فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر348

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر348
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر348

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری آنکھوں کے سامنے بادلوں میں ایک دونئے چہرے بھی نمودار ہوگئے۔ وہ سب کپڑے کی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے اور ان کے چہروں پر دہشت گردوں جیسے نقّاب تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک فرشتے نے عینک بھی لگا رکھی تھی۔ ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ کیا فرشتے بھی عینک لگاتے ہیں؟ اس کے بعد اچانک ہم ایک بہت گہری اور تاریک وادی میں ڈوب گئے۔ ہمارے ذہن نے بتایا کہ ہم مر چکے ہیں اور ہم دنیا و مافیا سے بے خبر ہوگئے۔
ہمیں ہوش آیا تو یہ خیال بھی ساتھ ہی آیا کہ ہم تو مر چکے ہیں۔ نگاہوں کے سامنے بادلوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بادل بھی اُڑ رہے تھے اور ہم بھی پرواز کر رہے تھے۔ ہم سوچنے لگے کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ مرنے کے بعد ہم جنّت میں ہیں یا دوزخ میں؟ اس کے ساتھ ہی ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
دوبارہ ہوش آیا تو ہم بدستور بادلوں میں اُڑ رہے تھے۔ بادل کافی تیزی سے ہمارے آس پاس سے گزر رہے تھے۔ دراصل ہمیں آپریشن تھیٹر سے باہر کمرے کی طرف لے جایا جا ر ہا تھا۔ ہماری پرواز جاری تھی کہ کہیں سے ایک زنانہ شکل نمودار ہوئی اور وہ چہرہ ہمارے ساتھ ساتھ پرواز کرنے لگا۔ ہم نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونے کی کوشش کی مگر کچھ ہاتھ میں نہ آیا۔ ہم نے پوچھا ’’سنو کیا تم حور یا پری ہو؟‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر347 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جواب ملا ’’آفاقی صاحب! میں رخسانہ ہوں۔ (چیکو)‘‘
’’اوہو۔ یہ تو فلم ایکٹریس رخسانہ ہے مگر یہ آسمان پر کیسے آگئی؟ کیایہ بھی مر گئی ہے؟‘‘ اس کی جواں مرگی کا بہت افسوس ہوا۔ اس کے بعد ہم پھر مر گئے اور تاریکی میں ڈوب گئے۔
سونے جاگنے اور مرنے جینے کا یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا پھر جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو دنیا کا سامان نظر آنے لگا۔ کمرہ فرنیچر ایک نرس ڈاکٹر ایک دو پریشان صورت رشتے دار۔
ہمیں آنکھیں کھولتے دیکھا تو سب خوش ہوگئے ہمیں کچھ عجیب سا لگا۔ بھئی ہم تو مر گئے ہیں۔ تو پھر یہ سب چیزیں اور یہ مانوس لوگ کہاں سے اور کیسے آگئے؟
ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھام لیا اور انگریزی میں پوچھا ۔
’’ہیلو علی اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟‘‘
یہ ڈاکٹر ڈنلپ تھے۔ ہم انہیں پہچان گئے ہم نے اپنا ہاتھ ہلانا چاہا مگر انہوں نے روک دیا’’ حرکت نہ کر نا تمہارے بازو میں ڈرپ لگا ہوا ہے۔ خون دیا جا رہا ہے۔‘‘
ہمیں یکایک سب کچھ یاد آ گیا۔ اوہو۔ ہمارا تو آپریشن ہوا تھا اور ہم ابھی تک زندہ ہیں اور دنیا ہی میں ہیں۔ ہم نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔
دو دن تک ہمارے لئے حرکت کرنا بھی دشوار تھا۔ ہمیں ارد گرد تکیے لگا کر چت لٹا دیا گیا تھا۔ پیٹ میں سخت تکلیف اور درد تھا۔ ڈاکٹر نے مطلّع کیا کہ تمہارا پیٹ کٹا ہوا ہے۔ احتیاط سے لیٹے رہو اور برداشت کرتے رہو۔ تکلیف ناقابل برداشت ہو جائے تو نرس کو بتا دینا۔ پھر وہ نرس کو کچھ ہدایات دے کر رخصت ہو گئے۔ ہم نے سوچنا چاہا مگر نیند سی آ گئی مگر اس بار پوری طرح احساس تھا کہ ہم مرے نہیں ہیں‘ بے ہوش ہو رہے ہیں۔
تیسرے دن نرس اپنی سپروائزر کے ساتھ آئی اور اس نے ہم سے کہا ’’مسٹر آفاقی! آپ کو اٹھ کر نیچے اس کرسی پر بیٹھنا ہے۔‘‘ کرسی ہمارے بیڈ کے برابر ہی رکھی ہوئی تھی مگر جس شخص کیلئے حرکت کرنا بھی مشکل ہو وہ بیڈ سے اتر کر کرسی پر کیسے بیٹھ جائے؟
اس نے کہا ’’فکر نہ کیجئے۔ ہم دونوں آپ کو سہارا دے کر اٹھائیں گے۔ بالکل تکلیف نہیں ہو گی۔‘‘
ہم نے چڑچڑے پن سے کہا ’’آپریشن ہمارا ہوا ہے یا تم دنوں کا؟ ہم کو ہاتھ مت لگانا۔ بہت تکلیف ہے۔‘‘
وہ بولی ’’ڈاکٹر کا آرڈر ہے۔ آپ کو کرسی پر بیٹھنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’ہرگز نہیں بیٹھیں گے۔ ہمیں ہاتھ لگایا تو بہت بُرا ہو گا۔‘‘
نرسوں نے بے بسی سے آپس میں نگاہوں کا تبادلہ کیا اور چپ چاپ رخصت ہو گئیں۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر ولیم تشریف لے آئے ’’ہیلو کیا مسئلہ ہے؟‘‘
ہم نے ان سے نرسوں کی شکایت شروع کر دی ’’ہمیں اتنی سخت تکلیف ہے اور یہ ہمیں اٹھ کر کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہہ رہی ہیں۔ آپ انہیں کچھ عقل سکھایئے۔‘‘
وہ سنتے رہے پھر بولے ’’یہ میرے کہنے پر ایسا کر رہی ہیں۔‘‘
ہم نے لاجواب ہو کر انہیں دیکھا۔
انہوں نے کہا ’’آج آپ کرسی پر بیٹھیں گے اور کل آپ کو خود چل کر باتھ روم جانا ہو گا۔‘‘
’’کیا؟ آپ مذاق تو نہیں کر رہے؟‘‘
انہوں نے نرسوں سے کہا ’’انہیں اٹھایئے اور آرام سے کرسی پر بٹھا دیجئے۔‘‘
کہنے اور کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ہم کس طرح اٹھے اور کتنی تکلیف برداشت کر کے کرسی پر بیٹھے‘ یہ ہمارا دل ہی جانتا ہے۔
’’شان دار‘‘ ڈاکٹر نے تعریفاً کہا اور رخصت ہو گئے۔
دوسرے دن ڈاکٹر ولیم سویرے سویرے آئے تو کاغذ اور قلم سنبھال کر ہمارے پاس بیٹھ گئے۔ انہں نے کاغذ پر ہمارے معدے کا نقشہ بنایا اورپھر یہ بتایا کہ ہمارے معدے کا کون سا نصف سے زیادہ حصّہ کاٹ کر نکال دیا گیا ہے اور غذا کی نالی کو باقیماندہ معدے میں کس طرح اور کس جگہ جوڑ دیا گیا ہے۔ ہمارے معدے کے اندر سے کہاں کہاں زخم تھے اسلئے کہاں کہاں سے ہمارے معدے میں سے زخمی شریانیں نکال دی گئی ہیں اور معدے کی متاثرہ دیواروں کو کھرچ دیا گیا ہے۔ گویا اب ہمارا معدہ مقامی طور پر اسمبل کر دیا گیا ہے۔
ہم نے پریشانی سے یہ سب کچھ سنا اور کہا ’’ڈاکٹر! اب کیا ہو گا۔ ہمارا معدہ تو بہت چھوٹا سا رہ گیا ہے اور وہ بھی کٹا پھٹا۔ ہم کھانا کیسے کھائیں گے اور کتنا کھائیں گے؟‘‘
ڈاکٹر ولیم مسکرائے ’’معدہ ہر ایک کا ایک ہی سائز کا ہوتا ہے۔ قدرت نے اس میں الاسٹک کی طرح پھیلنے کی صلاحیت رکھی ہے جو لوگ سیروں خوراک کھاتے ہیں ان کا معدہ بھی ہمارے آپ کے برابر ہوتا ہے۔ انسان معدے کو جتنا چاہے بڑھا سکتا ہے۔ آپ کو فی الحال ڈرپ کے ذریعے گلوکوز دی جائے گی۔ پھر رقیق غذا ملے گی۔ آٹھ دن کے بعد بسکٹ وغیرہ کھا سکیں گے۔‘‘
آپریشن کی تکلیف تو ہم نے برداشت کر لی مگر آپریشن کی وجہ سے جو تکالیف وقتاً فوقتاً ہو جاتی تھیں وہ برداشت سے باہر تھیں۔ ایک دن تو ہم نے واقعی چیخنا اور شور مچانا شروع کر دیا۔ نرسوں نے تسلی دی تو ہم انہیں بُرا بھلا کہنے لگے۔ وہ ہنستی ہوئی بھاگ گئیں۔
رات کے بارہ بج رہے تھے اور ہماری تکلیف برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔ ہسپتال میں رہ کر ہمیں تکلیف برداشت کرنے کی عادت پڑ چکی تھی مگر یہ تکلیف کسی طرح برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ نرسیں ہماری گالیوں کے جواب میں یہ اطلاع دے رہی تھیں کہ مسٹر ڈیوڈ کو خبر دے دی گئی ہے۔ وہ تھوڑی دیر میں آ جائیں گے تو آپ کی تکلیف ختم ہو جائے گی۔
ہسپتال کے دوران قیام میں یوں تو ہمیں بہت سے تجربات ہوئے مگر دو واقعات ہم کبھی نہیں بھول سکیں گے۔
ہم مارے تکلیف کے چیخیں مار رہے تھے کہ اچانک صوفی صاحب ہمارے کمرے میں آ گئے۔ ان کی عمر تیس بتیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک دو بار ہم سے ملاقات کیلئے آ چکے تھے۔ صحتمند آدمی تھے۔ چہرے پر سیاہ داڑھی تھی۔ باتیں بہت اچھّی کرتے تھے۔ پانچوں وقت کے نمازی تھے۔ دوسرے مریضوں کی خبر گیری میں لگے رہتے تھے۔ ہر لحاظ سے وہ ایک اچھّے آدمی تھے مگر ہاتھوں سے محروم تھے۔ ایک ہاتھ کی انگلیاں غائب تھیں۔ دوسرا ہاتھ کلائی تک تھا۔ معلوم ہوا کہ ایک بار وہ آگ میں جل گئے تھے۔ کئی ماہ زیرعلاج رہے اور بچ تو گئے مگر ہاتھوں سے محروم ہو گئے۔ ٹانگیں سلامت تھیں مگر ایک ٹانگ کا زخم کسی طرح ٹھیک ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ ناسور کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اس کا علاج کرانے کیلئے وہ ہسپتال میں کئی ماہ سے مقیم تھے۔ دنیا میں ان کے عزیز و اقارب نہ ہونے کے برابر تھے۔ خدا جانے کس طرح گزر بسر ہوتی تھی مگر اپنا ہر کام وہ خود کرتے تھے۔ کھانے پینے کیلئے بھی وہ دوسروں کے محتاج نہ تھے۔ ہر وقت ہنستے رہتے تھے۔
اس رات وہ ہمارے پاس آ کر چپ چاپ بیٹھ گئے اور ہمدردی سے ہمیں دیکھتے رہے۔ پھر پوچھا ’’کیا بہت زیادہ تکلیف ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’صوفی صاحب! برداشت سے باہر ہے۔‘‘
وہ بولے ’’آفاقی صاحب! اللہ تکلیف بھی انسان کو قوّت برداشت دیکھ کر دیتا ہے۔ اب یہ خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ اسے کیوں کر برداشت کرتا ہے۔‘‘
ہم نے جھنجھلا کر کہا ’’صوفی صاحب! جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔‘‘
صوفی صاحب اداسی سے مسکرائے۔ پھر کہا ’’آفاقی صاحب! آگ میں میرا تمام جسم جل گیا تھا۔ کھال اُتر گئی تھی۔ جسم گوشت کا لوتھڑا بن چکا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ اس پر آتشزدگی کی تپش آپ میری حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جسم کا یہ حال تھا کہ مجھے عام بستر پر نہیں لٹایا جا سکتا تھا۔ باریک تاروں والے لوہے کے بیڈ پر میں چھ ماہ بالکل چت لیٹا رہا۔ تار میرے جسم میں پیوست ہو جاتے تھے اور جسم کو حرکت دینے سے گوشت کے لوتھڑے الگ ہو جاتے تھے۔‘‘
ہم نے حیران ہو کر انہیں دیکھا اور پوچھا ’’تو پھر آپ اتنی تکلیف کیسے برداشت کرتے تھے؟ کیا ڈاکٹر انجکشن دے دیا کرتے تھے؟‘‘
بولے ’’انجکشن اور دوائی بے اثر ہو چکی تھی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر میں نے اللہ سے لو لگائی۔ ہر وقت قرآن کی آیات تلاوت کرتا تھا۔ ہر وقت اللہ کو یاد کرتا رہتا تھا۔ اچانک احساس ہوا کہ میری تکلیف غائب ہو چکی ہے۔ خیال آیا کہ تکلیف سوچنے یا چیخنے چلانے سے تو کم نہیں ہو گی۔ برداشت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور تکلیف سہنے کیلئے اللہ کو یاد کرنے سے بڑھ کر کوئی اور تسکین دینے والی دوائی نہیں ہے۔ اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہئے۔ وہ برداشت اور صبر بھی دے دیتا ہے۔‘‘
پھر انہوں نے اپنا جسم دکھایا جو ہر طرف سے نُچا ہوا تھا۔ ٹانگوں کا ناسور بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ہاتھوں سے وہ محروم تھے۔ پھر بھی خوش و خرّم اور مطمئن تھے‘ ہنستے بولتے بھی رہتے تھے۔ دوسرے مریضوں کا دل بہلاتے اور دکھ درد بانٹتے رہتے تھے۔ ہم نے سوچا کہ اس شخص کے مقابلے میں ہماری تکلیف تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ تو پھر ہم کیوں برداشت نہیں کر سکتے؟
ہم نے قرآن شریف کی آیات پڑھنی شروع کر دیں۔ یقین کیجئے۔ چند لمحے بعد سکون سا آ گیا۔ پندرہ منٹ بعد ڈیوڈ آیا تو ہم آرام سے چپ چاپ لیٹے ہوئے تھے۔ تکلیف کا احساس بہت کم ہو گیا تھا۔ یوں سمجھئے کہ صبر سا آ گیا تھا۔
صوفی صاحب کی نصیحت نے ہمیں زندہ رہنے کا ایک نیا انداز سکھا دیا تھا دوسرا واقعہ بھی سن لیجئے۔
ہم کافی ٹھیک ہو گئے تھے۔ تھوڑا بہت ٹہلتے بھی تھے مگر کھا نہیں سکتے تھے۔ اگر ایک بسکٹ کھا لیتے تھے تو دس منٹ تک ڈکاریں آتی رہتی تھیں۔ ہر چیز کا پرہیز تھا۔ دنیا کو صرف کھڑکیوں کے ذریعے ہی دیکھ سکتے تھے ورنہ دنیا کی تمام رنگینیوں سے بے تعلق ہی تھے۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر349 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کرین