شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . گیارہویں قسط

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز۔۔۔ روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ترجمہ : راحیلہ خالد
میں گھر کے کسی کونے میں اکیلا بیٹھ جاتا جہاں کوئی مجھے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اب میں ان شاندار شاموں کے بارے سوچ کر محظوظ ہوتا ہوں کہ جب میں آغا جی اور دادا کے پہلو میں بیٹھ کر حیرانی سے منہ کھولے کہانیاں سنا کرتا تھا۔ تب کس نے یہ سوچا تھا کہ کئی سال بعد میں سینما میں قصے کہانیوں کو عملی طور پر پیش کر رہا ہوں گا۔
میرا ایک اور وقت گزاری کا مشغلہ ان خواتین اور مرد حضرات کی نقلیں اتارنا تھا جو میرے والدین سے ملاقات کیلئے آتے تھے۔ ایک دن اماں نے مجھے ایسا کرتے دیکھ لیا تھا اور میری نرمی سے سرزنش کی تھی۔ اور مجھے سمجھایا تھا کہ بڑوں کی نقل اتارنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ ایک مرتبہ جب میں خالہ مریم کی نقل اتار رہا تھا اور وہ غیر متوقع طور پر وہاں آ گئی تھیں اور انہوں نے مجھے انکی نقل اتارتے دیکھ لیا تھا۔ میں نے اماں سے یہ نہیں کہا تھا کہ میں خالہ مریم کی نقل نہیں اتار رہا تھا بلکہ میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ میں کچھ لمحے کیلئے خالہ مریم بننے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ وہ ایک دلچسپ شخصیت کی مالک تھیں۔ شاید لاشعوری طور پر میں آنے والے وقت کیلئے تیار ہو رہا تھا۔
دسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خالہ مریم ہمارے خاندان کی بلبل تھیں۔ وہ بہت اچھا گاتی تھیں اور ہم سب ان کی لوریاں سن سن کر بڑے ہوئے تھے۔ ان کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی تھی جو شوخ و چنچل طبیعت کا مالک تھا۔ اور بہت رنگین اور اسٹائلش لباس پہنتا تھا۔ وہ خاندان کے دوسرے مردوں سے بہت مختلف تھا۔ وہ دوسرے مردوں کے برعکس رسم و رواج کا بہت کم خیال رکھتا تھا۔ وہ کہیں سے سگار لے آیا تھا اور جب دوسرے مرد حقہ پیتے تھے تب وہ سگار پیتا تھا۔ خالہ مریم اچھے نین نقش کی خاتون تھیں اور وہ بھی ہولڈر میں سگریٹ پیتی تھیں۔ ان کے اور ان کے خاوند کے درمیان بہت سے اختلافات تھے اور وہ دونوں صرف لڑائی جھگڑے کے دوران ہی ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔ ان کے شوہر کے پاس ایک الماری تھی جو ان کا کل اثاثہ تھی اور وہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرتے تھے۔ خالہ مریم اکثر ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتی تھیں کہ،
’’ تم پیسوں اور خزانے پر ایسے بیٹھے ہو جیسے کوبرا سانپ اپنے پھن پھیلائے بیٹھا ہو۔۔۔انہیں قبر میں اپنے ساتھ لے جانا۔‘‘
اور جب خالہ مریم انہیں ایسا کہتی تھیں تو وہ اس پر ایک شریر قہقہہ لگاتے تھے۔ ان دونوں کا لڑائی جھگڑا اس عمر میں میرے لئے ایک تفریح ہوتی تھی۔ اصل ڈرامہ تب شروع ہوتا جب خالہ مریم اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لیتیں کیونکہ ان پر کوئی بد روح قابض ہو جاتی تھی۔
جمعے کے دن خواتین مارکیٹ جاتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ اماں ہمیشہ خالہ مریم کا انتظار کرتی تھیں جو تیار ہونے میں دیر لگاتی تھیں۔ اماں سادہ شلواریں قمیضیں پہنتی تھیں جو لمبی اور ڈھیلی ڈھالی ہوتی تھیں۔ ان کا سر ہمیشہ ڈھکا ہوا ہوتا تھا اور جب وہ باہر جانے لگتیں تو مکمل پردہ کرتیں۔ وہ جب برقعے میں ہوتیں تو ان کے پٹھان خواتین کے مردانہ قد کاٹھ کے مقابلے چھوٹی قد و قامت کی وجہ سے میں انہیں عورتوں کے ملبوسات اور برقعے بیچنے والی دکانوں میں موجود بھیڑ میں پہچانتا تھا۔
وہ ہر وقت کچھ چباتی رہتی تھیں،شاید وہ الائچی ہوتی تھی۔ میں ہمیشہ مارکیٹ میں ان کے ساتھ ہوتا تھا اور وہ میرے کھو جانے کے خوف سے میری حرکات و سکنات پر نظر رکھتی تھیں۔ خالہ بابجان اور پھوپھی مریم کے ایکدوسرے سے دوستانہ تعلقات نہیں تھے تاہم وہ دونوں اماں کی دیوانی تھیں۔ وہ دونوں سلک کے لباس پہنتی تھیں جبکہ اماں چھوٹے پرنٹ والے کاٹن کے کپڑے پسند کرتی تھیں۔ میں نے انہیں اپنے لئے کچھ خریدتے کم ہی دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ گھر کے لئے چیزیں خریدتی تھیں۔
جمعے کو مارکیٹ میں رش ہوتا تھا کیونکہ مرد حضرات بھی جمعہ کی نماز مرکزی مسجد میں پڑھنے کے بعد اپنے لئے خریداری کرنے مارکیٹ آتے تھے۔ جب اماں اپنا من پسند صابن مجھ سے منگوانا چاہتیں تو مجھے کچھ یوں آواز لگاتیں،
’’ یوسف میرا پیئرز سوپ صابن لانا۔‘‘ وہ اپنے استعمال کرنے والے صابن کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کرتی تھیں۔
جاری ہے۔ بارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں