نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ دسویں قسط

نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ دسویں قسط
نامور کرکٹر وسیم اکرم کی ان کہی داستان حیات۔۔۔ دسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر۔شاہدنذیرچودھری

وسیم ان شارجہ
1989ء میں شارجہ کپ کا میدان سج رہا تھا۔ وسیم اکرم پوری فارم میں تھا۔ وہ تازہ تازہ کاؤنٹی کھیل کر آیا تھا ویسے بھی اس کے انگ انگ میں پہلی محبت نے توانائیاں بھر دی تھیں۔اب اس کے بہانے سپنوں میں رنگ بھرنے والا بھی آچکا تھا لہٰذا اس نے شارجہ کے م یدان میں کچھ کر گزرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ اس بار دنیائے کرکٹ کو یہ باور کرادے گا کہ وہ ایک مکمل آل راؤنڈر ہے۔شارجہ کپ کے لئے پاکستان، انڈیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں کھیل رہی تھیں۔
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جب میچ شروع ہوا تو خشک اور گرم موسم کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ موسیم وسیم کو بڑاراس آیا۔ ویسٹ انڈیز کے بلے باز پاکستان کو شکست سے دو چار کرنے کے لئے پاکستانی باؤلروں کی خوب دھلائی کررہے تھے۔پہلے تو وسیم اکرم کے تمام حربے ناکام ہوتے رہے مگر جونہی اس نے اپنی سوئنگ یارکروں کو استعمال کیا تو ویسٹ انڈیز کے تین مایہ ناز بلے باز اوپر تلے آؤٹ ہو گئے اور وسیم اکرم نے شاندار ہیٹ ٹرک کا اعزاز حاصل کرلیا۔ وہ دوسرا پاکستانی باؤلر تھا جس نے ہیٹ ٹرک کی تھی۔اس سے پہلے جلال الدین نے آسٹریلیا کے خلاف ہیٹ ٹرک کی تھی۔ پہلی بال پر وسیم اکرم نے ڈوجون کوبو لڈ کیا۔ اگلی گیند پر مارشل اور تیسری گیند پر کرٹلی امبروز کی وکٹیں اڑ گئی تھیں۔
شارجہ کپ کا فائنل بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوا۔ تمام میچوں میں وسیم کی کارکردگی بہت اچھی تھی۔ ویسے بھی وہ اپنے آئیڈیل کپتان عمران خان کی زیر قیادت کھیل رہا تھا لہٰذا اس کے کھیل کا نکھر جانا بڑی عجیب بات نہیں تھی۔
فائنل کے روز وسیم اکرم بے حد خوش دکھائی دے رہا تھا کیونکہ اس روز ہما بھی شارجہ آئی ہوئی تھی۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان کو274رنز کا ٹارگٹ دیا تھا۔ عمران خان نے محسوس کیا کہ بھارت کو ہرانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اووروں میں تیز رفتار بلے بازوں کو بھیجا جائے لہٰذا اس نے وسیم ا کرم کو ون ڈاؤن بھیج دیا۔وسیم اکرم نے جاتے ہی بھارتی باؤلروں کی دھلائی شروع کر دی۔ اس نے صرف22بالوں پر چار چھکوں کی مدد سے37سکور بنائے اور جب وہ واپس پویلین میں آیا تو پاکستان کے سکور کی اوسط اطمینان بخش تھی۔
شارجہ کے بعد نہرو کپ میں بھی وسیم اکرم نے اسی جذبے اور جنون کی مدد سے پاکستانی ٹیم کو فتح دلوائی۔1989ء میں بھارت نے نہرو کپ کا انعقاد تو پوری دنیا کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ٹیموں نے اس میں شرکت کی۔ ابتدائی میچوں میں پاکستان کی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں تھی البتہ چند پول میچ جیتنے کے بعد پاکستان بھارت کو شکست دے کر سیمی فائنل میں جا پہنچا۔ فائنل میں اس کا ٹکراؤ انگلینڈ کے ساتھ وا اور اسے شکست دے کر فائنل میں پاکستان کا ویسٹ انڈیز سے مقابلہ ہوا۔یہ میچ کلکتہ کے ایڈن گارڈن اسٹیڈیم میں ہو رہا تھا۔ سارا ہجوم ویسٹ انڈیز کا حمایتی تھا۔ اسٹیڈیم پاکستانی ٹیم کے خلاف جنونی نعروں سے گونج رہا تھا۔ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 272رنز کا ہدف دیا۔ عمران خان نے اس بار بھی آخری کھلاڑیوں کے ساتھ معجزہ دکھایا۔میچ اپنے اختتام کے قریبس تھا اور پاکستان کو میچ جیتنے کے لئے دو گیندوں پر چار رنز کی ضرورت تھی جب ووین رچرڈ اپنے ریگولر باؤلروں سے اوور کرانے کے بجائے خود باؤلنگ کرانے آگیا۔ اس نے چوتھی بال پر اکرم رضا کو آؤٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب وسیم اکرم آیا تو صورت حال بڑی نازک ہو چکی تھی۔ باولنگ اینڈ عمرزان خان کھڑے تھے۔وہ وسیم اکرم کے پاس گیا اور اسے سمجھایا۔

نویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’بال کو سنبھال کر کھیلنا اور سٹرائیک کے لئے مجھے ادھر آنے دینا‘‘۔وسیم اکرم نے ہدایت ذہن نشین کرلی۔عمران خان اس وقت پچپن کے سکور پر تھا لہٰذا اسے یقین تھا کہ وسیم اکرم نے سنگل سکور لے کر سٹرائیک انہیں دے دیا تو وہ بآسانی تین سکور بنالے گا۔
وسیم اکرم کے لئے ویوین رچرڈ نئے باؤلر کی حیثیت دیکھتے تھے۔ اس سے قبل اس نے انہیں کبھی نہیں کھیلا تھا۔ بہرحال وہ ذہنی طور پر چوکس تھا۔ ویوین رچرڈ نے جونہی اپنی پانچویں بال پھینکی وسیم اکرم نے بال کو اپنے پیروں کے پاس گرتے ہوئے محسوس کیا اور بلے کو کسی لاٹھی کی طرح گھما دیا۔ دوسرے ہی لمحے بال اڑاتی ہوئی باؤنڈری پر کھڑے فیلڈر کے ہاتھوں کے اوپر سے ہوتی باہر جاگری اور اس شاندار چھکے کی بدولت پاکستان نے نہرو کپ جیت لیا۔

1989ء کا سیزن گہما گہمی لئے ہوا تھا۔وسیم اکرم نے کاؤنٹی کے بعد شارجہ کپ اور اس کے بعد نہرو کپ کھیلا تھا۔ اب وہ واپس انگلینڈ جانا چاہتا تھا مگر جب اسے معلوم ہوا کہ بھارت کی ٹیم پاکستان آرہی ہے تو اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ بھارت اور پاکستان ایک عرصہ کے بعد چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے والے تھے۔ اس بار پاکستان کرکٹ بورڈ نے تاریخ ساز فیصلہ کیا اور اس سیریز کے لئے غیر جانبدار امپائر مقرر کئے۔ امپائر انگلینڈ سے بلوائے گئے تھے اور یہ پہلی سیریز تھی جو کسی ناخوشگوار واقہ کے بغیر ختم ہو گئی۔ اس سے قبل امپائروں کے متنازعہ فیصلوں کی بدولت پاکستان کی انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، بھارت اور سری لنکا کے ساتھ معاندانہ روش چل رہی تھی۔ اس سیریز میں وسیم اکرم نے18وکٹیں حاصل کیں۔خاص طور پر ایک اننگ میں5وکٹیں حاصل کرکے اس نے اپنی بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ دکھایا۔
1989ء کے آخر میں ہی پاکستان آسٹریلیا کیلئے روانہ ہو گیا۔ عمران خان نے وسیم اکرم کو آسٹریلیا کے خلاف بھرپور استعمال کیا۔جب پہلا ٹیسٹ ملبورن میں ہوا تو وسیم اکرم نے پہلے دن کے کھیل میں چھ آسٹریلوی بلے بازوں کو آؤٹ کرکے ان کی اننگ کے پرخچے اڑا دیے۔اگلے روز کے کھیل تک آسٹریلیا کی ٹیم107سکور بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ البتہ دوسری اننگ میں آسٹریلیا بھاری سکور بنانے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے پاکستان کو 480رنز کا ہدف دیا۔اس اننگ میں وسیم نے ایک بار پھر پانچ وکٹ لیے۔
پاکستان آسٹریلیا سے یہ ٹیسٹ جیت جاتا مگر جانبدار امپائروں نے پاکستانی بلے بازوں کو غلط آؤٹ دے کر ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔ بہت عرصہ بعد پاکستان کو کھلاڑیوں کے بجائے امپائروں کی وجہ سے شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا۔اس ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں جب پاکستان کو جیتنے کے لئے صرف90سکور چاہئے تھے ،امپائروں نے چھ کھلاڑیوں کو غلط ایل بی ڈبلیو قرار دے کر پویلین میں بھیج دیا۔ عمران خان ان غلط فیصلوں پر پیچ و تاب کھاتے رہے۔مگر انہوں نے بڑی برداشت کے ساتھ ان غلط فیصلوں کو پی لیا۔
دوسرا ٹیسٹ ایڈیلیڈ میں تھا۔عمران خان کو اس کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ اس ٹیسٹ کے لئے غیر جابندار ایمپائروں کا مطالبہ کریں مگر عمران نے ان کا مشورہ قبول نہ کیا اور کہا:
’’ہمیں ان کی غلط کاریوں پر رونا نہیں چاہئے۔ اگر آسٹریلوی کھلاڑی اور ان کا کرکٹ بورڈ غلط طریقے سے اپنی ٹیم کو جتوانا چاہتے ہیں تو بے شک سارے ٹیسٹ جیت لیں مگر ساری دنیا کو ان کے کھیل کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔کیونکہ ٹی وی پر براہ راست میچ دیکھنے والوں کو ایمپائروں کے غلط فیصلوں کی پہچان ہو جاتی ہے‘‘۔
’’لیکن اس سے ہمارے کھلاڑیوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے‘‘۔جاوید میاں داد نے کہا تو اس کے جواب میں وسیم اکرم نے کہا۔
’’عمران بھائی ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہمیں اس صورتحال میں غیر جانبدار ایمپائروں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے۔اگر ہم نے ایک بار بھی یہ کہہ دیا تو ان کا پریس کہے گا پاکستان اپنی شکستوں کی خفت مٹانے کے لئے بہانے ڈھونڈ رہاہے۔ویسے مجھے یقین ہے کہ اس ٹیسٹ کے بعد ہمارے کھلاڑیوں کا مورال بلند ہو گا‘‘۔
دوسرے ٹیسٹ کا آغاز ہوا تو عمران خان نے وسیم اکرم پر ہی باؤلنگ کا انحصار کیا جس کے نتیجے میں وسیم نے پہلی اننگ میں پانچ وکٹ لیے۔دوسری اننگ میں وسیم اکرم نے اپنی فطرت کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کی۔ اسے جب بیٹنگ کے لئے بھیجا گیا تو پاکستان کے پانچ کھلاڑی صرف سو کے سکورپر آؤٹ ہو چکے تھے۔پہلے پہل تو اس نے عمران خان کی ہدایات پر سنبھل کر کھیلنے کی کوشش کی مگر اس نے دیکھا کہ بے جان وکٹوں پر باؤلر کی دھلائی کی جا سکتی ہے تو اس کے جارحانہ اسٹروکس کے باعث سکوروں کی بارش ہونے لگی۔ ایک بار تو عمران خان نے اس قدر تیز رفتاری سے سکور بنانے پر اسے ڈانٹ بھی دیا اور کہا:’’وسیم!تمہیں احتیاط کے ساتھ کھیلنے کی ضرورت ہے‘‘۔
’’عمران بھائی!آج مجھے کھل کر کھیلنے دیں‘‘۔وسیم اکرم نے اعتماد لہجے میں کہا۔’’میں اب سیٹ ہو چکا ہوں‘‘۔
عمران خان دوسرے اینڈ پر تھے اور کافی دیر سے وکٹ سنبھالے ہوئے تھے انہوں نے سرزنش کے انداز میں کہا۔’’وسیم !تم مجھے اسٹرائیک اینڈپر آنے دو‘‘۔
وسیم اکرم نے جب دیکھا کہ عمران خان کا اس پر داؤ بڑھ رہا ہے تو اس نے کہا:’’عمران بھائی!میں 60سے اوپر سکور بنا چکا ہوں۔صرف دو چار اوور مزید ٹھہر جائیں‘‘۔
(جاری ہے، گیارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

(دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے)۔