شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . بارہویں قسط‎

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . بارہویں قسط‎
شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی ,انکی اپنی کہانی. . . بارہویں قسط‎

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز۔۔۔ روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ترجمہ : راحیلہ خالد

مارکیٹ کے ایک طرف کھانے پینے کی اشیاء کی دکانوں کی قطار تھی جہاں انار دانے والے چپلی کباب اور روٹی اور اس کے علاوہ چاول کی بنی ڈشیں اور دوسری ہلکی پھلکی نمکین چیزیں ملتی تھیں۔ ان دکانوں پر ہر وقت رش ہوتا تھا کیونکہ جب سالنوں اور کبابوں کی اشتہا انگیز مہک وہاں سے گزرنے والوں کے نتھنوں سے پوری قوت سے ٹکراتی تو وہ انہیں کھانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اور ان کا اپنی بھوک پر قابو پانا مشکل ہو جاتا تھا۔
وہاں خوبصورت سلک اور کاٹن،تمام رنگوں کی لیسوں،دوپٹوں اور پراندوں کی بھی دکانیں تھیں۔ اس وقت ہم ایک غیر تقسیم شدہ بھارت میں رہتے تھے اور وہاں کافی تعداد میں ہندو بھی بستے تھے۔ مارکیٹ چوک میں ہندو مردوخواتین اور مسلمان مردوخواتین ایک دوسرے سے کھلے عام ملتے تھے اور ہمیشہ خوشی سے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے الفاظ و جذبات کا تبادلہ کرتے تھے۔ آغا جی کے بہت سے ہندو دوست تھے اور ان میں سے ایک بشیشورناتھ جی تھے جو سول سروس میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ چند بار ان کا بڑا بیٹا بھی ان کے ہمراہ ہمارے گھر آیا تھا اور اس نے اپنی وجاہت سے خواتین کو انگشت بدنداں کیا تھا۔ وہ راج کپور کے والد پرتھوی راج کپور تھے۔

گیارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

بشیشورناتھ جی کا آغا جی سے بہت دوستانہ تھا۔ اور میں اکثر ان دونوں کو ممکنہ جنگ عظیم دوم اور پشاور کے باسیوں نے جنگ کی صورت میں اپنے لئے کیا ذخیرہ کیا ہوا تھا،اسکے بارے بات کرتے سنتا تھا۔ میں ان کی گفت و شنید بڑے غور سے سنتا تھا لیکن مجھے ان کی باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کس بارے بات کر رہے ہوتے تھے۔ وہ ایک شہر بارے بات کرتے تھے جو بمبئی کہلاتا تھا اور جہاں کاروبار کے بہت سے مواقع موجود تھے۔
پھر ایک دن میں نے آغا جی کو دادا کو یہ کہتے سنا کہ وہ کاروبار کے بہتر مواقع کی تلاش میں بمبئی جا رہے تھے اور پہلے وہ اکیلے جانا چاہتے تھے۔ جنگ ناگزیر تھی اور اس کا یہ اثر تو ہونا ہی تھا کہ اس صورت میں مارکیٹ میں فروخت کیلئے پہنچائی جانے والی اشیاء کو پشاور کے باغات سے مارکیٹ تک پہنچانا مشکل ہو جانا تھا۔ اس سے پہلے کہ مجھے آغا جی کے جانے بارے معلوم ہوتا وہ ایک صبح بمبئی چلے گئے تھے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ سکینہ بیگم میرے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھیں۔ وہ اپنی فطرت اور برتاؤ میں اماں کے بالکل برعکس تھیں۔ جب ہم پشاور میں رہتے تھے تب وہ قدرے چھوٹی تھیں۔ وہ اماں کی طرح خوبصورت تو نہیں تھیں لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ میں ایک دلکش شخصیت کی حامل تھیں۔ وہ ضدی تھیں اور عجیب طبیعت کی مالک تھیں۔ مجھے یہ بات اب بھی یاد ہے کہ وہ ہمیشہ اماں سے اختلاف کرتی تھیں اور ان دونوں کے درمیان ہر وقت ہلکی پھلکی چپقلش چلتی رہتی تھی۔ آغا جی ان کے جھگڑوں میں کم ہی دلچسپی لیتے تھے اور میرے خیال میں وہ ان جھگڑوں سے بے خبری کا دکھاوا صرف اس وجہ سے کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ عورتوں کا بغیر کسی بیرونی امداد کے اپنے خاندان کے اندرونی لڑائی جھگڑوں کو سلجھانے کا اپنا ہی ایک طریقہ ہوتا ہے۔
نور اور ایوب میرے بڑے بھائی تھے۔ نور صاحب،جیسا کہ مجھے انہیں بلانا چاہیے تھا،مجھ سے پورے پانچ سال بڑے تھے۔ اور ایوب صاحب صرف ڈیڑھ سال بڑے تھے۔ نور صاحب کمسنی ہی سے چست و چالاق تھے اور وہ اپنی شرارتوں سے مجھے اور میرے کزنوں کو حیران کر دیا کرتے تھے۔ ان کی شرارتیں وقت بوقت آغا جی کے سامنے آتی رہتی تھیں اور وہ ان پر چھڑی اٹھانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
صاف ظاہر تھا کہ آغا جی مار پیٹ سے اجتناب برت کر اپنے بیٹے کو بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن پشاور میں بیتے سالوں میں،جتنا مجھے یاد ہے،نور صاحب پر برسائے گئے ڈنڈے،ان کے ممنوعہ علاقہ جات کو کھوجنے و تلاشنے کے بے لگام جوش و ولولے پہ عارضی طور پر اثر انداز ہوتے تھے۔ ہر بار مار کھانے کے بعد نور صاحب کچھ دیر کیلئے خاموش ہو جاتے تھے۔ وہ آغا جی کا ان کے کاروبار پر واپس جانے کا انتظار کرتے اور ان کے پیچھے وہ اپنی شرارتیں اسی طرح جاری و ساری رکھتے۔ بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے،نور صاحب اپنے بڑے ہونے کے احساس میں حق بجانب تھے اور یہی بڑے پن کا احساس انہیں باور کراتا تھا کہ وہ ہم پر،جو ان سے چھوٹے تھے،حکم چلا سکتے تھے۔
شکر ہے کہ عمر کے فرق کی وجہ سے میں ان کی صحبت میں کم ہی رہا تھا۔ وہ مجھے کبھی کبھار مارکیٹ میں اپنے لئے الٹا کام کرنے کیلئے طلب کرتے تھے اور میں بڑی فرمانبرداری سے ان کا حکم بجا لاتا تھا کیونکہ میں ان کی بدمعاشی بارے اچھی طرح سے جانتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اماں کو تنگ کرتے تھے جو انہیں غلطیوں و کوتاہیوں سے باز رکھنے کی مسلسل کوشش کرتی تھیں۔
میں ایوب کے قریب تھا۔ وہ مجھ سے تھوڑا بڑا تھا اس لئے میں اسے ایوب کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور اس کے لئے مجھے اکثر ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ اپنے والدین کی موجودگی میں مجھے اسے ایوب صاحب کہہ کر مخاطب کرنا پڑتا تھا۔ وہ ہم سب کی طرح اسکول نہیں جاتا تھا۔ میں اس بات کو کبھی سمجھ نہیں سکا تھا کہ وہ گھر پر اردو میں کیوں پڑھتا تھا اور اس نے کبھی بھی اسکول کی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ میری اور نور صاحب کی طرح صحتمند نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کوئی پیدائشی مسئلہ تھا جس کے بارے مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں تھا اور یہ بات بالکل قابل فہم ہے کہ مجھے اس سے آگاہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ اللہ پاک نے اس کی معذوری کی بھرپائی اس طرح کی تھی کہ ایوب صاحب کو ایسی ذہانت اور حسوں سے مالامال کر دیا تھا کہ جو عام انسان کے پاس نہیں ہوتیں۔ وہ خاص طور پر اللہ پاک کی طرف سے نوازا گیا تھا اور میرے والدین اس پر فخر کرتے تھے۔

(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)