرے کی کئی بار تلاشی لیتیں۔
دادی کے مجھ سے پیار کرنے کی ایک سے زائد وجوہات تھیں۔ ایک وجہ تو فقیر کی پیشگوئی تھی لیکن سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ میں اپنے بڑے بھائی نور سے بہت مختلف تھا۔ وہ مصیبت و پریشانی کا دوسرا نام تھا کیونکہ وہ ہمارے کزنز اور محلے کے لڑکوں سے لڑائی و ہاتھا پائی کرتا۔ اگرچہ وہ جھگڑے سنگین نوعیت کے نہیں ہوتے تھے لیکن پھر بھی ان لڑکوں کے والدین اپنی شکایات لیکر دادی کے پاس آتے۔ ہلکے رنگ کی آنکھوں اور دلفریب ادائوں والے نور بھائی جب شکایت لیکر آئے لڑکوں پر ہی سارا الزام تھوپ دیتے اور خود معصوم بن جاتے تو گھر کی عورتوں کی ہمدردی بھی انہی کے ساتھ ہوتی۔ لیکن دادی اتنی نادان نہیں تھیں کہ ان کے جھوٹ کو سچ مانتیں۔ البتہ ان کا یہ عمل قابل ستائش تھا کہ وہ نور میاں کو ان لڑکوں یا ان کے والدین کے سامنے نہیں ڈانٹتی تھیں۔ بلکہ وہ یہ کام تب کرتیں جب وہ لوگ چلے جاتے اور نور میاں کی درد بھری چیخوں کی آوازیں صرف گھر والے ہی سنتے۔
سکینہ آپا دادی سے دور رہتیں اور دادی بھی سکینہ آپا کی گھر والوں کے ساتھ بحث و تکرار کے دوران مداخلت نہ کرتیں۔ کیونکہ دل ہی دل میں وہ جانتی تھیں کہ سکینہ آپا کی طبیعت میں ضدی پن اور جھگڑا فساد کہاں سے آیا تھا۔
ایوب جو مجھ سے ڈیڑھ سال بڑا تھا،میری اس کے ساتھ اچھی دوستی تھی۔ گھر میں اس کی موجودگی کا احساس صرف تبھی ہوتا تھا جب وہ اور میں کھیلتے تھے اور سیڑھیوں پر ایکدوسرے کے پیچھے بھاگتے یا آنگن میں کھیلتے ہوئے شور مچاتے تھے۔
پھوپھی بابجان،اس خاندان میں اماں کی واحد دوست تھیں اور وہ حقیقت میں اپنی بھابھی جان کی گرویدہ تھیں۔ وہ ہمارے گھر کی پچھلی طرف نہر کے ساتھ بنے گھروں میں سے ایک میں رہتی تھیں اور چاچا عمر بھی وہیں رہتے تھے۔ اگرچہ پھوپھی بابجان اور چاچا عمر دونوں کے اپنے اپنے گھر تھے لیکن پھر بھی وہ دونوں زیادہ تر ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں ہی رہتے تھے۔ جو دو منزلوں پر مشتمل تھا اور اچھی طرز پر بنایا گیا تھا۔ اس گھر کو بناتے وقت گھر کے مردوں نے موسموں کی شدت و سختی اور چوروں سے گھر والوں کی حفاظت کو مدنظر رکھا تھا۔
سچ یہ تھا کہ میری دادی اپنی حاکمانہ طبیعت کی وجہ سے جانی جاتی تھیں اور گھر والے اسی وجہ سے ان سے ڈرتے تھے۔ انہوں نے یہ بات اچھی طرح باور کرا دی تھی کہ گھر کی بھاری ذمہ داریاں اٹھانے میں ان کی بیٹیاں ہرگز شریک نہیں ہوں گی۔ دادی جانتی تھیں کہ پھوپھی بابجان اماں کو پسند کرتی تھیں اور بہت سے مواقع پر دادی کی یہ جرات مند اور صاف گو بیٹی سب گھر والوں کی موجودگی میں انہیں تنقید کا نشانہ بناتی اور سب حیران ہونے کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں خوش ہوتے۔
میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اسکول میں،میں جس تنہائی کا شکار تھا،اس کا اثر میری گھریلو سرگرمیوں پر نہیں پڑا تھا۔ میری بڑی بہن سکینہ آپا لڑکیوں کے اسکول میں پڑھتی تھیں۔ بڑی ہونے کے ناتے،وہ اماں کے ساتھ ہاتھ بٹایا کرتی تھیں اور مجھے وہ زیادہ تر اماں اور پھوپھیوں کے ساتھ ہی نظر آتی تھیں۔ بڑی بہن ہونے کے ناتے وہ چھوٹے بہن بھائیوں پر رعب جماتی تھیں اور میں دیکھتا تھا کہ میرے بڑے بھائی نور اور ایوب ان کی پیٹھ پیچھے معصومانہ شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے۔ وہ انہیں مکڑیوں اور ان دوسرے حشرات سے ڈرانے کی ناکام کوششیں کرتے،جن سے زیادہ تر لڑکیاں ڈرتی ہیں۔
سکینہ آپا سخت مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ بارہ سال کی عمر میں بھی وہ میرے بھائیوں اور کزنز کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ وہ انہیں اس وقت پکڑتیں جب وہ ابھی شرارت کرنے جا رہے ہوتے اور جا کر ان کی شکایت دادی کو لگاتیں جو کہ گھر کی حکمران تھیں۔ سکینہ آپا مجھے کچھ نہ کہتیں کیونکہ وہ سمجھدار تھیں اور جانتی تھیں کہ میں اپنے دادا،دادی کا چہیتا بچہ تھا اور ان کے خلاف سازشوں میں بھی میرا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ میری دلچسپیاں قدرے مختلف تھیں۔
مجھے اماں کا دوپٹہ پکڑ کر انکے پیچھے پیچھے چلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ ہر وقت اپنا سر دوپٹے سے ڈھانپے رکھتی تھیں۔ وہ اس وسیع و عریض گھر،جس میں ہم رہتے تھے،کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک بڑی تیزی سے چکر لگاتیں۔ وہ چاہے گھر کے کسی حصے میں بھی ہوتیں،دادی کی انہیں دی گئی آوازوں کا جواب دینے سے کبھی نہیں تھکتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ دادی چاہتی تھیں کہ وہ ان کے پاس بیٹھ کر ان کی لڑائی جھگڑوں اور خون خرابے پر مبنی گپ شپ سنیں۔
میں اماں کے پیچھے چھپا ہوا ہوتا اور اماں اور دادی کے درمیان،پڑوس میں ہونے والے ڈراو¿نے یا مضحکہ خیز واقعات بارے جو گفتگو ہوتی اس کے دوران دادی کو میری موجودگی بارے کم ہی پتہ چلتا۔
ایک صبح دادی نے بڑی جلدی میں اماں کو بلایا اور حسب معمول میں بھی بڑے غیر محسوس طریقے سے ان کے پیچھے بھاگتا آیا۔ دادی غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھیں اور سرگوشی کے موڈ میں نہیں تھیں۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ بہت اداس اور پریشان تھیں۔ انہوں نے اونچی آواز میں اماں سے کہا،
” جلدی جائو! میتیں وہاں زیادہ دیر نہیں رہیں گی۔ تم جانتی ہو کہ اس معاملے کی پولیس تفتیش کرے گی۔ بیچارے والدین،اللہ پاک انہیں ہمت و حوصلہ دے۔ جلدی واپس آ جانا۔ “
جاری ہے۔ پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں