یہ پولیس والے!
فلم کا نام تو مجھے یاد نہیں، وہ سین یاد ہے جس میں ایک جج صاحب پولیس افسر کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: ’’ہر جرم کے پیچھے پولیس کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘۔۔۔ یہ فلم لڑکپن میں دیکھی تھی، اس وقت تو یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی، مگر آج اس جملے کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔
ابھی دو روز پہلے لاہور کچہری میں قتل کا جو واقعہ پیش آیا، اس میں ملوث دونوں قاتلوں کی تصاویر علاقے کے ایس ایچ اوز کے ساتھ منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان تصاویر میں موجود ناجائز اسلحہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ پولیس والوں کو معلوم تھا کہ یہ لوگ جرائم پیشہ ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ بیٹھ کر سالگرہ کا کیک کاٹا گیا اور ایک قاتل اپنے ہاتھ سے تھانیدار کو کیک کھلا رہا ہے۔
یہ آگ اور پانی کا ملاپ کیسے ہو سکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ گھوڑا گھاس سے یاری لگائے تو کھائے کیا؟ پولیس والے اگر مجرموں اور قاتلوں سے دوستیاں لگائیں گے تو جرم کے خلاف جنگ کیسے لڑیں گے؟
کل ہی یہ خبر بھی چھپی کہ سرائے سدھو ضلع خانیوال میں ایک نوجوان عامر کو تھانیدار کے ڈیرے پر گلے میں پٹہ ڈال کر کتے کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا گیا، پھر منہ کالا کر کے پورے گاؤں میں گھمایا، الٹا لٹکا کر پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا۔
تھانیدار کے دوستوں کو شبہ تھا کہ اس کے ناجائز تعلقات ہیں، اس پر تھانیدار نے اپنا ڈیرا فراہم کر دیا اور اپنی عدالت کا انصاف بھی سنا دیا۔ اب اگر یہ تھانیدار اس سارے عمل کے پیچھے موجود نہ ہوتا تو ملزموں کو اس کی جرأت ہی نہ ہوتی۔
سب اسی بات کو رو رہے ہیں کہ راؤ انوار پکڑا نہیں جا رہا۔ راؤ انوار تو آپ کو پولیس میں جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ یہی راؤ انوار سندھ پولیس کی آنکھ کا تارا تھا۔ کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تھا، 9 سال سے وہ ملیر میں ایس ایس پی تھا۔
قانون کی دھجیاں تو خود آئی جی آفس نے اُڑا رکھی تھیں کہ پولیس رولز کے مطابق کوئی بھی افسر تین سال سے زائد ایک پوسٹ پر تعینات نہیں رہ سکتا، مگر راؤ انوار کے لئے یہ قانون ختم کر دیا گیا تھا۔
چار سو سے زائد بندے مارنے والا اب بھی قابو نہ آتا، اگر خدا کی پکڑ نہ آ جاتی۔ نقیب اللہ محسود کا فیس بک پیج راؤ انوار کے لئے پھندہ بن گیا، اگر اس کی معصومانہ اور سوشل تصاویر سامنے نہ آتیں، اپنے بچوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے اس کے ایک پر امن شہری ہونے کا تاثر نہ اُبھرتا تو راؤ انوار کی کہانی پہلے کی طرح سب نے مان لینی تھی اور اسے دہشت گردوں کو مارنے والا بہادر پولیس افسر قرار دینا تھا۔
آج سندھ کے آئی جی تفتیش کا پلندہ اٹھا کر سپریم کورٹ میں پہنچ گئے ہیں اور علی الاعلان تسلیم کر رہے ہیں کہ نقیب اللہ کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔۔۔ مگر اس سے پہلے وہ کہاں سوئے ہوئے تھے اور راؤ انوار نے جن سوا چار سو افراد کو پولیس مقابلے میں مارا ان میں سے کتنے مقابلوں کی آئی جی نے تفتیش کرائی؟ آج محسود قبیلے نے کراچی میں جو دھرنا دے رکھا ہے، اس میں بیسیوں خاندان اپنے پیاروں کی جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکت کا رونا رو رہے ہیں۔ اے ڈی خواجہ آئی جی سندھ کو سندھ ہائیکورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک نے عہدے پر برقرار رہنے کا تحفظ دیا، مگر عملاً تو وہ پھر بھی سیاسی دباؤ میں رہے اورا نہوں نے راؤ انوار جیسے بندے مار پولیس افسر کو ملیر سے تبدیل نہ کیا۔
مجھے یاد ہے کہ 1990ء میں سردار محمد چودھری آئی جی پنجاب پولیس تھے۔ میں ملتان رینج پولیس کے جریدے ’’پولیس میگ‘‘کا ایڈیٹر تھا۔ انہی دنوں اس میگزین کے لئے میں نے سردار محمد چودھری کا تفصیلی انٹرویو کیا۔
وہ ویسے تو پولیس کے بہت بڑے سپورٹر اور مبلغ تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ پولیس نظام انصاف کی پہلی سیڑھی ہے، لیکن وہ پردہ پوشی کرنے والے نہیں تھے۔ا نہوں نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سارے جرائم پولیس سے سمجھوتے کے بعد کئے جاتے ہیں۔
یہ معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اسے ٹھیک کرنے میں شاید صدیاں لگ جائیں۔ آپ ایک چیز ٹھیک کریں تو دوسری خراب ہو جاتی ہے، پولیس والے کسی جزیرے میں نہیں رہتے بلکہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں، وہ اکیلے کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں مجرم کو پسند کرنے والے معاشرے میں پولیس والے فرشتے کیسے ہو سکتے ہیں؟
سو وہ مجرموں اور قاتلوں سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں انہوں نے بڑی دلچسپ بات یہ کی کہ میں جب مختلف اضلاع میں جرائم کا گراف دیکھتا ہوں تو مجھے کسی سے پوچھے بغیر اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ کس ضلع میں پولیس کا جرائم پیشہ افراد سے یارانہ چل رہا ہے اور کس جگہ شدید دشمنی ہے۔
جہاں پولیس کی مجرموں سے دشمنی ہوگی، وہاں جرائم کی شرح سو فیصد کم ہو جائے گی،کیونکہ پولیس کے سامنے کوئی مجرم نہیں ٹھہر سکتا۔ وہ چونکہ پنجاب پولیس کے بہت بڑے حامی اور وکیل تھے، اس لئے یہ کہے بغیر بھی نہ رہ سکے کہ سب پولیس والے بکاؤ مال نہیں ہوتے، یہ جو پولیس میں شہیدوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے مجرموں سے یاری نہیں لگائی، بلکہ ان کے قلع قمع کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔
بدقسمتی سے پنجاب پولیس کو ایسا صاحب فکر آئی جی پھر دوسرا نہیں ملا، پھر یہ بھی ہوا کہ سیاست نے پولیس کو بالکل ہی زمین سے لگا دیا۔ ضلع کا ڈی پی او اور رینج کا آر پی او اگر ضلع و رینج کے ارکانِ اسمبلی کی غلامی اختیار کر لیں گے تو معاملہ قصور جیسا ہی نکلے گا۔
پولیس کی نوکری میں کبھی نہ کبھی تو ایسا موقع آہی جاتا ہے، جب وزیر اعلیٰ شہباز شریف غصے سے بھرے کسی ضلع کا دورہ کرتے ہیں، اگر ڈی پی او نے ارکانِ اسمبلی سے بنا کر نہیں رکھی اور میرٹ پر ضلع چلا رہا ہے تو یہی ارکانِ اسمبلی وزیر اعلیٰ کو بھڑکا دیں گے۔
پولیس کے مجرموں سے ملنے اور جرائم پیشہ لوگوں کو تحفظ دینے کا واویلا کریں گے۔ وزیر اعلیٰ آؤ دیکھیں گے نہ تاؤ، فوراً ڈی پی او کی معطلی کا حکم جاری کر دیں گے، کوئی انکوائری اورنہ صفائی کا موقع۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے ایسا ہی واقعہ ملتان میں رونما ہو چکا ہے۔
ایک بہترین پولیس افسر ضلع کا بہت اچھا نظام چلا رہا تھا۔ اپنے تمام پولیس والوں کو یہ واضح پیغام دے دیا تھا کہ کسی ایم این اے، ایم پی اے کی سفارش نہ کرائیں، وگرنہ انضباطی کارروائی کی جائے گی۔
میرٹ پر تقرریاں ہوں گی، اچھے افسران اور ماتحتوں کو شاباش ملے گی۔ اس دوران شجاع آباد میں ایک پنچائتی فیصلے کے تحت بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا، پولیس نے فوری ایکشن لیا اور ملزموں کو پکڑ لیا، مگر ضلع کے ارکانِ اسمبلی نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ سی پی او محمد احسن یونس کسی کی سنتے ہی نہیں، وہ عوام کے مسائل کیسے حل کریں گے؟ خادم اعلیٰ کو تو ایسا موقع چاہئے تاکہ ان کی موقع پر آمد کا کوئی جواز پیدا ہو، کوئی بریکنگ نیوز ہو، انہوں نے کھڑے کھڑے محمد احسن یونس کو او ایس ڈی بنا دیا اور لاہور چلتے بنے۔
وزیر اعلیٰ نے اس حوالے سے جو انکوائری کمیٹی بنائی، اس نے بعد ازاں یہ فیصلہ دیا کہ پولیس کا کوئی قصور نہیں تھا، سی پی او بر وقت موقع پر پہنچے اور انہوں نے فوری کارروائی کی، ایف آئی آر کا اندراج کیا، لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے۔
اب مجھے سمجھائیں کہ جو نیا سی پی او تعینات ہوا ہے، وہ ارکان اسمبلی کو کیسے ناراض کرے گا اور ارکانِ اسمبلی ان مافیاز کو کیسے ناراض کریں گے جو انتخابات میں ان کی انتخابی مہم پر پیسہ بھی لگاتے ہیں اور ووٹ دینے کے لئے اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں۔
سو یہ ایک تار عنکبوت ہے جس نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے۔ ایک گول دائرہ ہے جس میں ہم پھنس کر رہ گئے ہیں، ہم سب چاہتے ہیں، ہمیں فرشتوں جیسی پولیس مل جائے، لیکن خواہش یہ ہوتی ہے کہ پولیس کی طاقت استعمال کرکے اپنا ہر ناجائز کام کروالیں۔
آج پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے ایک چیز قدر مشترک بنی ہوئی ہے کہ سب پولیس کی نا اہلی یا پھر ظلم کا رونا رو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے ریمارکس دے رہی ہے اور لوگ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی دہائیاں دے رہے ہیں۔
وہ پولیس جسے مجرموں، قاتلوں، دہشت گردوں کے لئے خوف کی علامت ہونا چاہئے، عام آدمی کے لئے خوف کی علامت بن چکی ہے۔ راؤ انوار جیسے کرداروں نے پولیس کی ساری قربانیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔۔۔ لیکن ٹھہریئے صاحب! سارا نزلہ پولیس والوں پر بھی نہ گرایئے، یہ بتایئے کہ راؤ انوار جیسے کردار پیدا کس نے کئے اور اب اسے ایسی جگہ پناہ کس نے دے رکھی ہے جہاں ملکی قانون چڑیا کی طرح پر نہیں مار سکتا؟