بیادِ پاکستان نیشنل سنٹر
خواتین و حضرات! بھلے دنوں کی بات ہے، جب ملک میں پاکستان نیشنل سنٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا جو ملک کے بڑے شہروں میں علم و ثقافت کی ترقی کے لئے کام کرتا تھا۔
یہ حکومت کی سرپرستی میں چلنے والی ایک ادبی، تعلیمی، ملی، ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی بیٹھک تھی جو خاصی حد تک آزاد اور خالصتاً تعمیری سرگرمیوں کے فروغ کے لئے قائم کی گئی تھی۔
یہاں سکول و کالج کے طلباء اپنی تعلیمی و غیر نصابی سرگرمیاں۔۔۔ جیسے تقاریر، بیت بازی، ٹیبلو اور دیگر لوگ ادبی محفلیں، کتابوں پر تبصرے اور رونمائی، تاریخی اور سیاسی مکالمہ و مباحثہ، شہرمیں آنے والے بیرون ملک کے ماہرین سے بات چیت، انٹرویو اور تبادلہ خیال کے لئے خصوصی نشست، سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے ادبی و ترقیاتی کاموں سے متعلق بات چیت، خصوصی عالمی دن منانا، اہم قومی دنوں پر تقریبات کا انعقاد اور محفل موسیقی کی خصوصی نشستیں رکھی جاتی تھیں۔
لاہور میں پاکستان نیشنل سنٹر کا خوبصورت ائر کنڈیشنڈ ہال جہاں ایک مستقل سٹیج بنا ہوا تھا، مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ میں قائم تھا۔
یہاں بلامعاوضہ پروگرام کرنے کی اجازت تھی۔ پروگراموں کے انعقاد کے علاوہ روزمرہ کی مصروفیات میں شہر کے مختلف اخبارات و جرائد کے مطالعہ کے لئے سہولت موجود تھی، جہاں طالب علم اور دیگر لوگ بڑی باقاعدگی سے آتے اور علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے ہال میں مستقل کرسیاں اور میزیں لگی تھیں، جو کسی تقریب کے وقت ہٹالی جاتیں، یہیں پر دستاویزی فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں۔
خواتین و حضرات! اسی نیشنل سنٹر کے ساتھ ایک لائبریری بھی قائم تھی، جہاں تقریباً ہر موضوع پر کتابیں پڑھنے اور ایشو کرانے کی اجازت تھی۔ لوگ یہاں سے کتابیں نکلواتے اور انہی کرسیوں پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے۔
پاکستان نیشنل سنٹر الفلاح بلڈنگ میں دوسری منزل پر واقع تھا۔ بلڈنگ میں لفٹ لگی ہوئی تھی جو اکثر خراب رہتی، مگر علم دوست لوگ اس سے بے نیاز سنٹر کی طرف کھچے چلے آتے، حتیٰ کہ محترمہ مسرت پراچہ صاحبہ جو ایک عملی و ادبی شخصیت تھیں اور وہیل چیئر استعمال کرتی تھیں، سیڑھیوں پر سے ہی اہل علم لوگوں کی مدد سے نیشنل سنٹر پہنچ جاتیں۔
اس سنٹر کو چلانے والوں میں نامور شاعر اور ادیب بطور ڈائریکٹر کام کرتے رہے، جن میں کشور ناہید اور اعزاز احمد آذر شامل رہے ہیں۔ اس سنٹر میں لاہور کی تقریباً تمام بڑی مقتدر اور ادبی شخصیات کو آنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملتا ، جس سے حاضرین فیض یاب ہوتے تھے۔
پاکستان نیشنل سنٹر ایک ایسا ادبی ثقافتی اور تعلیمی محاذ تھا، جہاں اہل علم و اہل ذوق آتے اور علم و ادب کے موتی بکھیرتے، جنہیں چننے کے لئے طالب علم اور دیگر نیاز مند بڑے شوق اور خلوص سے دامن پھیلاتے تھے۔
یہ ایک ایسا ادارہ تھا، جس نے ادب کی خدمت ہی نہیں کی، بلکہ اس کے فروغ کو ممکن بنایا، لوگوں میں تحریک پیدا کی، لکھنے کی، بولنے کی، بات اور گفتگو کی اور ایک دوسرے سے تعارف کی روایت ڈالی۔
یہاں ہم نے فیض احمد فیض، صوفی تبسم، اشفاق احمد، یوسف سلیم چشتی، احمد راہی، احمد ندیم قاسمی اور تقریباً ہر بڑی ادبی علم شخصیت کو سنا ہے۔اپنی ملازمت کے دوران ہم نے آبادی اور ترقی پر یہاں ایک سیمینار منعقد کیا تھا، جس میں خاص طور پر اشفاق احمد، لیئق احمد اور ابصار عبدالعلی نے شرکت کی۔
خواتین و حضرات، کمپیوٹر ، خاص طور پر موبائل فون نے جہاں ہمارے لئے رابطے کے حوالے سے سی آسانیاں پیدا کردی ہیں اور انفارمیشن و کمیونیکیشن کے حوالے سے ایک انقلاب برپا کردیا ہے، تاہم دوسری جانب عملی ادبی میدان میں بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس ترقی نے بہت سے اہم عملی و ادبی اداروں اور لائبریریوں کے بستر گول کردیئے ہیں۔ اب یہاں:
اداسی بال کھولے سورہی ہے
اسی طرح بہت سے ادبی اداروں، بشمول پاکستان نیشنل سنٹر پر بڑا غضب ڈھایا ہے۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی لائبریری جانے کا اتفاق ہوا۔ لائبریری کی تباہی و بربادی دیکھ کر دل خون کے آنسو رودیا۔ لائبریری کے درودیوار پر گرد، جالے اور گندگی جمی ہوئی تھی، کتابیں اور سکرپٹ دفن ہوچکے تھے۔
توقع کی جاتی ہے کہ نئی اسٹیشن ڈاریکٹر صاحبہ کے آجانے سے کم از کم اس لائبریری کی اندر باہر سے صفائی کی جائے گی اور کتابیں اور پرانے سکرپٹ پڑھنے کے لئے دستیاب ہوں گے، تاکہ ہم جیسے عشاقِ ادب اس سے فیض یاب ہوسکیں۔
ایسے اداروں کے اُٹھ جانے سے صرف ادبی وثقافتی بحران پیدا نہیں ہوا، بلکہ لسانی پستی بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، جس میں ’’موبائل شریف‘‘ کا اہم کردار ہے۔ اس پر دوست لوگ جو پیغام ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں، وہ رومن انگلش میں ہوتے ہیں، یعنی اُردو کو انگریزی میں لکھا جاتا ہے۔
یوں نہ اُردو، اُردو رہتی ہے اور نہ انگریزی، انگریزی۔ اس انداز کو اختیار کرنے والوں کی اکثریت انگریزی کے درست استعمال سے بے بہرہ ہوگئی تو دوسری جانب اُردو بھی گئی۔ یوں ہم لوگ آج کل ایک شدید ’’لسانی بحران‘‘ کاشکار ہیں۔
یوں تو آج کل بھی ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں، سیمینار وغیرہ ہوتے ہیں، لیکن کسی بڑے ہوٹل میں یا الحمرا کے ہال میں جہاں ایک بڑا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے اور کھانے پینے پر بھی خرچ اٹھتا ہے، یہاں حاضرین کی اکثریت ادبی موضوعات پر بات چیت میں کم اور ’’ہائی ٹی‘‘ میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
واپس آتے ہیں، پاکستان نیشنل سنٹرزپر، جو ادبی تقریبات کا ایک مضبوط قلعہ تھا، کیوں ڈھادیا گیا، اس کی وجوہات سے کم از کم ہم تو لاعلم ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس کے اُٹھ جانے کے بعد کہیں سے کوئی صدِائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔
کسی نے محسوس ہی نہیں کیا کہ ایک علمی و ادبی ادارہ ہمارے درمیان سے یوں اُٹھ گیا ہے:حکومتیں ترقی اور تعمیری پراجیکٹ پر اربوں خرچ کررہی ہے، مگر ذہنی ترقی کے لئے نہ تو انہیں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ان کی کسی ترجیح کا حصہ ہے۔
ورنہ اورنج ٹرین کی ایک بوگی کی قیمت سے نیشنل سنٹر قائم ہوسکتا ہے۔ پاکستان نیشنل سنٹر مرحوم کی یاد میں ہم نے اپنا نوحہ پیش کردیا ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ کوئی حکومتی نمائندہ یا ادارہ نہ تو اسے پڑھنے کی زحمت کرے گا، نہ اس پر غور کرے گا۔ آنے والے انتخابات 2018ء تک تو کسی ایسے منصوبے کے قیام کی توقع نہیں کی جاسکتی، جس کا علم، ادب، ثقافت یا لسانی ترقی سے تعلق ہو:
کس لئے کیجئے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش!
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ